اسے بد نصیبی کہئے یا ہمارے اعمال کی سزا کہ ہمارا وطن
روز قیام سے لیکر آج تک بحرانوں میں ہی رہا ہے۔ بھارتی جارحیت کا بحران،
معاشی تنگیوں کا بحران،بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کی جنگ کا بحران،
سیاستدانوں کی باہمی سرپھٹول کا بحران الغرض دنیا میں جتنے بھی بحران آسکتے
ہیں اس ملک میں آتے رہے ہیں اور آرہے ہیں۔لیکن چونکہ یہ مملکت ہے خداداد،
شائد اسی لئے اللہ تعالیٰ ہمیں ہر بحران سے یا نکال دیتے ہیں یا اس کے
نتائج کو التوا میں ڈال دیتے ہیں، مشرقی پاکستان کا ہم سے جدا ہو نا اس کی
ایک مثال ہے۔اگر ہم اس وقت کے حالات پر غور کریں تو آج کے حالات سے الگ نظر
نہیں آتے، ایک وقت تک ہمیں مہلت دی گئی اور جب ہم نے اس مہلت سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع نہ کیا، اپنی غلطیوں سے کنارا نہ کیا تو
نتیجةََ ہم سے ہمارا ملک کاایک حصہ چھین لیا گیا۔ آج بھی ہم اسی طرح کے
بحرانوں کا شکار ہے، کچھ قوتیں وطن عزیز کے کچھ عناصر کو اس ملک کی باگ ڈور
دینے کے لالی پاپ دے کر انہیں ہی اس ملک کی سلامتی کے خلاف استعمال کر رہی
ہیں اور وہ عناصر تاریخی حقائق سے نظریں چرا کرشعوری یا لاشعوری طور پر
پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، آج جب پاکستان تاریخ کے
ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے ان حالات میں جمہوریت پر شب خون مروانے کے
خواہشمند کس قدر بے چین ہیں کہ کب کوئی ایمپائر آئے اور ہمیں بیٹنگ دے
دے۔پاکستان کوکیا نقصان ہوتا ہے انہیں اس کی پروا نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ
حکمران بھی کوئی فرشتہ نہیں ہیں، بے شمار غلطیوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں
اور کررہے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ایک بار پھر مظلوم بننے
دیا جائے، عوام الناس کے اجتماعی ضمیر پر اس سے بڑ ھ کر اور کیا عدم اعتماد
ہو سکتا ہے کہ ان کے اعتماد کو ٹھیس لگائی جا رہی ہے، اور اپنی خواہشات کو
عوامی رائے کا نام دیا جا رہا ہے۔آج جب کہ حکومت وقت اپنے تین سال پورے کر
رہی ہے اس پر کوئی رینٹل پاور پلانٹ کا کیس نہیں ظاہر ہوا،ریلوے بھی بند
ہوتا ہوتا ایک بار پھر ٹریک پر آگیا بلکہ اب تو نفع بخش بن چکا ہے،حج جیسے
مقدس فریضے کی ادائیگی کے انتظامات میں ابھی تک کوئی کرپشن کا سکینڈل نہیں
نکل سکا ۔ بلکہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے
اخبارات میںیہ خبر چلی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نو کروڑ روپے کے
حجاج کیلئے موبائل فون خریدے گئے تھے مگر ان کا بل تو منظور بھی ہوا، کیش
بھی ہوا مگر نہ تو موبائل خریدے گئے اور نہ دئیے گئے۔ اب اس کے ذمہ دار کون
ہیں وہی جو آج قائد حزب اختلاف ہیں۔ بہرحال ان سب کے باوجود ہم سمجھتے ہیں
کہ حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور پاکستان کی ترقی کی راہ
میںآنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کا انتظام کر نا چاہئے۔
آج بھی اس ملک کو جس سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے وہ وزیر اعظم پاکستان اور
ان کے اہل خانہ پرپانامہ لیکس کے بعد کرپشن کے الزامات میں انتہائی شدت آ
چکی ہے، اور ان الزامات پر وہ گرد اڑائی جا رہی ہے کہ حقائق کی تلاش میں
کوئی کمیشن بنانے کی بات کی جائے تو کوئی جج صاحب تیار ہی نہیں ہوتے۔
کیونکہ گرد اڑانے والوں کا ایک مطالبہ ہے کہ ''ملزم''کو صفائی کا موقعہ
دیئے بغیر اس کے خلاف فیصلہ سنایا جائے، اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ جج
صاحب بھی بکے ہوئے ہونگے۔ مال لوٹنے والوںمیں شامل ہوں گے۔ فانا للہ وانا
الیہ راجعون۔
چاہئے تو یہ تھا کہ نیب جیسے اداروں کی موجودگی میں کسی نئے کمیشن کی بات
ہی نہ کی جا تی اور احتساب کا عمل ایک تواتر سے جا ری رہتا۔ اس کی زد میں
ہر کوئی رہتا مگر جب بات صرف اور صرف خواہشات کو ہی فیصلہ بنانے کی بن جائے
تو پھر کہاں کے ادارے اور کون سے ادارے ۔ اور اگر نیب جیسے ادارے بھی اپنی
ساکھ بچا کر رکھتے اور کرپشن کے کیسز میں اپنی انکوائریوں کو مثبت رکھتے
اور بڑی بڑی مچھلیوں کو پلی بارگیننگ جیسے گندے کام کے ذریعے پاکیزگی کا
سرٹیفیکیٹ نہ دیتے تو شائد آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ ادھر حال یہ ہے کہ نیب
نے اپنی کارکردگی کے حوالے سے کرپشن کیخلاف اپنے اقدامات اور تحقیقات کی
ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے جس کے مطابق ملک میں کرپشن کی
638انکوائریاں اور 336کیسوں کی تحقیقات تفتیش کے مختلف مراحل میں ہیں۔ نیب
نے کرپشن کیسوں میں ملوث افراد کے بیرون ملک فرار کو روکنے کیلئے 401افراد
کے نام بھی ای سی ایل میں ڈلوائے ہیں جن میں سے 140کا تعلق راولپنڈی سے
ہے۔نیب کی انکوائریاں کراچی، راولپنڈی، لاہور میں چل رہی ہیں، نیب کی
تحقیقات اور انکوائریوں کے حوالے سے یہ شکایات عام ہیں کہ نیب کی تحقیقات
آزادانہ نہیں ہوتیں۔ نیب کو حکومتی دبائو میں رہ کر کام کرنا پڑتا ہے جس کا
نتیجہ ہے کہ انکوائریوں کے اعداد و شمار تو قوم کے سامنے لائے جاتے ہیں
لیکن اس امر سے آگاہی خال خال ہی سامنے آتی ہے کہ ان انکوائریاں کا نتیجہ
کیا نکلا زیادہ تر کرپشن کیسز میں ملوث بڑے مگر مچھوں سے پلی بارگینگ کرکے
انہیں کلین چٹ دیدی جاتی ہے جس سے کرپشن کرنیوالوں کے حوصلے مزید بڑھتے
ہیں۔ مناسب ہوتا کہ نیب نے جہاں عدالت عالیہ کواپنی انکوائریاں جلد مکمل کر
لینے کی یقین دہانی کرائی ہے وہاں قوم کو بھی یہ آگاہی دی جاتی کہ اب تک
نیب نے میگا کرپشن کے کتنے کیسوں کو انکے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ ملک
کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنا ہے تو اس ادارے کو حکومتی، سیاسی ہر طرح کے
دبائو سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہو گا کہ اسی میں ملک کا فائدہ اور اسی
میںادارے کی ساکھ کا بچائو ہے۔ |