ہسپتالوں میں پولیس چوکیاں؟
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
اب ہسپتالوں میں پولیس چوکیاں بنیں
گی، محکمہ صحت کے صوبائی ذمہ داران نے تمام سرکاری ہسپتالوں کے سربراہوں کو
مراسلے جاری کردیئے ہیں۔ وجہ اس انتہائی قدم کی یہ بتائی جارہی ہے کہ
ڈاکٹروں اور مریضوں کے لواحقین میں آئے روز تلخ کلامی ہوتی رہتی ہے، اور
بعض اوقات بات کچھ آگے بھی بڑھ جاتی ہے، فریقین کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی
نوبت آئی رہتی ہے، اس تلخی کے خاتمے کے لئے ضروری جانا گیا کہ ہسپتالوں میں
پولیس کی چوکیاں ہی قائم کردی جائیں تاکہ بصورت جھگڑا پولیس کو طلب کیا
جاسکے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ جھگڑے کے موقع پر پولیس پہلے سے ہی موجود ہو،
اور جھگڑا ہوتے ہیں اس کا قلع قمع کردے۔ چونکہ ان چوکیوں کا مطالبہ اور
بندوبست خود محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران نے کیا ہے، یقینا انہیں پنجاب کے
وزیر صحت (جو ہیں کہ نہیں ہیں) سے اجازت ضرور لی ہوگی، اس لئے فریق اول
یعنی ہسپتال انتظامیہ وغیرہ تو اس پر کوئی اعتراض کر نہیں سکتی، رہ گئے
مریضوں کے لواحقین تو ان سے کس نے پوچھنا ہے، یا ان کی رائے کی کیا اہمیت
ہے؟
ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، وہ تو سب کے سامنے آئینہ ہے،
ڈاکٹر کا خیال ہوتا ہے کہ وہ صبح سے مریض دیکھ دیکھ کر تھک چکا ہے، اب آرام
ہونا چاہیئے، مریض کے لواحقین کہتے ہیں کہ صرف ہمارا مریض تو ضرور دیکھ لیا
جائے، پھر خواہ آرام ہی کیوں نہ کیا جائے۔ ویسے بھی ڈاکٹروں کے لئے تمام
مریضوں کے کیس ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، وہ روز ہی مریضوں کو تڑپتا بھی دیکھتے
ہیں، آپریشن بھی کرتے ہیں، اور بدقسمتی سے مرتا بھی دیکھتے ہیں، لہٰذا وہ
مریض کے مرض کی حد تک جذبات میں نہیں آتے، دوسری طرف مریض کے لواحقین کے
لئے اس کا کیس اہم ترین ہوتا ہے، اور ایمرجنسی ہوتی ہے، ان کا خیال ہوتا ہے
کہ ڈاکٹر کی معمولی غفلت بہت خراب نتیجے تک پہنچا سکتی ہے۔ فریقین میں یہی
خلیج حائل ہوتی ہے، اور اس کے ختم ہونے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز ہسپتال کے مختلف وارڈز میدانِ جنگ بنے ہوتے ہیں۔
جنگ چھڑ جانے کی صورت میں عموماً پلہ ڈاکٹروں کا ہی بھاری رہتا ہے، کیونکہ
اول تو بہت سے ڈاکٹر ہی موقع پر پہنچ جاتے ہیں ، ان کے علاوہ چار سُو
ہسپتال کا عملہ ہی پھیلا ہوا ہوتا ہے،ان میں سے جو بھی قریب ہوتا ہے وہ
کھنچا چلا آتا ہے، اور اپنے باس کو بچانے کی سعی میں مصروف ہو جاتا ہے۔
پولیس چوکیوں سے ہسپتالوں والے اور کام بھی لے سکتے ہیں، وہ یہ کہ آج کل
ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج بہت زور وں پر جا رہا ہے، یہ صرف آجکل کی بات نہیں،
آئے روز یہی کچھ ہوتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ آؤٹ ڈور ڈاکٹر موجود نہیں،
کیونکہ ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں، مریض رلتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ یہ ڈاکٹرز
ہسپتالوں سے احتجاج شروع کرتے ہیں اور باہر بڑی سڑکوں پر آکر ٹریفک روک
دیتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ حکمرانوں پر احتجاج کا اثر اسی وقت ہوتا ہے، جب
سڑکیں بلاک کی جائیں، حکومت کے خلاف نعرے لگائے جائیں ۔ یہ لوگ سڑک پرا ٓتے
ہیں تو قدرتی طور پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے، پھر لوگوں کو جو حال ہوتا ہے،
وہ اپنی مثال آپ ہے، عموماً ٹریفک جام ہونے کی صورت میں سب سے اہم اور حساس
بات یہی کی جاتی ہے کہ اس ماحول میں ایمبولینسز بھی رکی رہیں، کبھی یہ خبر
بھی آجاتی ہے کہ اس میں ایک مریض دم توڑ گیا، (یہ منظر نامہ ہمہ قسم کی
ٹریفک بلاک کا ہے) اور جب یہ معلوم ہو کہ ٹریفک روکنے والے خود مسیحا ہیں
تو قوم اور بھی پریشان ہو جاتی ہے، کہ جس کو انسانیت کی جان بچانے کے لئے
لاکھوں روپے خرچ کرکے ڈاکٹر بنایا جاتا ہے، وہی انسانیت کی موت کا سبب بن
رہا ہے۔ یہ وقت بھی آنا تھا۔ اب یہ پولیس چوکیاں جہاں مریضوں کے لواحقین کی
سرکوبی کا فریضہ سرانجام دیں گی، وہاں یہ ینگ ڈاکٹرز کو قابو کرنے کے کام
بھی آئیں گی۔ اگر پولیس چوکیوں کا تجربہ کامیاب ہوگیا تو یہ کام
یونیورسٹیوں میں بھی کیا جاسکتا ہے، جہاں اکثر طلبہ آپس میں جھگڑتے اور
ہنگامہ کرتے رہتے ہیں۔ پولیس کی خوش بختی ہی جانئے کہ ابھی تک اس پر اداروں
کو اعتماد ہے، کہ اس کی موجودگی میں جھگڑے اور ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی۔ یہ
معلوم نہیں کہ پولیس کا قانون پر عملداری اور ڈسپلن کی وجہ سے امیج بنا ہوا
ہے، یا جھگڑے اس لئے کم ہوں گے کہ متاثرین کو اس بات کا ڈر ہوگا کہ معاملہ
پولیس تک پہنچ گیا تو نئے عذاب میں آجائیں گے۔
|
|