بسم اللہ الرحمٰن لرحیم۔
محترم قارئین کرام اسلام علیکم
محترم قارئین کرام ہماری ویب کے لئے یہ میری پہلی تحریر ہے اگر آپ لوگوں نے
حوصلہ افزائی فرمائی تو میری کوشش ہوگی کہ آپ کے لئے مزید کچھ بہتر لکھنے
کی کوشش کروں۔
اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ہپنا ٹزم کیا ہے؟
بہت سے لوگوں کی اکثریت ہپنا ٹزم کے نام سے واقف اور شائق ہیں اس کے اثرات
کے قائل بھی ہیں بہت سے دوست ہپنا ٹزم سیکھنے کا شوق بھی رکھتے ہوں گے مگر
مناسب راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک تِشنہ لب ہی ہوں گے۔
میری کوشش ہوگی کہ آپ تک وہی باتیں پہنچاؤں جو میرے ذاتی تجربات اور
مشاہدات میں سے ہیں تاکہ اگر کوئی یہ علم سیکھنا بھی چاہے تو اسے کسی قسم
کی پریشانی یا ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ اس تحریر میں درج مشقوں کی
مدد سے بغیر کسی نقصان کے کوئی بھی شخص اس علم کو سیکھ سکتا ہے اور کسی کی
محنت بھی رائیگاں نہیں جائے گی انشااللہ کیونکہ یہ ذہن کی ورزش بھی ہے ان
ورزشوں سے انسان میں بہت سی ذہنی بیماریوں اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کی
طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے بے شمار فوائد ہیں۔
لفظ ہپنا ٹزم مغرب والوں کی ایجاد ہے ہپنا ٹزم کے لفظی معنی غنودگی کے ہیں
یعنی نیند جیسی حالت کیونکہ جب کسی کو ہپنا ٹائز کیا جاتا ہے تو اس شخص پر
مصنوعی نیند طاری کر کے اپنے پیغام کو اس شخص کے دل و دماغ تک پہنچایا جاتا
ہے جس شخص کو ہپنا ٹائز کیا جاتا ہے وہ شخص ہپناٹسٹ کے پیغام کے مطابق عمل
کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ہپنا ٹائز شدہ شخص کو جو بھی پیغام غنودگی کی حالت میں دیا جاتا ہے عام
حالت میں آکر ہپنا ٹائز شدہ شخص نے جو پیغام دورانِ غنودگی حاصل کیا ہو اس
پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ پیغام کسی بھی نوعیت کا ہو ہپنا ٹائز شدہ
شخص ہپناٹسٹ کے پیغام پر ہر صورت عمل کرے گا اور مزے کی بات یہ کہ ہپنا
ٹائز شدہ شخص کو بالکل بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیونکر یہ کام کر رہا ہے۔
اس علم سے انسان اپنی اور دوسروں کی اصلاح بھی کر سکتا ہے بےشمار بیماریوں
کا علاج بھی ہپنا ٹائز سے ممکن ہے۔
مغرب والوں نے اس علم پر بہت کام کیا اور وہاں تو ہپنا ٹزم سیکھنے کے
باقاعدہ ادارے بنے ہوئے ہیں اور مغرب والے اس علم پر اعتماد بھی کرتے ہیں
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ علم مغرب والوں نے ایجاد کیا مگر میرے نزدیک
ہپنا ٹزم اسلامی روحانی تعلیمات کے تناور درخت مراقبہ کی ایک ادنیٰ سی شاخ
ہیں مغرب والوں نے صرف اس کو مذہب سے الگ کر کے ایک سائنسی رنگ دیا ہے۔
مگر میں مذہب اور ہپنا ٹزم کو ساتھ ساتھ رکھوں گا تاکہ اس علم کو سیکھنے
والا قاری مخصوص طریقے سے اسم الحسنیٰ کا ورد کرتا رہے تاکہ اس طریقے سے
دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے اور دل و دماغ بھی پر سکون
رہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ترجمہ: بےشک دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے۔
ہپنا ٹزم سیکھنے کے لیے دلی اطمینان اور ذہنی سکون کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو
اللہ تعالیٰ کے ذکر سے حاصل کیا جا سکتا ہے ہپنا ٹزم سیکھنے کی بنیاد تین
چیزوں پر ہے۔
اول: قوتِ ارادی
دوئم: قوتِ خیال
سوئم: قوتِ تصور
اگر کوئی بھی انسان ان تین چیزوں پر تصرف حاصل کر لے تو اس انسان سے ایسے
ایسے محیرا لعقول واقعات رونما ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا انگشت بدنداں رہ
جاتا ہے اس کے برعکس اگر کسی انسان میں ان تین چیزوں کا فقدان ہے تو ایسا
شخص ماورائی علوم تو ایک طرف بلکہ عملی زندگی میں بھی کوئی خاص کامیابی
حاصل نہیں کر پاتا۔
قوتِ رادی قوتِ خیال قوتِ تصور کیا ہے اور یہ قوتیں کیسے اور کس طرح حاصل
کی جا سکتی ہیں اور انسان اپنی اندرونی طاقتوں کو کیسے بروئے کار لاسکتا ہے
اور ان سے کن کن کاموں میں اور کیسے مدد لی جا سکتی ہے۔ انشا اللہ آئندہ
کالم میں تحریر میں لانے کی کوشش کروں گا۔ |