پیروں کا غرور

وطن عزیز کا معروف سجا دہ نشین تکبر کا ماسک چہرے پر سجائے مغرورفاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا ۔ عرصہ دراز سے وہ انسانوں کو اِس طرح دیکھتا تھاکہ متلا شیان حق روحانیت اور قربِ الہی کی تلاش میں اُس کے در پر گروہوں کے گروہ جتھوں کی صورت میں آکر اپنی پیشانیاں رگڑتے اور پیر صاحب تکبر اور غرور کے K2پر بیٹھ کر انہیں زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے تصور کر تے ہو ئے Treatکر تا اُس نے بچپن سے آج تک انسانوں کو اپنے سامنے سر جھکائے ہی دیکھا ۔ روزانہ بے شمار لو گ اس کے در پراِس کا درشن کر نے مصافحہ کر نے دو با تیں کر نے کی بھیک مانگنے آتے اور یہ خود کو کر ہ ارض پر اعلی ترین نسل کا سر خیل سمجھتے ہو ئے اِنہیں درشن یا مصافحے کی سعادت سے نوازتا فخر تکبر اور خو دستاشی اِس کی رگوں اور با طن کے عمیق ترین گوشوں میں جا گزیں ہو چکی تھی ۔ اپنے آبا ؤ اجداد کی روحانی اور معاشرتی خدمات کی بدولت وہ ہزاروں لو گوں کی آنکھوں کا تا را بن چکا تھا دنیا کی ہر نعمت اُسے زبان ہلا ئے بغیر اُس کی چوکھٹ پرمل جا تی معاشرے کے با اثر لو گ نذر نیاز اور مہنگے تحا ئف عاجزی سے پیر صاحب کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ۔ اِس پس منظر کی وجہ سے پیر صاحب پر ما دیت پر ستی اور خود پر ستی کا مکمل غلبہ ہو چکا تھا ۔ میری بے نیازی اور اُس سے متا ثر نہ ہو نا اُس کے لیے تو ہین اعظم تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کو ئی گندم کھا نے والا گوشت پو ست سے بنا انسان اُس سے متا ثر نہیں ہو سکتا یعنی عاجزی انکساری رواداری مساوات اُس سے میلوں دور تھی معاشرے کے با اثر طبقات اور پو ری دنیا میں پھیلے ہزاروں مریدوں نے پیر صاحب کی گردن میں تکبر کا سریا ڈال دیاتھا جس کو جھکنا آتا ہی نہیں تھا ۔ پیر صاحب کو صرف احکا مات صادر کر نا آتا تھا سجا دہ نشین صاحب کا لہجہ التجا ، درخواست سے آشنا ہی نہیں تھا ۔ یہی مشکل اُسے میرے ساتھ بھی پیش آرہی تھی ۔ اُس کے چہرے کے عضلات عاجزی سے واقف ہی نہیں تھے وہ تو حکم اور غرور سے ہی واقف تھے ۔ پیر صاحب کی حما قتوں ڈرامہ با زیوں اور قلا با زیوں کا جب مجھ پر قطعی اثر نہ ہوا تو پیر صاحب نے اپنے خا دموں کو حکم دیا تو انہوں نے با ری با ری مختلف واقعات اور باتیں شروع کر دیں کہ یہ پا کستان بلکہ دنیا کی بہت بڑی گدی ہے یہاں پر مختلف ادوار میں کو ن کو ن بڑے لو گ آکر عقیدت کا اظہار کر چکے ہیں ۔ آج تک کے تمام الیکشنز میں اِس گدی اور گدی کے مریدوں نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ وطن عزیز کی تمام سیا سی پا رٹیاں یہاں حاضری دینا اور پیر صاحب کی آشیر باد لینا اپنا اہم فریضہ سمجھتی ہیں قرب و جوار کے تمام سیا سی لیڈر یہاں پر حاضری دیتے ہیں اُن کی ٹکٹو ں کا فیصلہ بھی پیر صاحب کے آبروچشم سے ہو تا ہے ۔ اِس کے بعد کرامات کا نہ ختم ہو نے والا سلسہ شروع ہو گیا پھر تصویروں کے بہت بڑے بڑے البم آگئے جن میں یہاں پر حاضری دینے والے بڑے لوگوں کی بے شمار تصاویر تھیں یہ تصویریں تو ہم ڈرائینگ روم میں دیواروں پر بھی لگی ہو ئی دیکھ چکے تھے خا دموں کے بقول یہ وہ چشمہ معرفت ہے جہاں سے لاکھوں لو گ اپنی روحانی اور دنیا وی پیا س بجھا چکے ہیں ۔ اب وہ پیر صاحب اور آستا نہ عالیہ کے فضا ئل اور قصیدہ نگا ری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لینے لگے ۔ میں مجبوراً اُن کی بکواسیات سن رہا تھا ۔ محترم قارئین آپ وطن عزیز کی کسی بھی بڑی اور مشہور روحانی گدی پر جا کر خو د اپنی آنکھوں سے اِن سے ملنے کی کو شش کریں کسی بہت بڑے بیوروکریٹ یا سیاسی لیڈر سے ملنا آسان ہے اِن سے ملنا مشکل ہے ۔ میں ایک دن لا ہور کے پو ش اور مہنگے علا قے میں اپنے دوست سے ملنے گیا ہوا تھا تو میرے دوست کی نو جوان بیٹی میرے سامنے آکر بو لی انکل پیر صاحب تو عام لو گوں سے ملتے ہی نہیں آپ ہمارے گھر کیسے آجا تے ہیں ۔ میں بیٹی کے سوال پر بہت حیران ہوا تو وہ کہنے لگی انکل ہما رے ساتھ والے گھر میں کچھ عرصہ پہلے ملک کے بہت بڑے گدی نشین کی نئی نو یلی دوسری یا پتہ نہیں کتنی بیوی آکر رہا ئش پذیر ہو ئی ایک دن میری امی نے نیاز بنا ئی تو اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ ساتھ میں نئے پیر صاحب کی بیوی آئی ہے اُن کو دے آؤ تو میں خو شی خو شی نیاز لے کر اُن کے گھر گئی تو اُن کے باڈی گارڈوں نے لینے سے انکا ر کر دیا، میں نے بحث کی تو نو جوان پیرنی میری آواز سن کر با ہر آگئی اور غصے سے بو لی یہ کیا شور مچا رکھا ہے آپ لوگوں کو تمیز نہیں ہے تو میں نے اُس کو مہذب اور پڑھی لکھی سمجھتے ہو ئے کہا کہ میں آپ کی پڑوسن ہو ں اور امی نے آپ کے لیے نیاز بھیجی ہے تو اُس نے حقارت اور غصے سے میری طرف دیکھا اور بپھرے ہو ئے لہجے میں دھا ڑتے ہو ئے بو لی ہم پیر زادیاں ہیں ہم عام لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتے آج تو آپ یہ حما قت کر نے آگئی ہو آئندہ ہما رے گھر کا رخ کر نے کی جرات نہ کر نا اور غصے سے پا ؤں پٹختی ہو ئی اندر بھا گ گئی ۔ معصوم بیٹی کے سوال نے مجھے ادھیڑ کر رکھ دیا کہ غریب مریدوں سے نذر نیاز تحفے انا ج لینا جا ئز ہے اور ویسے میل ملاپ درست نہیں ہے ۔ ملک کی تما م روحانی گدیاں انہی غریبوں کے پیسوں اور خدمات پر چلتی ہیں لیکن ویسے اِن کو خادموں کی طرح سمجھا جا تا ہے ۔ اگر پیر صاحب شراب نو شی ، عیا شی ، لو ٹ ما ر کر یں تو کہا جا تا ہے یہ پیدائشی ولی ہیں اِن پر یہ کا م جا ئز ہے ۔ آپ کسی بھی گدی یا آستانے پر جا کر دیکھیں یہ آپ کو غرور کے ہما لیہ پر جلوہ افروز نظر آئیں گے ۔ آپ اِن کا طرز معاشرت اندازِ گفتگو دیکھیں یہ سر عام کہتے ہیں کہ ہم نسل در نسل بہت اعلی نسل کی مخلوق ہیں ہما رے جیسا معاشرے میں اور کو ئی نہیں ہے زیادہ تر گدی نشین چہروں پر غرور کے ما سک چڑھا ئے انسانوں کو جا نوروں کی طرح ہا نکتے نظر آتے ہیں اور یہ تکبر اور فخر کو جا ئز سمجھتے ہیں جبکی اِس کا ئنا ت کے اکلو تے ما لک نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ تکبر میری چادر ہے اور اگر کسی اور نے تکبر کیا تو اُس نے میری چادر کو ہا تھ ڈالا اب آپ خو ددیکھیں اگر آپ کسی کی چادر کو ہا تھ ڈالنے کی کو شش کر یں تو وہ آپ کے ساتھ کیا کر ے گا ۔اور قرآن مجید میں تکبر کے حوالے سے ارشاد ربا نی ملا حظہ کر یں ۔ اور زمین پر غرور سے ( اکڑ کر ) نہ چل تو نہ زمین کو پھا ڑ ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہا ڑوں تک پہنچے گا(بنی اسرائیل) اور لوگوں کی طرف اپنے گال مت پھُلا اور زمین پر غرور سے (اکڑ کر ) نہ چل بیشک اﷲ کسی مغرور بڑائیاں کر نے والے کو پسند نہیں کر تا ۔ اور درمیانی چال چل اور اپنی آواز نیچی رکھ بیشک برُی سے برُی آواز گدھے کی ہے ۔ سورہ لقمان ۔ اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر (انکساری سے ) آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل لو گ ان سے با ت کر تے ہیں تو ( ان سے الجھنے کی بجا ئے نر می سے صرف ) سلا م کہتے ہیں ۔ ( سور ۃ فرقان ) سن لو ظالم لو گوں پر اﷲ کی لعنت ہے ( سورہ ہو د) اور جو کو ئی تم میں سے ظلم کر ے گا اس کو ہم بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھا ئیں گے ( سورہ فرقان ) پھر جو لو گ ایما ن لا ئے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو ان کا ثواب ان کو پورا دے گا اور اپنے فضل سے اور زیادہ دے گا اور جنہوں نے ( اﷲ کی بندگی کو)عار سمجھا اور تکبر کیا سو اُن کے لیے درد ناک عذاب ہو گا ( سورۃ النساء ) سرور َ کا ئنات محبوب خدا ﷺ کی حدیث مبا رکہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے پیا رے آقا ﷺ نے فرمایا مو من کی مثال کھیت کے نرم و نا زک پودوں کی سی ہے کہ ہوا چلتی ہے تو جھک جا تے ہیں اسی طرح مو من جب ذرا سیدھا ہو تا ہے (یعنی اکڑتا ہے ) تو بلا اور مصیبت اسے جھکا دیتی ہے اور کافر کی مثا ل صنو بر کے درخت کی سی ہے جو سخت اور سیدھا رہتا ہے لیکن اﷲ چاہتا تو اُسے جڑ سے اکھا ڑ پھینکتا ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے پیا رے آقا ﷺ فرماتے ہیں ایک شخص (پہلی امتو ں میں سے ) کپڑے کا نفیس جو ڑا پہنے اپنے اوپر فخر کر تا چلا جا رہا تھا اور اُس نے اپنے بالوں کو بھی خوب سنوار رکھا تھا ( اوراپنے بالوں پر فخر تھا ) کہ اﷲ تعالی نے اُسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین میں نیچے ہی نیچے اُترتا چلا جا ئے گا ۔ کاش وطن عزیز کے طول و عرض میں پھیلی روحانی گدیاں اور ان پر قابض سجا دہ نشین تکبر اور غرور کے بارے میں اﷲ تعالی اور پیا رے آقا ﷺ کی باتوں پر غور فرمائیں تو روزِ محشر اِن کی سخت گرفت نہ ہو ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.