سوچنے کی بات
(shafiq ahmad dinar khan, peshawar pakistan)
معاشرے میں منفی اقدار کا فروغ |
|
|
سوچنے کی بات“ ہماری غفلت اور منفی اقدار کا فروغ“ |
|
ہر معاشرے میں اچھے برے رجحانات پائے جاتے
ہیں جن کی بنیاد مثبت یا منفی روایات ہوتی ہیں۔
لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم منفی اقدار کو اتنے فروغ
دے چکے ہے کہ اب مثبت اقدار کو اپنانا باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے
معاشرے میں برائی اتنا عام ہو چکا ہے۔
بہر حال اک مسئلہ غور طلب جو ہر اچھائی اور ہر برائی کی جڑ ہے پر یہ بات
ہمارے حکمران سمجھ نہیں پا رہے۔ وہ دہشت گردی چوری اور اغوا جیسی کاروایوں
کو روکنے کی دن رات کو شیش کررہے ہیں۔ منصوبے ترتیب دے رہے ہیں کبھی فوج کی
مدد تو کبھی عوام کی مددوہ برائی کو تو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن
درحقیقت برائی کی جڑتک پہنچ نہیں پارہے ۔دہشت گردی کی واردات چوری ڈکیتی کے
منصوبے اور اغوا کے طریقے یہ کسی ان پڑھ ذہین کی کاوش لگتے ہیں۔ عام انسان
جوچیز سوچ نہیں سکتا وہ یہ لوگ کس طرح انجام دیتے ہیں۔کبھی سوچا ہے یہ کون
لوگ ہیں؟
جی جناب بہت ہی خوبصورت جواب ہے کہ یہ لوگ ہمارے وہی نوجوان ہیں جو ہمارے
ہی ستائے ہوئے ہیں اب ہم کو ستارہے ہیں۔
ہرانسان اچھابھی سوچ سکتاہے اور برا بھی سوچ سکتاہے۔لیکن کون اچھا سوچتاہے
اور کون برا سوچتاہے اس کا فیصلہ کیسے کیاجائے؟ اس کا درومدارانسان کی فطرت
پر ہوتاہے جس کی مثال کے طور پر ہم مکھیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک شہد کی
مکھی ہے جس کا کام پھولوں سے رس چوس کر اپنے چھتے میں جمع کرتی رہتی ہے ا
ور اس کی محنت کے نتیجے میں شہد حاصل ہوتاہے۔جس میں شفا ہی شفاہے۔بہت سے
مرض اس سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ شہد کی مکھی کی فطرت میں ہے کہ اس
نے چاہے پھول گل سٹر بھی جائے اس نے اس میں سے رس ہی حاصل کرنا ہے۔ لیکن اس
کے برعکس ایک دوسری مکھی ہے جو صرف گندگی پر بیٹھتی ہے وہ صاف ستھری چیزوں
کو چھوڑ کر صرف گند گی کا ہی انتخاب کرتی ہے کیو ں کہ اس کی فطرت میں یہ
شامل ہے۔
لیکن اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کس directon کی جانب محو سفر ہے۔ آیا ہم
کہیں منفی اقدار کو تقویت تو نہیں دے رہے۔ اگر ہاں تو ہمیں چائیے کہ مثبت
اقدار کو ترجیح دے۔ اور معاشرہ، ملک و قوم اور انسانیت کی ترقی و بہتری
کیلیے اپنا کردار ادا کریں۔ |
|