مزدوروں کا شکاگو سے اب تک کا سفر

چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے لیکن پھر بھی کئی ممالک سے ہر دوڑ میں آگے ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ آنے والے وقت کی سپر پاور بھی چین ہی ہوگا ۔اس کی ترقی اور پہچان میں سب سے زیادہ دخل اس وقت تک اگر کسی چیز کا ہے تو وہ مزدوروں کا ہے کہ وہ لوگ اپنے ملک کے ساتھ اتنے مخلص اور وفا دار ہیں کہ ان کے کردار سے جھلکتا ہے ۔پورے ملک چین میں تمام مزدور اور ملازم چاہے وہ کسی ادارے میں انتہائی اونچے درجے پر تعینات ہے یا درجہ چہارم میں سبھی ایک گھنٹہ اضافی کام کر کے اپنی حکومت کو فائدہ دیتے ہیں کہ اس وقت میں کام کرنے کی کوئی اجرت نہیں لی جاتی ۔اس طرح دیکھا جائے تو پوری دنیا میں لوگ چاہے جس طبقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں سبھی ایسی قربانی دینے سے گریزاں نظر آتے ہیں کہ جس سے ملک و قوم کو فائدہ ہو اور اس کی وجہ سے سے انہیں بھی ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق چین میں سرکاری سطح پر مزدوروں کی صرف ایک گھنٹے کی قربانی سے بلینز ڈالرز کا ماہوار فائدہ ہوتا ہے یہی ایک وجہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی معیشت مستحکم اور مضبوط ہے ۔سب سے پہلے مزدوروں کا عالمی دن 1986 ء یکم مئی کومنایا گیا جب مختلف ممالک میں صنعت نے ترقی کی تو لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی بہت ملے لیکن مادیت اور طاقت کے حصول کی لالچ نے مالکان کو اندھا کر دیا اور انہیں مزدوروں کے حقوق بھول گئے تو شکاگو میں حقوق کے حصول کیلئے مزدوروں نے احتجاج کیا احتجاج کو روکنے کیلئے سرکاری طور پر مزاحمت کے نتیجے میں چار مزدور ہلاک ہو گئے جنکی یا د میں آج تک یکم مئی کو عالمی سطح پر مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے۔مغرب ممالک میں تو شاید مزدوروں کو حقوق مل بھی رہے ہوں لیکن پاکستان میں مزدوروں کی کیا حالت زار ہے اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے۔آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کسی چوک میں تو کبھی کسی فیکٹری کے باہر اور کبھی پریس کلب تو کبھی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دفاتر کے باہر دھرنے دئیے جاتے ہیں جس میں کبھی مزدور بھٹہ یونین ،کبھی پاور لومز لیبر یونین تو کبھی مل لیبر یونین احتجاج کر رہے ہوتے ہیں اور انکا احتجاج صرف ایک بات پر ہی ہوتا ہے کہ ہمیں اجرت پوری نہیں دی جا رہی ۔دوسری جانب یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان ریلیوں اور احتجاجوں کی وجہ سے جو نقصان مل مالکان کو ہوتا ہے وہ اپنی جگہ اور پورے ملک کی معیشت کا گراف اچانک کم ترین سطح پر آتا ہے اچانک سے ایک دفعہ سب کچھ ہی درہم برہم ہو جاتا ہے جسکا رد عمل ہمیں مہنگائی کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر وہی طبقہ ہو رہا ہوتا ہے جو احتجاج اور ریلیاں نکال کر اپنا وقت بھی برباد کرتے ہیں اور دوسروں کی نسبت بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ قانون قدرت ہے کہ اسنے پوری کائنات کا نظام ایک ہی اصول پر قائم رکھا ہے اور وہ ایک دوسرے کی مدد کرنا ہم دیکھتے ہیں کہ جب قومیں آپس میں اتفاق ،محبت و ہم اہنگی اور بھائی چارے کو ہر دنیاوی لالچ سے ترجیح دیتیں ہیں تو کامیابی انکا مقدر بن جاتی ہے ۔پاکستان میں زیادہ تر طبقہ ناخواندہ اور مزدور ہے اسی شعور اور آگاہی نہ ہونے کی بدولت ہی کچھ عناصر ان معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اپنا مقصد نکلواتے ہیں اور اس کیلئے وہ اپنی سکیورٹی پہلے ہی رکھ لیتے ہیں کہ ایک یونین بنا لی اور لوگوں کو سنہرے خواب دکھائے کہ آپ یونین کا حصہ بن جاؤ یونین آپکا ہر حال میں ساتھ دے گی آپ کیلئے صحت ،بچوں کیلئے تعلیم کے اخراجات بر داشت کرے گی اور نا انصافی کی صورت میں مالکان کے خلاف آپ کے شانہ بشانہ کھڑ رہے گی اسکے بعد وہ لوگ انہی مزدوروں سے چندے کی مد میں ماہوار ہزاروں روپے بٹورتے ہیں اور پھر کسی میٹنگ ، ریلی یااحتجاج پر خرچ کر دیتے ہیں لیکن اس فرد کیلئے جو اس یونین کا حصہ ہوتا ہے کچھ نہیں کیا جاتا بلکہ اس فیکٹری ،مل مالک کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ وہ اس کیلئے کچھ کرے اگر دیکھا جائے تو یہ اس مل یا فیکٹری مالک کے ساتھ سرا سر نا انصافی ہے کہ پہلے تو اس کے ساتھ اجرت طے کر لی اور پھر ناجائز مطالبات بھی پورے کروائے !!یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مزدور طبقے پر مشتمل ہے او ر اس میں صرف چند لوگ ہی ہیں جو کسی بھی مزدور یونین سے منسلک ہیں اور زیادہ حصہ صرف پیٹ پالنے تک محدود ہے ۔یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مزدوروں کی جنگ لڑنا سرکار کا کام ہے یا ان یونین یا آرگنائزیشن کا؟؟ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور سوشل ڈیپارٹمنٹ والے کیا کر رہے ہیں ؟جتنی بھی حکومتیں آتیں ہیں وہ ہمیشہ غریبوں کو مفاد دینے کی بات کرتی ہیں کیا وہ غریب طبقہ مزدور طبقہ نہیں ؟کیا لیبر صرف مل ،فیکٹری میں کام کرنے والے لوگوں تک ہی محدود ہے؟کیا لیبر ڈیپارٹمنٹ والوں کو بھٹوں پر کام مزدوری کرنے والے بچے ہی نظر آتے ہیں دوسرے کاروباری مراکز میں نہیں؟گورنمنٹ کی جانب سے پچھلے دنوں ایک قابل ستائش عمل سامنے آیا کہ جس میں مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کوصحت کی بنیادی سہولیات کیلئے لیبر کا رڈ کا اجراء کیا گیالیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مزدوروں کے ادارے اور سرکار کی نظر میں صرف فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرنے والے ہی مزدور ہیں جو لوگ دوسرے شعبے میں کام کرتے ہیں وہ مزدور نہیں !! ہم رو زمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے اپنا پیٹ پالنے کیلئے رکشہ چلا رہے ہوتے ہیں ،کچھ بچے سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر سیلز مین کی حیثیت سے کام کر رہے ہوتے ہیں ،کچھ بچے نجی ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں اسی طرح مختلف شعبوں میں کام کرنے والے مزدور گورنمنٹ اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کی نظر سے با لکل بھی اوجھل ہیں ۔دنیا میں سب سے پہلے اگر کوئی آرگنائزیشن کا وجود عمل میں لایا گیاتو وہ مزدوروں کی آرگنائزیشن تھی جسکو عالمی سطح پر وسیع پیمانے میں ڈھالا گیا۔اس طرح ہم دیکھیں تو مزدوروں کی تاریخ تو بہت پرانی ہے مگر آج تک مزدوروں کو ہی زندگی میں گزر بسر کرنے کیلئے نظام کے ساتھ لڑنا پڑتا ہے ۔پاکستانی سرکار نے کسی بھی مزدور کی کم سے کم تنخواہ تیرہ ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے جسکا اطلاق مکمل طور پر نظر نہیں آتا ۔اگر اسکا جواب یہ ہو کہ ملوں اور فیکٹریوں اور بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ اس وقت کم سے کم تیرہ ہزار روپے ہے تو اس پر سوال یہ بھی ہے کہ مختلف دوکانوں اور سٹالز پر کام کرنے والے جو مزدور چار سے سات ہزار روپے تنخواہ لے رہے ہیں وہ سرکار کو نظر نہیں آتے ؟سب سے پہلے شکاگو میں مزدوروں نے ہڑتال کی تو صرف اپنے حقوق کے حصول کیلئے کہ اس وقت بھی جتنی اجرت دی جاتی تھی اس کے بدلے میں ان سے کام تین گناہ زیادہ لیا جاتا تھا او ر آج بھی مسئلہ جوں کا توں ہی نظر آتا ہے ۔پاکستان میں مزدوروں کے عالمی دن پر مزدوروں کے تحفظ کی بات کرنے کی بجائے مزدوروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ اس دن جب چھٹی کی جاتی ہے کیا آج تک کسی مزدور سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ اس کے گھر میں چولہا جلا کہ نہیں ؟؟؟پاکستانی حکومت کی جانب سے آج تک مزدوروں کے حقوق اور تحفظ کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا جا سکا ہے اور اگر کوئی سہولت ہے بھی تو صرف مزدور یونین کیلئے جو کہ بڑے پیمانے پر مزدوروں کے استحصال کے مترادف ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق مزدور طبقے کا تیس فیصد کے قریب ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرتا ہے جو کہ تمام کا تمام یونین کے ساتھ منسلک نہیں ہیں اور باقی ستر فیصد طبقہ ایسا ہے جن میں روزانہ کام ملنے کی شرح چالیس فیصد بھی نہیں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر تیس فیصد مزدور طبقہ بغیر کچھ کمائے گھر آتا ہے ۔کیا حکومت یہ بتا سکتی ہے کہ ہزاروں کروڑ روپوں کے میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں سے کسی مزدور نے پانچ لاکھ بھی کمایا ہے؟ان ٹھیکیداروں جو حکومت کے چہیتے ہوتے ہیں نے اتنا پیسہ بنایا کہ دنوں میں کاروں اور کوٹھیوں کے مالک بن گئے ہیں لیکن اس سے مزدور ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہوا ہے ۔ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ شکاگو سے لے کر اب تک مزدوروں نے جتنی بھی مزدوروں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی ہے وہ بے سود نظر آتی ہے کیونکہ پاکستان میں آج تک مزدوروں کی ترقی و خوشحالی کیلئے کوئی قانون اور لائحہ عمل وضع نہیں کیئے جا سکے ہیں اگر چین میں مزدور ایک گھنٹہ حکومت کو مفت کام کر کے دیتی ہے تو حکومت بھی اسکا بدل عوام کو اور مزدوروں کو ترقی ،استحکام اور خوشحالی کی صورت میں دیتی ہے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے تاکہ کوئی بھی شخص فارغ نہ رہے کیونکہ جب پیٹ پالنے کیلئے سہولت نہ ہو اور غربت اور مفلسی عام ہونے لگے تو گلی محلوں میں جرائم خود ہی سر اٹھا لیتا ہے اور اس طرح سے پوری کی پوری نسل تباہ ہو جاتی ۔مزدور طبقہ کسی بھی ریاست کا ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر مادیت کے اور اونچائی کے نشے میں چھت یہ سوچے کہ ستون گر بھی جائے تو مجھے فرق نہیں پڑتا تو یہ اسکی غلط فہمی ہے کیونکہ ستون کے بغیر ہر عمارت نا مکمل ہوتی ہے۔پر دیکھا جائے تو کوئی بھی مالک اس وقت یہ نہیں چاہتا کہ اس کا نقصان اس صورت میں ہو کہ وہ اپنی کمائی کا کچھ فیصد حصہ مزدور کو دے بلکہ اکثر مالک تو مزدوروں کے ساتھ رویہ بھی غیر اخلاقی اورحقارت کا رکھتا ہے جسکی وجہ مزدور کو بھی یقین ہوجاتا ہے کہ وہ کہ اس کی اوقات آسمان کی طرف دیکھنے کی نہیں ۔یہاں ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ بہت ہی کم مزدوروں کے بچے ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کی ہو اور معاشرے میں بہتر مقام حاصل کیا ہو کیونکہ مزدور اپنی مزدوری سے صرف بچوں کا پیٹ ہی پال سکتا ہے ان کی پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دے سکتا کیونکہ ملک کا بیشتر طبقہ مزدور ہے اس لئے پاکستان میں تعلیمی شرح بھی بہت کم ہے انہیں حالات کی بنا پر مزدور غریب سے غریب تر اور مالک امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے کیونکہ اس نے مزدور کی سالانہ اجرت تو بڑھانی نہیں پر اسے سالانہ منافع بڑھ کر ہی ملتا ہے اس بارے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ مزدور کو مکمل طور پر ریلیف مل سکے اورملک میں تعلیمی شرح میں اضافہ ہو سکے۔
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190405 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More