لگتا ہے کہ ضلع لیہ کی عوام کیلئے قدرت کی طرف سے امتحان
کاوقت آگیا ہے۔ سانحہ کے بعد سانحہ کے تسلسل سے لگتا ہے کہ ضلع لیہ کے
باسیوں سے کوئی ایسی غلطی ہوگئی ہے جس کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔سانحہ کے
بعد رونماہونے والے سانحہ نے لیہ کی عوام کو صدموں سے دوچارکررکھا ہے۔چالیس
سے زائدہونے والی ڈکیتیوں کاغم کیا کم تھا کہ ایک ہفتہ کے وقفہ سے ہونے
والے دوٹریفک حادثات نے لیہ کی عوام کے غموں میں اضافہ کردیا۔پہلا حادثہ
لیہ سے راولپنڈی جانے والی بس کوہرنولی کے قریب ٹرالرسے ٹکرانے سے ہوا۔جس
میں سترہ افرادجاں بحق بیالیس زخمی ہوگئے۔میتوں اورزخمیوں کوبس کی باڈی کاٹ
کر نکالاگیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں بس کاڈرائیوربھی شامل تھا۔دوسرا حادثہ
لیہ کی ہی بس کوفیصل آبادکے قریب جھنگ روڈ ٹھیکری والاپر ہوا۔ جس میں بیس
مسافر دم توڑ گئے۔ ان جاں بحق ہونے والوں میں فتح پور، کروڑ اورلیہ کے چھ
مسافر بھی شامل ہیں۔ان حادثات سے پہلے کرنٹ لگنے سے لاکھوں روپے مالیت کی د
و بھینسیں بھی جاں بحق ہوگئیں۔ان صدموں کے اثرات ابھی اسی طرح برقرارتھے کہ
راجن پور کے علاقے میں چھوٹوگینگ کے خلاف آپریشن ضرب آہن میں ڈاکوؤں نے
دودرجن کے قریب پولیس اہلکاروں کویرغمال بنالیا ۔ ان یرغمالیوں میں لیہ کے
پانچ جوان بھی شامل تھے۔پاک فوج کے آنے کے بعد چھوٹوکے ہتھیارڈال کرگرفتاری
دے دی۔ جس کے بعد یرغمالی بھی رہا ہوگئے ۔ یوں ان کے بے قرارگھروالوں
کوسکون میسر آیا۔لیہ کی عوام کیلئے خوشی کے یہ لمحات عارضی ثابت ہوئے کہ
ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے چک نمبر ایک سوپانچ ایم ایل میں بچے کی
پیدائش کی خوشی میں کھائی جانے والی مٹھائی موت کاسبب بن گئی۔ چک کے رہائشی
محمدارشاد کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تووہ نزدیکی مٹھائی کی دکان سے
مٹھائی لے آیا۔جسے کھانے سے پانچ بھائیوں دوبچوں سمیت نوافرادجاں بحق
ہوگئے۔جبکہ متاثرہ خاندان کے مزید سات افرادکی حالت بھی تشویش ناک
ہوگئی۔دکان سے مٹھائی خریدکرکھانے والے قریبی چکوک کے ستائیس افرادکوبھی
تشویش ناک حالت میں ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ لایاگیا۔جن میں سے سترہ
افرادکونشترہسپتال ملتان لایا گیا۔صورت حال کی نزاکت کودیکھتے ہوئے علاقہ
مکینوں کی طرف سے مساجدمیں اعلان کرکے مٹھائی کھانے والوں کواکٹھا کیاگیا
اورانہیں ریسکیوکی گاڑیوں کے ذریعے ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ
لایاگیا۔دکاندارکوگرفتارکرکے مٹھائی کے نمونے تجزیہ کیلئے لیبارٹری روانہ
کردیے گئے۔نومولودکادادا، دادی غم کی تصویربن گئے۔دن گزرنے کے ساتھ ساتھ
مٹھائی کھاکرجاں بحق ہونے والوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہورہا ہے۔یہ
سطورلکھنے تک یہ تعدادچھبیس ہوچکی ہے۔سانحہ کی تحقیق وتفتیس کے لیے فیکٹ
فائنڈنگ کمیٹی بھی قائم کی گئی۔تفتیش کادائرہ کاروسیع کردیاگیا۔زہریلی
مٹھائی سے ہلاکتوں کے معاملے پرسرکاری ادارے آمنے سامنے آگئے۔پولیس کی جانب
سے تھانہ فتح پورمیں ای ڈی اوہیلتھ ڈاکٹرامیر عبداللہ سامٹیہ اورایم ایس
ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ ڈاکٹرغلام مصطفی کے خلاف باقاعدہ تحریری رپٹ درج کی گئی
جس میں تحریر کیاگیا ہے کہ واقعہ کی سنگینی کے حوالے سے پولیس کی جانب سے
بذریعہ ٹیلی فون اورگھروں میں جاکرڈاکٹراورافسران کوصورت حال کااحساس دلانے
کی کوشش کی گئی لیکن باربارکے رابطوں کے باوجود افسران نے عدم توجہی
کامظاہرہ کیااورغفلت کاارتکاب کرتے ہوئے تادیرمریضوں پرتوجہ نہ دی
گئی۔خبرمیں لکھا ہے کہ اس ضمن میں رابطے پرای ڈی اوہیلتھ ڈاکٹر امیرعبداللہ
سامٹیہ نے اپنے دفاع میں کہا کہ وہ پولیس کے الزامات کودرست تسلیم نہیں
کرتے۔محض خودکوبچانے کیلئے پولیس بے بنیادواویلاکررہی ہے۔انہوں نے کہا ان
سمیت ڈاکٹرزنے بروقت کارروائی کرتے ہوئے مریضوں پربھرپورتوجہ دی اورانہیں
علاج معالجہ فراہم کیا۔انہوں نے اس بات کوبھی کریڈٹ گرداناکہ لیہ ہسپتال
میں اموات کاکوئی واقعہ پیش نہیں آیاتما م اموات نشترہسپتال ملتان میں
ہوئیں۔مقامی اخبارمیں شائع ہونے والی دردناک خبراس تحریر میں شامل کرتے
ہوئے راقم الحروف کی آنکھوں میں�آنسو آگئے خبرکی تفصیل یہ ہے کہ لیہ میں
موت کے جاری سحرکے بعدایک کے بعد ایک کی وفات کاسلسلہ جاری ہے۔اورقبریں
کھودکھودکرلوگو ں کے ہاتھوں میں چھالے پڑچکے ہیں۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق ۷۷
افرادنے زہریلی مٹھائی کھائی۔جس میں سے یہ سطورلکھنے تک ۸۲ افراددم توڑ چکے
ہیں۔جبکہ دس سے زائدافرادمقامی اورملتان کے ہسپتالوں میں زیرعلاج
ہیں۔صورتحال کی سنگینی کااحساس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی واقعہ
کاسخت نوٹس لیا ہے۔اورسینئرطبی ماہرین پرمشتمل چاررکنی کمیٹی قائم کی گئی
ہے ۔جس میں پروفیسرڈاکٹرجلا ل حیدر، ڈاکٹرعباس رضا،ڈاکٹرقاضی مسروراو ر
ڈاکٹر افتخاراعجاز شامل ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کوتین روزمیں انکوائری مکمل کرکے
رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔صوبائی وزیرخوراک بلال یٰسین کے دورہ
لیہ کے دوران عوامی دباؤ، مطالبے اوراحتجاج پرمتاثرہ چک ایک سوپانچ ایم ایل
میں کھلی کچہری کاانعقادکیاگیا جس میں متاثرہ خاندانوں نے ڈاکٹرزکی غفلت
خصوصاً نشترہسپتال ملتان میں علاج معالجے کی سہولت میسر نہ آنے ،مریضوں سے
نارواسلوک سمیت دیگرشکایات کاانبارلگادیا اورجس پرصوبائی وزیرخوراک کی جانب
سے وزیراعلیٰ کوبھجوائی گئی درخواست پرانہوں نے تمام متاثرہ مریضوں کولیہ
سے فوری طورپرجناح ہسپتال لاہورمنتقل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔حالت
تشویشناک ہونے پرایک ہی خاندان کے سات مریض جناح ہسپتال لاہورروانہ کردیے
گئے ۔ لاہورسے سینئر ڈاکٹرزکی ٹیم بھی لیہ پہنچ گئی ہے۔ڈائریکٹرڈیرہ
غازیخان محمد شاہدبھٹی نے میڈیانمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے اس بات کااعتراف
کیا کہ مٹھائی میں ملائے گئے زہرسیلفولائل یوریا کاکوئی تریاق موجودنہیں
ہے۔مریضوں کوزندگی بچانے کیلئے صرف معاون ادویات ہی دی جاسکتی ہیں۔متاثرہ
چک ایک سوپانچ ایم ایل میں اوپن انکوائری کے موقع پرگفتگوکرتے ہوئے صوبائی
وزیر خوارک بلال یٰسین نے کہا ہے کہ لیہ میں ن زہریلی مٹھائی کھانے سے ۶۲
افراد کی ہلاکت کے معاملے کی چھان بین کیلئے اعلیٰ طبی ماہرین پرمشتمل
خصوصی ٹیم جامع اورمفصل انکوائری کرے گی یہ انکوائری شفاف اورمیرٹ کی
بنیادپرمکمل کی جائیگی۔اس میں اگرکوئی ڈاکٹریاطبی عملہ غفلت وکوتاہی
کامرتکب پایاگیا تواس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائیگی۔اوپن انکوائری
میں ڈائریکٹرفوڈ اتھارٹی پنجاب عائشہ ممتاز ، ڈی سی اولیہ راناگلزاراحمد،
ڈی پی اولیہ محمدعلی ضیاء سیاستدانوں اورمحکمہ صحت کے افسران نے شرکت
کی۔صوبائی وزیرنے زہریلی مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے ایک ہی خاندان کے ۸
افرادکے سربراہ عمرحیات ، نیازحسین، غلام اکبراورزاہدبی بی سے فرداً فرداً
زہریلی مٹھائی کھانے سے متعلقہ معاملات ڈی ایچ کیوہسپتال لیہ ونشترہسپتال
ملتان میں فراہم کردہ طبی سہولیات کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔اس
موقع پرصوبائی زیرخوراک کوڈائریکٹرصحت ڈی جی خان، ای ڈی اوصحت لیہ ،ڈسٹرکٹ
فزیشن لیہ ،ایم ایس ڈی ایچ کیوہسپتال لیہ نے فراہم کردہ طبی سہولیات کے
بارے میں بریفنگ کے دوران بتایا کہ ہسپتال میں چوبیس مریض آئے تھے جن کے
زہرکے بارے میں مقامی طبی ماہرین و ملک کے ممتازدیگرڈاکٹرصاحبان تاحال
زہرکی نوعیت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے۔تاہم مریضوں
کودستیاب طبی سہولیات کی فراہمی کاعمل بروئے کارلایاگیاتھااورشدیدمتاثرہ
مریضوں کونشترہسپتال ریفرکردیاگیا۔انہوں نے مزیدبتایا کہ ان کے تیس سالہ
میڈیکل پریکٹس میں ایسا سنگین وجان لیواواقعہ پہلی بارسامنے آیا ہے۔زہریلی
مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے افرادکے لواحقین نے صوبائی وزیرکوبتایا کہ
نشترہسپتال میں مریضوں کوعلاج معالجہ کے دوران انجکشن لگانے کے بعدمریضوں
کی حالت بتدریج خراب ہوناشروع ہوجاتی تھی۔انہیں سردردتیزبخارہوجاتا
تھااورقے آنے کاسلسلہ مریض کی ہلاکت تک جاری رہتاتھا۔انہوں نے صوبائی
وزیرکوبتایا کہ جن لوگوں نے نشترہسپتال سے علاج کرانے سے انکارکردیا ان کی
زندگیاں محفوظ رہیں۔انہوں نے نشترہسپتال ملتان میں ڈاکٹروں وپیرامیڈیکل
سٹاف کی جانب سے عدم توجہی ،لاپرواہی اورعلاج معالجہ میں غفلت کی شکایت کی
اورڈی ایچ کیوہسپتال لیہ کی جانب سے ایمبولینس فراہم نہ کیے جانے کے بارے
میں آگاہ کیا۔صوبائی وزیرنے علاج معالجہ میں غفلت اورعدم توجہی کاسخت نوٹس
لیتے ہوئے ایم ایس نشترہسپتال سے وضاحت طلب کی۔جس پرایم ایس نشترہسپتال نے
بتایا کہ نشترہسپتال میں روزانہ پچیس سوسے زائدمریض علاج کیلئے آتے ہیں جن
میں سے سومریضوں کوآئی سی یومین داخل کیاجاتا ہے انہوں نے کہا کہ لیہ سے
ریفرکیے گئے پچاس مریضوں کاعلاج معالجہ کیاگیا جن میں سے تین مریج ابھی تک
ہسپتال میں داخل ہیں جبکہ باقی ڈسچارج کردیے گئے ہیں انہوں نے صوبائی
وزیرکوبتایا کہ ہسپتال میں مریضوں کودستیاب بہترین طبی سہولیات اورلواحقین
ممکنہ حدتک نگہداشت ودیکھ بھال اور تمام طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے
بھرپوراقدامات عمل میں لائے گئے۔صوبائی وزیرنے ایم ایس نشترہسپتال سے وضاحت
طلب کی کہ جومریض علاج ادھوراچھوڑ کرواپس آگئے ان کی جانین بچ گئیں مگرجن
مریضوں کاعلاج معالجہ کیاگیا ان کی ہلاکتوں کاسبب کیا ہے جس کاایم ایس
نشترہسپتال تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ایک بیٹے کی موت کاغم بھی کچھ کم نہیں
ہوتا ذراسوچئے جس کے آٹھ بیٹے اورخاندان کے بارہ افرادیکے بعد دیگرے موت کی
آغوش میں چلے گئے اس غمزدہ باپ کی کیاحالت ہوگی ۔کچھ ایسا ہی غم عمرحیات
کابھی ہے ۔جوچھ روزسے سونہیں سکا۔آنکھیں پتھراگئیں۔جواں سال بیٹوں کی موت
پر ماں بھی صدمے میں حواس کھوبیٹھی ہے۔ضلعی انتظامیہ ، محکمہ صحت اورحکومت
پاکستان نے تاحال زہرکاتریاق دریافت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھایا
ہے۔جس پر۲۵ افرادکی زندگیاں تاحال داؤپرلگی ہیں۔گرفتارملزمان نے غلطی سے
زہرمل جانے کااعتراف کرلیا ہے۔زہریلی مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے افراد کے
لواحقین میں امدادی چیک تقسیم کیے گئے ۔ اس المناک سانحہ کا درد اوراس کی
سنگینی اورنومولودکے دادا کا غم اس کے اس جملہ میں چھپاہوا ہے۔ عمرحیات نے
کہا ہے کہ آٹھ بیٹے ایک بیٹی سمیت پوراخاندان قبرستان پہنچ گیا۔زندہ لاش کی
طرح بیٹھاہوں حکومتی پیسوں کاکیاکروں گا۔ملک میں تین بڑے سیاسی جلسے ہوئے
کسی میں بھی سانحہ لیہ کاذکر تک نہیں کیاگیا۔تحریک انصاف نے سانحہ لیہ کی
جوڈیشل انکوائری کامطالبہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا ء جمع
کرادی ہے۔لیہ کی سیاسی شخصیات نے بھی متاثرہ خاندانوں سے اظہارتعزیت کیا
ہے۔
یہ سانحہ بھی قدرتی آفت قراردیاجاسکتا ہے۔ یہ سانحہ کسی کاجرم نہیں غفلت
ہے۔دکاندارنے جان بوجھ کرمٹھائی میں زہرنہیں ملایا بلکہ غلطی سے مل گیا۔
کوئی دکاندارنہیں چاہتا کہ اس کی خریدی ہوئی کھانے کی چیزکھانے سے کھانے
والے موت کی آغوش میں چلے جائیں یااس کے دیگرمنفی اثرات ہوں۔جس دکاندار سے
مٹھائی خریدی گئی وہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی مٹھائی کھانے سے اتنے لوگ
مارے جائیں۔ اس نے آئندہ بھی روزگارکماناہے۔جب انسان مسلسل کئی گھنٹے کام
کرتا ہے تووہ جسمانی طورپرتوتھک ہی جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ ذہنی
طورپربھی تھک جاتا ہے۔ اس وقت وہ کام توکررہا ہوتا ہے مگرکیاکررہا ہوتا ہے
اس کااسے ادراک نہیں ہوتا۔دکاندارکاریگروں اورملازمین سے مسلسل کئی کئی
گھنٹے کام لیتے ہیں انہیں سستانے کیلئے بھی وقت نہیں ملتا ۔ اس حالت میں
بھی ادراک نہیں رہتا کہ وہ کیاکررہے ہیں۔ بعض اوقات کسی ملازم یاشاگردسے
معمولی غلطی ہوجائے تودکانداریامالک اس کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ وہ غلطی
چھپانے میں ہی عافیت تصورکرتا ہے۔دکانداراورمالک ملازمین اورکاریگروں سے
اتنا کام لیں جتناوہ آسانی سے کرسکیں ، کسی غلطی ہوجائے توڈانٹنے کی بجائے
ٹیکنیکل طریقے سے سمجھائیں کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو۔کارخانوں میں ملازمین
سے بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے کام لیاجاتا ہے ۔آٹھ گھنٹے سے زیادہ کسی بھی
ملازم سے کام نہ لیاجائے ۔ہم ایک مل میں گئے وہاں ایک شخص بتارہا تھا کہ
ایک ملازم کے چھٹی پرہونے کی وجہ سے وہ ۶۳ گھنٹوں سے ڈیوٹی دے رہا ہے۔
دیہات میں کاروبارمحدود ہوتا ہ اس لیے دکاندار مال تیاربھی خودکرتے ہیں
اورفروخت بھی خود کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں زیادہ وقت کام کرناپڑتا ہے
جس سے انہیں سستانے کابھی وقت نہیں ملتا۔ اس طرح کاواقعہ ہوجائے تویہ نقصان
ان کیلئے ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔وہ اثرات کاادراک کیے بغیراپنانقصان بچانے
کی کوشش کرتے ہیں۔ جس دکاندارنے زرعی ادویات مٹھائی کی دکان میں امانتاً
رکھی تھیں اس کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی دوائی مٹھائی میں مل کراتنے
لوگوں کی قاتل بن جائے گی۔وزیراعلیٰ پنجاب غمزدوں کاغم بانٹنے کیلئے ان کے
گھروں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ سانحہ بھی کوئی کم نہیں ہے اگرچہ انہوں نے
صوبائی وزیر خوراک کی ڈیوٹی لگارکھی ہے تاہم وہ خودان غمزدہ خاندانوں کی
ڈھارس بندھانے آئیں توغمزہ خاندان کوتسلی ہوجائے گی۔متاثرہ خاندانوں کے غم
میں لیہ کی عوام برابرکی شریک ہے۔اب وفاقی وصوبائی حکومتیں ایسے اقدامات
کریں جس سے آئندہ اس طرح کے سانحات سے ممکنہ طورپربچاجاسکے۔ |