برصغیر ایسا علاقہ ہے جس میں آپ کو دنیا پھر کے رنگ ملتے ہیں یہاں کے لوگوں
آپکو انگریزوں کی طرح سفید رنگ والے افریقوں کی طرح کالے رنگ والے بھی
سانوے رنگ والے بھی سفید بالوں والے، سیاہ بالوں والے، سیدھے بالوں والے،
گھنگریالے بالوں والے، نیلی، کالی، بھوری آنکھوں والوں کے ساتھ ساتھ چینیوں
کی طرح چھوٹی آنکھوں والے بھی بھی ملیں گے قد میں بڑے لوگ اور قد میں چھوٹے
لوگ بھی انہیں لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا بدن پھرتیلہ، مضبوط
ہوتا ہے اور وہ فٹ بال اور باکسنگ کے عاشق ہیں اور شکل شباہت سے افریقی نظر
آنے والے لوگ جن کو کسی زمانہ میں بطور غلام برصغیر لایا گیا تھا آج ان لوگ
کو ہم شیدی، سیدی، مکرانی کے ناموں سے جانتے ہیں ان لوگوں کا اپنا ایک کلچر
ہے ان لوگوں کی آبادیاں ہندوستان میں گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، اورپاکستان
میں صوبہ سندھ اور بلوچستان اور جنوبی ایرانی ساحلی علاقوں میں آباد ہیں
اور گجراتی ، مراٹھی، کناڈا، کونکی، سندھی، مکرانی، بلوچی زبان بولتے ہیں
اور مذہب کے لحاظ سے یہ صوفی مسلک سے وابستہ ہیں مگر ان میں سے بعض ہندو
اور بعض رومن کیتھولک مذہب سے بھی وابستہ ہیں ۔
ان شیدھیوں، سیدیوں، مکرانیوں کو کس زمانہ میں یہاں لایا گیا اور کون ان کو
لے کر آیا تھا ایک شیدھی صدیق نے اپنی سوانح عمری میں کچھ شیدھیوں کے حوالہ
سے لکھا ہے اور بعض اور بھی لوگ ہیں جنہوں نے کچھ شیدھیوں کے بارے میں لکھا
ہے مگر ابھی بھی یہ پہلو قابل تحقیق ہے کہ کون ان کو سندھ میں لایا اور ان
پر کیسے حالات گزرے ہیں اور کسے وہ سندھی اور بلوچی معاشرہ کا حصہ بنے ہیں
شیدھیوں میں سے بعض کا یہ دعویٰ بھی ہے ان کا تعلق عرب سے ہے اور یہ سیدنا
حضرت بلال حبشی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ہیں حبشی کا لفظ حبشہ سے نکلا
ہے حبشہ کو آج ہم ایتھوپیا کے نام سے بھی جانتے ہیں یہ وہی حبشہ کے جس کے
سربراہ نجاشی نے اسلام قبول کیا تھا۔
ان شیدھیوں کو مکرانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ابتدااً جن علاقوں میں ان کو
آباد کیا گیا تھا ان میں بلوچستان کا اہم علاقہ مکران شامل تھا جس کی وجہ
سے یہ مکرانی بھی مشہور ہوئے اور مکرانی کے نام سے بعض لوگ ان کو بلوچ بھی
سجھتے ہیں کیونکہ یہ مکران میں رہتے ہیں اور مکران بلوچ قوم کے حوالہ سے
معروف ہے اور یہ لوگ بلوچی زبان بھی بولتے ہیں مگر حقیقت یہ مکرانی اور
بلوچ دونوں الگ الگ اقوام ہیں۔
یہ شیدی ، سیدی، مکرانی لوگ کون ہیں ااور کب اور کیسے اس علاقہ میں آئے ہیں
اس حوالہ سے مختلف قسم کی آراء پائی جاتی ہیں ۔
بعض محققین کا بیان ہے بارہویں سے انیسویں صدی کے درمیانی عرصہ میں افریقہ
کے خلیجی ممالک سمندر کے راستہ سے ہندوستان سے تجارت کرتے تھے اس لئے انہوں
نے ہندوستان میں رہائش گاہیں بنالیں اور موجودہ شیدی لوگ انہیں تاجرون اور
ملاحوں اور غلاموں کی اولادیں ہیں -
مگر ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ان کو عمانی عرب اپنے ساتھ ان علاقوں میں لائے
تھے کیونکہ ایک زمانہ میں بلاچستان کے علاقوں میں ان عمانی عربوں کی حکومت
ہوا کرتی تھی ایک نظریہ یہ بھی ہے ان کو پرتگالی ان علاقوں میں لائے اور
انہوں نے ان کو اس علاقہ میں وڈیرروں کو ان کو بیچ دیا -
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان افریقوں کو زنجبار سے بطور غلام مکران اور
گجرات لایا گیا تھا ۔ مکران میں آنے کے بعد یہ لوگ سند ھ میں آتے تھے اور
جہاں سندھ کے جاگیرداروں اور وڈیروں انہیں خرید کر ان سے کام کرواتے تھے ۔
اسی لئے سندھ میں کافی شہروں میں آج بھی شیدھیوں کے اپنے محلے قائم ہیں جن
کو ان افریقیوں نے قائم کیا ہے مگر یہی نہیں کہ ان کی آبادی انہیں جگیوں تک
محدود ہے بلکہ کچھ ایسے گاؤں بھی ہیں جن میں ان لوگوں کی کثیر تعددا آباد
ہے -
بعض کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان کے علاقہ میں دو قسم کے شیدی آباد ہیں ان
میں سے ایک تو مکران میں رہنے والے میں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ عربی النسل
ہیں اور بلوچی زبان بولتے ہیں اور دوسرے لوگ وہ ہیں جو کہ سندھ میں آباد
ہوئے وہ افریقی ہیں اور سندھی زبان بولتے ہیں -
آج بھی ان میں افریقی کلچر کی باقیات موجود ہیں جس کا اظہار ان کی موسیقی،
رقص اور گانوں سے بھی ہوتا ہے شیدھیوں کا سب سے مشہور فیسٹیول ایک میلہ ہے
جو کہ ذوالحجہ میں منعقد کیا جاتا ہے جس کی تاریخ کا اعلان شیدھی بزرگوں کی
جانب سے کیا جاتا ہے یہ میلہ کراچی کے مضافات میں شمال کی طرف بیس کلومیٹر
منگھوپیر کے مقام پر شیدھی ویلج میں منعقد کیا جاتا ہے جو کہ پیر سلطان سخی
سے منسوب ہے ایک مزار پر منایا جاتا ہے یہ میلہ مگر مچھوں کی وجہ سے بھی
شہرت رکھتا ہے جو کہ اس مزار سے منسلک ایک تلاب میں موجود ہیں جن کے بارے
میں کہا جاتا ہے کہ یہ بابا صاحب کے مرید ہیں اور اور ان مگر مچھوں میں سے
سب سے عمر رسیدہ مگر مچھ کو ’’ مور صاحب ‘‘ کہا جاتا ہے ان مگر مچھوں کے
بارے میں بہت ساری عجیب و غریب روایات موجود ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے
کہ یہ یہ مگر مچھ بابا فرید نے تحفۃً دئے ہیں ایک اور روایت ہے کہ یہ حضرت
لال شہباز قلندر کی جوئیں ہیں جن کی وجہ سے خشک اور بنجر زمین پر چشمہ پھوٹ
نکلا ہے بعض روایات کے مطابق یہ مگر مچھ ایک سیلاب کی وجہ سے اس علاقہ میں
آگئے ہیں اور میلے کے آغاز گدی نشین سب سے بڑے مگر مچھ کے ماتھے پر سندھور
لگا کر کرتا ہے اور لوگ ان مگر مچھوں کو گوشت میٹھائی وغیرہ کھلا کر ا پنی
منتیں مانگتے ہیں پورے سند ھ اور بلوچستان سے لوگ اس میلہ میں شرکت کے لئے
آتے ہیں اور رنگ برنگ کے کپڑے بہنے جاتے ہیں اور آگ وغیرہ جلا کر افریقی
ڈانس کیا جاتا ہے اور افریقی ڈرم بھی بجایا جاتا ہے اور سواحلی( افریقی
زبان) سندھی اور بلوچی میں گانے گائے جاتے ہیں اس میلہ کی تقریبات کو ان
لوگوں کے درمیان دیکھنے سے ایسا ہی لگتا ہے جیسا کہ ہم افریقہ آگئے ہیں ۔
کسی زمانہ میں افریقہ سے بطور غلام آنے والے یہ افریقی آج پاکستانی معاشرہ
کا حصہ بن چکے ہیں - |