بس اب برداشت ختم ہوگئی
(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)
انسان کی شخصیت کو مختلف پہلووں سے جانا
اور ماپا جاسکتاہے ۔اس کی گفتگو اس کے رہن سہن اور طرز زندگی سے اس کی
شخصیت عیاں ہوتی ہے ۔یوں تو تعمیرشخصیت کے لیے خواص کی طویل فہرست ہے ۔لیکن
آج میں آپ سے ایک ایسی بات شئیر کرنے والا ہوں کہ ان شاء اﷲ اگر ہو خاصیت و
وصف آپ نے اپنی زندگی میں شامل کرلیا یا اپنا لیا تو اس کے نتائج پر آپ
مجھے دعائیں دیں گے ۔
بات طویل ہوئی ۔چلتے ہیں اپنے عنوان کی جانب ۔آپ گاڑی میں سفر کررہے ہیں ۔ایک
شخص آپ سے ٹکر اجاتا ہے تو بے اختیار زبان زہر اگلنا شروع کردیتی ہے ۔خود
سے کمزور نظر آتا ہے کہ چشم زدن میں ہاتھ بھی اُٹھ جاتاہے ۔اور ٹکرانے والے
کو دن میں تارے دکھا دیتے ہیں ۔
ایک گھر جسے آشیانہ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔جہاں اپنے اپنے رہ رہے ہوتے
ہیں ۔شب و روز اپنوں میں گزر رہے ہوتے ہیں ۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ
خوشیوں کا گہوارہ اور مثالی گھر بے اطمینانی کا مرکز اور ناچاقیوں کا
چوراہا بن جاتا ہے ۔کل تک آپ جناب کرنے والے آج ایک ہی عمارت میں رہتے ہوئے
ایک دوسرے سے سلام کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں ۔جن کے دکھ سکھ سانجھے تھے آ ج
موت ملاقات بھی ختم ۔
وہ دوست جن کے بنا جینا ممکن نہ تھا آج ان سے ملنے میں جان جاتی ہے ۔وہ
دفتر کے افراد جو کل تک سر ،بوس ،حضرت جیسے مہذب الفاظ سے مخاطب کیا کرتے
تھے اور ملنے میں اعزاز محسوس کرتے تھے ۔عزت تو کجا بدعاؤں اور بے رغبتی
اپنا تے دکھائی دئیے ہیں ۔
قارئین !اور معاشرے کے ایسے سینکڑوں کردار بے نقاب کرسکتاہوں ۔لیکن آپ جیسے
سمجھ دار لوگوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔کبھی غور کیا وہی انسان وہ جگہ
وہی رہن سہن سب کچھ تو وہی ہے لیکن یہ زندگی کا سارا موسم ہی بدل گیا ۔ہوا
کیا؟کیا آفت آن پڑی ۔ہر کوئی بیزار بیزار نظر آرہا ہے ۔کاٹنے کو دوڑ رہاہے
۔وجہ کیا ہے ؟
طویل غور و فکر کے بعد پتا چلتا ہے مابدولت ذرا اپنے ولن والے رویہ پر تو
غور کریں ۔براداشت نام کی چیز نہیں ۔ذرا ذرا سی باتوں پر الجھنے اور برداشت
کی کمی نے ہمیں تنہا کردیا ہے ۔یہ تنہائی کی وحشت کاٹتی ہے ۔برداشت نہ ہونے
کے مرض نے زندگی میں وہ زہر اگلا ہے کہ اب تو سب ہی پرائے پرائے لگنے لگے
ہیں ۔
محترم پریشان نہ ہوں یہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے کرتوت ہیں ۔آپ نے کبھی غور
کیا آپ کے اس رویہ سے دوسرے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ وہ ناراض
ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔اس نقصان دہ
روئیے سے نجات پانے کے لیے اپنی قوت برداشت بڑھانے کا ارادہ کریں اور غصہ
دلانے والے مواقع پر پرسکون رکھنے والی چند تدابیر سیکھیں۔
غلطی کی گنجائش رکھیں بے صبرے لوگ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے کوئی
گنجائش ان کو پسند نہیں ہوتی۔ وہ معاملات یوں طے کرتے ہیں کہ گویا ہرکام
مقررہ یا مطلوبہ وقت پر ہوتا چلا جائے گالیکن روزمرہ کی زندگی اس سے یکسر
مختلف ہوتی ہے۔ کاموں میں غیر متوقع، اور اکثر اوقات غیر ضروری رکاوٹیں
پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ان محرکات پر نظر نہیں ہوتی اور پھر آگ بگولہ ہوجاتے
ہیں ۔یہ قوت برداشت نہ ہونے کی آگ ان کے کردار و گفتار کو جلا کر راکھ
کردیتی ہے ۔درست امر تو یہ تھا کہ انسان کو ذہنی طورپر غیر متوقع رکاوٹوں
کے لیے تیار رہنا چاہے۔
جناب!!زندگی میں سب باتیں ہماری خواہش کے مطابق ہوں یہ ضروری نہیں بلکہ
قرین قیاس یہ ہے کہ فطرت کے بھی خلاف دکھائی دیتاہے ۔تالاب کے ایک کنارے پر
بہت شوراٹھتا ہے تو دوسرا کنارہ البتہ بہت پرسکون ہوتاہے۔زندگی کے شورشرابے
میں ہمیں تالاب کا دوسرا کنارہ نہیں بھولنا چاہئے۔ تھوڑی سے برداشت کی ہمّت
سے ہم اپنی پریشانیاں کم کر سکتے ہیں۔ مسائل کے نئے حل تلاش کر سکتے ہیں
اور زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں۔
ہر معاشرے میں انتشار و خلفشار کی بنیادی وجہ قوت برداشت کی کمی ہے اگر
انسان انہی میں بنیادی خامی بلکہ کمزوری کے خلاف نبر د آزما رہے۔ تو یہ
عارفی دنیا رہنے کیلئے ایک پر سکون جگہ بن سکے گی اور سکون سے بڑھکر انسان
کو اور کس دولت کی ضرورت ہوسکتی ہے؟ موجودہ ہر طرف جنگی صورتحال کا بھی
صبروتحمل کے ساتھ مذاکرات کرنے میں حل موجود ہے قتل و غارت کسی مسئلے کا حل
نہیں ہے مجموعی طور پر دنیا کو امن گاہ بنانے کیلئے انفرادی اور بین
الاقومی سطح پر انسان پر قوت برداشت کاعملی مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ ایک
دوسرے کیلئے دھونس، دھاندلی، دھمکیوں اور دھماکوں کا بحران کبھی ختم نہیں
ہوگا۔بلکہ یہ دنیا نہ ختم ہونے والی آگ میں جلتی رہے گی ۔
محترم قارئین:زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں انسان جذبات
سے مغلوب ہوجاتا ہے اور غیظ و غضب سے رگیں پھڑکنے لگتی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ
فوری طورپر انتقامی کارروائی کی جائے، جیسا بھی ہوسکے سامنے والے کو اپنی
برتری اور طاقت کا ایسا کرشمہ دکھایا جائے کہ دشمن طاقتیں ہمیشہ کے لیے زیر
ہوجائیں، ممکن ہے اس سے ذہنی و قلبی سکون ملے اور مختلف خطرات سے نجات بھی؛
مگر اسلام نے جذبات میں آکر کسی فیصلہ کی اجازت نہیں دی ہے، تمام ایسے
مواقع پر جہاں انسان عام طورپر بے قابو ہوجاتا ہے، شریعت نے اپنے آپ کو
قابو میں رکھنے ، عقل وہوش سے کام کرنے اور واقعات سے الگ ہوکر واقعات کے
بارے میں سوچنے اور غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے، جس کو قرآن کی اصطلاح میں
صبر کہاجاتا ہے۔
آئیے اسلام کے انداز زندگی کو سمجھئے اور اس عالمی مسئلہ کا حل بھی پڑھیے ۔ارشاد
ِ باری تعالیٰ ہے ۔’’ارشادِ باری ہے ۔وَ لَاتَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ ولا
السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ فَإذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ
وَبیْنَہ عَدَاوَۃٌ، کَأَنَّہ وَلِیٌّحَمِیمٌ، وَ مَا یُلَقّٰھَا اِلَّا
الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ مَا یُلَقّٰہَا اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْم‘‘۔ (سورہ
فصلت)
ترجمہ:’’اور بھلائی اور برائی برابر نہیں، اگر کوئی برائی کرے تو اس کا
جواب اچھائی سے دو،پھر تو تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے وہ ایساہوجائے گا
گویا دوست ہے ناتے والا اور یہ بات ملتی ہے انھیں کو جنھیں صبر ہے اور یہ
بات ملتی ہے اس کو جس کی بڑی قیمت ہے۔‘‘
سبحان اﷲ !کتنا پیارا پیغام ہے جس میں سراسر انسانیت کی بقا ہے ۔آئیے میں
آپ کو اپنے آقا ﷺ کا پیغام بھی بتاتا ہوں ۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول
اللّٰہ!آپ مجھے کوئی وصیت فرمائیے۔ جس پر میں عمر بھر کاربند رہوں، آپ نے
فرمایا : غصہ کبھی مت کرنا، راوی کہتے ہیں اس شخص نے اپنی کوتاہ فہمی کی
وجہ سے باربار یہی سوال لوٹایا، مجھے وصیت کیجیے، آپ نے ہر مرتبہ یہی جواب
دیا، غصہ کبھی مت کرنا۔ (صحیح بخاری)
صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے اور کسی ناخوشگوار واقعہ پر کسی بھائی کے
خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے اور شیطان انسان کا
ازلی دشمن ہے؛ اس لیے اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہیے۔کسی صورت میں
آپ کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
محترم قارئین ۔سیرت عمر فاروق کا یہ واقعہ پڑھیے ۔ ایک عرب قبیلہ کا سردار
عیینہ بن حصن مدینہ آیا اور اپنے بھتیجے حُربن قیس کے پاس ٹھہرا، حربن قیس
ان لوگوں میں سے تھے جن کو فاروق اعظم کے پاس بڑی قربت تھی؛ بلکہ وہ اراکینِ
شوریٰ میں سے تھے ۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مقرب وہم نشیں
علماء و حفاظِ قرآن ہی ہوا کرتے تھے۔ خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، سن رسیدہ
ہوں یا نو عمر، بہرحال عیینہ نے اپنے بھتیجے حُربن قیس سے کہا: برادر زادے!
تمہیں امیرالمومنین سے خاص قرب حاصل ہے، تم مجھے ملاقات کی اجازت لے دو؛
چنانچہ حربن قیس نے ملاقات کی اجازت طلب کی، حضرت عمر نے اجازت دے دی، جب
یہ دونوں فاروقِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عیینہ نے کہا: ’’اے خطاب کے
بیٹے: وہ شکایت جس کے پیش کرنے کے لیے میں آیا ہوں۔ یہ ہے کہ خدا کی قسم،
تم ہم کو زیادہ نہیں دیتے ہو اور ہمارے حق میں عدل و انصاف کا معاملہ بھی
نہیں کرتے ہو، فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ اس دریدہ دہنی اور افترا پردازی
پرجلال میں آگے۔یہاں تک کہ آپ نے قصد کرلیا کہ اسے عبرتناک سزادی جائے۔
حُربن قیس فوراً بول پڑے۔امیر الموئمنین !اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا
ہے۔’’خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرُ بِالْعُرْفِ وَ اعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْن
‘‘۔عفو کو اختیار کرو، بھلی بات کا حکم دو اور جاہلوں سے درگزر کرو‘‘۔ میرا
چچا عیینہ بن حصن یقینا کم فہم ہے اور اسلامی اخلاق و آداب سے نابلد ہے۔
راوی حدیث حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ خدا کی قسم جوں ہی حُربن قیس اس آیت
کریمہ کی تلاوت کی، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا جلال بالکل سرد پڑگیا
اور انھوں نے آیتِ کریمہ کے حکم سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔ (شرح
ریاض الصالحین از مولانا محمد ادریس میرٹھی )
سبحان اﷲ !کیسا کردار ہے ہمارے اسلاف کا۔آپ ذرا تاریخ عرب کے سرکار ﷺ کے
دور کا تصور کریں روح کانپ جائے گی۔رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب نبوت
کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپ کے لیے اجنبی بن گیا۔وہی لوگ جن کے
درمیان آپ کا بچپن اور آپ کی جوانی گزری، جو آپ کی امانت و صداقت کے بڑے
مداح اور عاشق تھے، آپ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے، آپ کے رشتہ دار اور
اہل خاندان جن سے آپ کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں، ان کا بھی آپ کو کوئی
سہارا نہیں ملا، وہ بھی انجانے اورنا آشنا ثابت ہوئے ، تنِ تنہا توحید کا
پیغام لیے گھر سے باہر نکلے؛ مگر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حالات کا رخ بدل
گیا، ناموافق ہوائیں اب موافق ہوگئیں، دشمنوں کے دل پسیج گئے اور پھر وہ
رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے بنے کہ تاریخِ انسانیت میں اس
کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
عرب کی اجڈ اور گنوار قوموں کے دل و دماغ میں اسلام اور آپ کی بے پناہ محبت
اتنی جلدی کیسے رچ بس گئی اور کس طرح ان جانے دشمنوں نے دل و جان سے آپ کی
امارت واطاعت کو قبول کرلی، یقینا اس پر انسانی عقلیں دَنگ رہ جاتی ہیں اور
حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے اس
تاریخی انقلاب میں جہاں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شیریں زبان، اعلیٰ
اخلاق، بہترلب ولہجہ اور پیہم جدوجہد کا حصہ ہے؛ وہیں آپ کا صبر و تحمل،
بردباری اور قوتِ برداشت نے بھی بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔
کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر
انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی
ضرورت تو ہے ہی؛ لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔جہاں
مختلف اذہان اور طبیعت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ظاہر ہے کہ کسی فیصلہ یا
میمورنڈم پر غور کرتے ہوئے تمام ذہنوں کی رعایت نہیں کی جاسکتی۔ اس میں بعض
کی موافقت ہوگی تو بعض کی مخالفت بھی، ساتھ رہتے ہوئے بہت سی ناموافق باتیں
بھی پیش آتی ہیں، کبھی مزاجوں کا اختلاف دل شکنی کا باعث ہوتا ہے تو کبھی
کسی کی تنقید سے خفت اٹھانی پڑتی ہے؛ بلکہ قدم قدم پر ہزار امتحانی راہوں
سے گزرنا پڑتا ہے، اگر تحمل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے تو ایک دن
بھی اجتماعی جگہوں میں شریک رہنا مشکل ہوگا۔ہزار صلاحیتوں کے باوجود اس کا
علم و ہنر بے فیض اور ناکام ہوگا۔ اس لیے اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے
نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضرورت ہے کہ جذبات کو قابو میں
رکھا جائے۔
محترم قارئین !لکھنا چاہیں تو اس موضوع پر لکھتے چلے جائیں ۔لیکن آج کے اس
مشینی دور میں کس کہ پاس پڑھنے کی فرصت ہے ۔اسی چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے
۔اور آپ کی قوتِ برداشت کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ مضمون ترتیب دیازیادہ دیر
طویل بات سے آپ کا صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوجائے اور جس موضوع قوت برداشت
‘‘پر لکھا وہ قوت ِ برداشت بڑھنے کی بجائے ختم نہ ہوجائے ۔قارئین!میں
سینکڑوں لوگوں کو ازرائے تمثیل پیش کرسکتاہوں جن کے پاس کوئی خاص ہنر اور
فن نہ تھا لیکن اپنی برداشت اور بردباری سے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی
۔تو پھرآج سے ہی اس پریکٹس شروع۔اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
طالب دعا: |
|