سستا اور فوری انصاف۔ ایک خواب۔ ایک خواہش

ایک ریٹائڑد سینئر بیوروکریٹ سے ملاقات ہوئی۔ عدالتوں کے حوالے سے بات ہو رہی تھی تو کہنے لگے کہ چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے میں پیش ہونا پڑا۔ خوشگوار حیرت ہوئی، کورٹ کا مزاج بہت بدل گیا ہے۔ جناب جسٹس انور ظہیر جمالی اور سینئر جج جسٹس ثاقب نثار کا روّیہ انتہائی خوشگوار اور شفیق تھا۔ انہوں نے بڑے تحمل سے پوری بات سنی۔ ہر شخص کو جس کا بھی انہوں نے بیان سنا، پورا احترام دیا۔ بڑی محبت سے بات کی اور سچی بات یہ ہے کہ ہم میں کوئی ملزم تو نہیں تھا اور ملزم بھی ہو تو جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا، اُس سے مجرم جیسا سلوک نہیں ہونا چاہئے بلکہ بُرا سلوک تو جج کو زیبا ہی نہیں۔ اگر کوئی مجرم ہے تو سزا دے دی جائے، مگر روّیہ تو انسان کا اپنا عکس ہوتا ہے۔ اچھا روّیہ آپکے اچھے پن کا آئینہ دار ہے۔ مجھے اگر کوئی کہے تو میں اچھے روّیے کے اعتبار سے جناب چیف جسٹس انورظہیر جمالی اور سینئر جج جسٹس ثاقب نثار کو سو میں سے سو نمبر دوں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایسے لوگ عدلیہ میں موجود ہیں جو خود بہت کم بولتے ہیں، مگر اُن کے فیصلوں کی گونج دیر تک سنائی دیتی ہے۔

پرانے حوالے سے کچھ تلخ یادوں کا ذکر کرنے لگے کہ چند سال پہلے کسی مقدمے میں کچھ وضاحت کے لئے مجھے سپریم کورٹ پیش ہونا پڑا۔ جناب جسٹس افتخار چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلیل رمدے پر مشتمل بنچ تھا۔ ججوں نے پوری بات سننے کی زحمت ہی نہیں کی اور بے عزتی شروع کر دی۔ جھڑکیں، دشنام طرازی اور دھمکیاں بہت عجیب ماحول تھا۔ حیران ہوں کہ جسٹس خلیل رمدے جو میرے ذاتی دوست تھے بھی ذاتی دوستی بھول گئے اور پوری طرح ہم سے نپٹتے رہے۔ اگلے دن اخبار میں ججوں کے حوالے سے کچھ اس طرح کی خبریں تھیں کہ بیوروکریسی نے روّیہ نہ بدلا تو چھٹی کرا دی جائے گی۔ بیوروکریسی خود کو عوام کا خادم سمجھے اور بہت سی تنقید اور نصیحتیں، کیس میں مگر کوئی پیش رفت نہ تھی۔ لگتا تھا کہ سب کچھ اخباری بیانات کے لئے کیا گیا ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، جنہوں نے عدلیہ کے ذریعے عملی طور پر اس ملک میں عملی آمریت قائم کی اور ان کے دستِ راست جناب جسٹس جواد ایس خواجہ جو جونیئر ہونے کے باوجود چوہدری افتخار کی مہربانی کے سبب چیف جسٹس کے عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے، کا دور بڑا عجیب دور رہا ہے۔ سینئر وکلاء اس دور کو عدلیہ کا تاریخ کابدترین دور قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں ’چیف تیرے جانثار بے شمار‘ کے نعرے کے ساتھ جانثاروں کا ایک ایسا گروپ وجود میں آیا جنہوں نے عدالتوں کا احترام تباہ کر کے رکھ دیا۔ یہ لوگ عدالتوں میں دندناتے پھرتے اور ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لئے عدلیہ کے وقار کے منافی کام کرتے رہے اور یہ بات سپریم کورٹ کے اُن ججوں کو بھی پوری طرح معلوم تھی اور ہے کہ اپنے دور میں انہوں نے بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا بلکہ اس دور میں بگاڑ زیادہ ہوتا رہا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر اپنے اعزاز میں دئیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ نظام عدل کی تباہی کے ذمہ دار جج، وکیل اور حکومت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے تمام اعضا کو یہ برملا اعتراف کرنا چاہئے کہ جس سستے اور فوری انصاف کا وعدہ ہمارا آئین عوام سے کرتا ہے، ہم وہ وعدہ نبھانے میں فی الحال ناکام ہیں۔
سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اور سینئر جج بھی اس صورت حال کو پوری طرح محسوس کرتے ہیں اور بہتری کی سعی کر رہے ہیں۔ چند دن پہلے سپریم کورٹ کے سینئر جج جناب جسٹس ثاقب نثار نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں گورنمنٹ کالج کے پرانے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بنیادی فرق تعلیم اور قانون کی حکمرانی کا ہے۔ قوانین موجود ہیں مگر اُن پر عمل نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ججز کی تربیت کی بہت ضرورت ہے اور ججوں کی بہتر تربیت سے ہی ہم عدالتی نظام کو مضبوط کر سکیں گے۔ جناب جسٹس ثاقب نثار کی اس بات سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ میرے ایک عزیز کو بجلی کا بل زیرو ریڈنگ کے ساتھ بہتر ہزار (72,000) روپے آگیا۔ ریڈنگ صفر اور بل بہتر ہزار، یہ کس چیز کا جرمانہ تھا۔ اس نے میٹر دیکھا، بل دیکھااور پرکھا، بھاگم بھاگ لیسکو کے دفتر پہنچ گیا۔بھائی یہ بتاؤ کہ جب بجلی استعمال نہیں کی تو یہ بل کسی چیز کا ہے؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ فقط تسلی دی کہ چیک کرتے ہیں۔لیکن بہتر ہے آپ اس بل کو ادا کر دیں۔ ہم چیک کر لیتے ہیں، اگر غلط ہوا جیسا کہ نظر آرہا ہے تو آپ کی ادا کی ہوئی تمام رقم آپ کے اگلے بلوں میں ایڈجسٹ ہو جائے گی۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اس سے ایک سال کا ایڈوانس بل زبردستی وصول کیا جا رہا تھا۔ فقط دو دن کی گنجائش تھی، جن میں بل ادا کرنا تھا۔ دو دن گزر گئے اور جرمانہ ڈال کر بل اسی ہزار (80,000) روپے ہو گیا۔ اسے بتایا گیا کہ اگر مزید دو دن میں بل ادا نہ ہوا تو بجلی کاٹ دی جائے گی۔ مجبوراً عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ عدالت نے کہا کہ آپ کا مؤقف ٹھیک ہے، مگر ہم بجلی والوں کے خلاف سٹے آرڈر اس وقت دیں گے جب آپ بل کا تیسرا حصہ دے دیں گے۔ جج صاحب کو بہت کہا کہ ستائیس ہزار (27,000) روپے یک مشت دینا ایک ملازم آدمی کے لئے جس کی تنخواہ بھی تقریباً اتنی ہی ہوگی ممکن نہیں۔ جج صاحب نے کمال مہربانی فرما کر حکم دیا کہ خصوصی مہربانی سے صرف یہ رعایت کر رہا ہوں کہ آپ چوتھا حصہ یعنی بیس ہزار (20,000) روپے ہی جمع کرا دیں۔ بیس ہزار جمع کرانے کے بعد سٹے آرڈر ملا۔ اس کے بعد چار سال سے زیادہ عرصہ کیس چلا۔ زیرو ریڈنگ کا بل اور اس سے چھ ماہ پہلے اور چھ ماہ بعد کے بل عدالت میں پیش کر دئیے گئے۔ ان دستاویزی ثبوتوں کے ہونے کے باوجود فرضی گواہ پیش کرنے کو کہا گیا۔ مضحکہ خیز قسم کی جرح گواہوں پر ہوتی رہی۔ ایسی جرح جس کا بل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سرکاری وکیل آتا رہا، مگر محکمے کا کوئی شخص بھی بلانے کے باوجود عدالت میں نہیں آیا۔

چار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد خاتون سول جج نے فیصلہ دیتے وقت شکایت کرنے والے کو کہا کہ دیکھیں آپ کے پیسے قومی خزانے میں ہی جانے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ کچھ فالتو پیسے دے دیں گے۔ ایسا کریں آدھے پیسے میں معاف کر دیتی ہوں، آدھے آپ دے دیں۔ چوتھائی تو آپ نے پہلے دے دیا ہے۔ بس چوتھائی آپ کو دینا پڑے گا۔ شکایت کرنے والے نے کہا کہ حضور میں انصاف کے لئے آیا ہوں، آپ یہ احسان کر رہی ہیں کہ آدھا معاف کر رہی ہیں۔ مگر جج صاحبہ نے جو احسان کرنا تھا وہ ہو گیا۔ میرے اس عزیز نے سوچا اپیل میں جاؤں۔ پتہ چلااپیل کے لئے وکیل کم از کم چالیس پچاس ہزار مانگتا ہے، اٹھارہ بیس ہزار کے لئے چالیس خرچ کریں اور پھراگلا جج بھی احسان کرنے والا ہوا، انصاف کرنے والا نہ ہوا تو کیا فائدہ۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو اس صورت حال کا اندازہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصلاح بھی بہت ضروری ہے۔ ججوں کے پاس لوگ انصاف کے لئے آتے ہیں، احسان کے لئے نہیں۔ دوسرا کچھ ایسا راستہ ، ایسا طریقہ کارکہ وہ لوگ جو مہنگے وکیل نہیں کر سکتے وہ بھی کسی طرح انصاف حاصل کر سکیں۔ کوئی ایسا طریقہ کہ یہ لوگ اپنا کیس خود پیش کر سکیں۔ جج اگر تربیت یافتہ ہوں تو لوگوں کے انداز اور ان کے چہرے جو سچ یا جھوٹ کے آئینہ دار ہوتے ہیں سے حقیقت کا اندازہ آسانی سے لگا سکتے ہیں اور یہی چیز ججوں کو بہتر فیصلہ کرنے میں بہت مددگار ہوگی۔مگر ایسا سستا اور فوری انصاف آج کے دور میں ایک خواب اور خواہش سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500739 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More