بسم اللہ الرحمن الرحیم
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما زنامِ مصطفیٰ است
مردِ قلندر اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم، ڈاکٹر اقبال کے ہاں
روزانہ شام کو محفل سجتی تھی۔ دوست احباب علمی و ادبی گفتگو کرتے۔ ایک شام
احباب علامہ صاحب کے گھر حاضر ہوئے تو علامہ رو رہے تھے اور انکی ہچکی بندھ
چکی تھی۔ سب بڑے فکر مند ہوئے حقیقت پوچھی تو علامہ نے فرمایا ابھی ایک
نوجوان میرے پاس آیا اور دورانِ گفتگو بار بار پیارے آقا سیدنا محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو جناب محمد کہتا رہا۔ مجھے یہ غم کھائے جا رہا ہے
کہ جس قوم کے نوجوانوں کی یہ حالت ہے اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
محترم قارئین ! سویڈن اور دوسرے یورپی ممالک کی جانب سے گزشتہ سالوں کے
دوران میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی
بار بار جسارت کے بعد گیارہ مئی ٢٠١٠ کو سویڈن کی ایک یونیورسٹی میں لیکچر
کے دوران دوبارہ انتہائی گستاخ ویڈیو دکھائی گئی جس پر ہال میں موجود ایک
مسلم طالبعلم محمد المانی نے مشتعل ہو کر دکھانے والے ملعون پر حملہ کر دیا۔
بعد ازاں محمد المانی کی آنکھوں میں سپرے کر کے اُسے قابو کیا گیا اور اُس
ملعون کو بچا لیا گیا۔
اِس واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے فیس بک نے ٢٠ مئی ٢٠١٠ کو نبیِ مہربان صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ایک مضحکہ خیز تصویری مقابلے کا اہتمام کیا جس سے
ناموسِ رسالت کی نگہبانی کے ولوے جُھرّا کے رہ گئے۔
شکاگو میں ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل ایّان ٹی وی پر اسی سلسلے میں ایک یوتھ
ٹالک شو کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں بذریعہ فون مجھے بھی اپنی رائے کے اظہار
کا موقع دیا گیا۔ اس پروگرام میں مسلمان مہمانوں نے جب عقلی بنیادوں پر
مضحکہ خیز تصویری مقابلے کا دفاع کیا تو یقین مانیے میرا بدن خفّت اور
ندامت سے پانی پانی ہو گیا اور مذکورہ بالا واقعے میں علامہ صاحب کا رو رو
کے ہچکی باندھ لینا یاد آ گیا۔
ایّان ٹی وی کی جانب سے یوتھ ٹالک شو کے ذریعے نوجوانوں میں آگہیِ ناموسِ
رسالت اور نگہبانی ناموسِ رسالت کے ولولوں کو اُجاگر کرنا جہاں ایک مستحسن
قدم ہے وہیں مغرب زدہ سوچ کے چند مُشتے از خروارے حامل جو عمداً یا سہواً
اس استہزاء کا دفاع کرتے ہیں قابلِ صد مذمّت اور شرمناک ہیں۔
یہ با لکل ایسے ہی ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے فیس بک اور یو ٹیوب پر
پابندی ایک قابلِ صد تحسین عمل تھا مگر جیو نیوز کے کامران خان کا یہ کہہ
کر دفاع کرنا کہ کارٹونسٹ نے معافی مانگ لی ہے لہٰذا اس قدر سخت اقدام نہیں
کرنا چاہیے اور لاکھوں طلبہ کا نقصان ہو رہا ہے اور فیس بک پر ہی احتجاج
ریکارڈ کروانا چاہیے مزید برآں یہ کہ کسی اور ملک نے حتیٰ کہ سعودی عرب نے
تو پابندی نہیں لگائی پاکستان ہی کیوں؟ وغیرہ۔
یہ نہ صرف انتہائی افسوسناک بیانات ہیں بلکہ ان نوجوانوں کے لئے گمراہی کا
سامان ہے جو ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں اور اُس غیر معمولی تعلقِ عشق کی
نزاکت کو جاننے کے مراحل میں ہیں جو ہم آقائے دو جہاں رحمتِ بے کراں محمد
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کیلیے رکھتے ہیں۔
مذکورہ یوتھ ٹالک شو میں وقت کی کمی اور ٹیلی فون پر آواز کا صحیح نہ سُن
پانا جیسی دو وجوہات کی بنا پر میں اپنی رائے سُننے والوں کی خدمت میں کما
کان حقہ نہیں پہنچا سکا۔ یہی تشنگی میری اس تحریر کا مؤجب بنی۔
اس تشنگی کے علاوہ شائد ایک وجہ آزردگی بھی ہو وہ اسلیے کہ اس پروگرام میں
صاف صاف یہ بھی کہا گیا‘ یہ گورے جو اس طرح کے مسائل پیدا کر رہے ہیں وہ
اسلام دشمن نہیں بلکہ دشمن ملک فیصل اور انکی جیسی سوچ ہے۔
اس تشنگی اور آزردگی کے ساتھ علامہ صاحب کی موجودگی اس تحریر میں وہی سمجھ
سکتا ہے جو دل میں سوز و گداز کی کیفیت رکھتا ہو۔ میرا احساس ہے کہ مسلم
قوم کی شکست خوردگی اور علمی و عملی بے چارگی پر اقبال سے ذیادہ کم ہی کسی
نے آنسو بہائے ہونگے۔
تا شعارِ مصطفےٰ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے تعلقِ عشق کے فقدان کو دیکھ
کے بارہا جمالِ مصطفےٰ سے آشنائی کی تاکید بھی اقبال سے ذیادہ کس نے کی
ہوگی۔
عصرِ ما را زما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفیٰ بیگانہ کرد
نوجوان ذہنوں میں جو سوال اس وقت اُمڈ رہے ہیں وہ یہ ہیں۔
١۔ ناموسِ رسالت، محبتِ رسول، عشقِ مصطفیٰ یہ تو مسلمانوں پر لازم ہیں غیر
مسلموں کی گردنوں پر جبر کی یہ تلوار کیوں لٹکائی ہوئی ہے؟
٢۔ تصویر یا کارٹون بنانے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ اگر کسی اور شخصیت کا
کارٹون بنایا جا سکتا ہے تو رسالت مآب کا کیوں نہیں؟
٣۔ اگر مان بھی لیں کہ یہ گستاخی ہے تو چلیں ہو گئی اب اس پہ اتنے مظاہرے
اور ڈرامے اور قتل تک کر دینے کی باتیں۔ یہ کیا تماشہ ہے؟
٤۔ نبیِ مہربان، رحمت اللعالمین، رحمت کے پیامبر ہیں۔ اسلام امن کا دین ہے۔
کیا آپ نے کسی کو قتل کیا؟ تو مسلمان قتل و غارت کی بات کیوں کرتے ہیں؟ کیا
یہ کھلا تضاد نہیں؟
نوجوان ذہن اس حقیقت سے تو بخوبی آشنا ہیں کہ انسان خِلقی اعتبار سے ایک
جسمانی وجود رکھتا ہے ایک نفسیاتی وجود رکھتا ہے اور ایک اخلاقی وجود رکھتا
ھے۔ یعنی جس طرح انسان کو دیکھنے اور سننے کے لئے آنکھ اور کان دئے گئے ہیں
اسی طرح اسے ایک حاسہِ اخلاقی بھی دیا گیا ہے۔ حاسہ اخلاقی کا مطلب یہ ہوتا
ہے کہ میں جب اپنے اندر جھانکتا ہوں تو خیر اور شر کا ایک شعور پاتا ہوں۔
یہ شعور ازلی ہے یہ شعور ابدی ہے یہ شعور عالمگیر ہے۔ ہم پوری انسانیت میں
اگر کسی چیز کو مشترک دیکھتے ہیں تو وہ یہی شعور ہے۔
یہ حاسہ اخلاقی انسانیت کے شرف کو قائم رکھنے کیلیے جس تہذیب کا تقاضہ کرتا
ہے اُس کے پہلے قدم پر ہی آداب کا ایک پورا نظم قائم ہو جاتا ہے۔ آداب کا
یہ نظم ہمیں تہذیب کی جن اعلیٰ اقدار سے روشناس کرواتا ہے ان میں حفظِ فروج
(یعنی شرم گاہوں کی حفاظت) اور فرقِ مراتب سب سے اہم ہیں۔ فرقِ مراتِب سے
مراد ہے کہ اس شعور کا عرفان حاصل ہو کہ ہماری زندگیوں میں کس رشتے کا کیا
مرتبہ ہے۔ ماں کا درجہ، باپ اور بڑے بھائی کا مقام، شوہر و بیوی کے مراتب،
اُستاد کا مقام، اسی طرح نبی اور پیغمبر کا درجہ اور مقام۔
تو نوجوانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ یہ
مسلِموں یا غیر مسلموں کا مسئلہ تو بعد میں ہوگا پہلے تو یہ انسانیت کا
مسئلہ ہے۔
مغرب نے آزادی کی لے بڑھاتے بڑھاتے تہذیب کی جن اعلیٰ اقدار کو فراموش کر
دیا ہے خود انسانیت کے لیے وہ شرمندگی کا باعث ہیں۔ اور ان کو اس کا شائد
احساس ہی اُس درجے میں نہیں رہا کہ تنقید ایک الگ چیز ہے کسی نقطہ نظر سے
اختلاف ایک الگ چیز ہے لیکن تضحیک اور استہزاء بالکل ایک الگ چیز ہے۔
لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ مغرب والوں کو اس معاملے میں ہم سے زیادہ فکر مند
ہونا چاہیے کیونکہ انسانیت کا شرف تو یہی ہے۔ ایک قوم جو انسانی حقوق اور
اس جیسی دوسری اقدار کے بارے میں خود کو فخریہ علمبردار بتائے اور دوسری
جانب فرقِ مراتب میں اسقدر پستی میں گِر جائے کہ اپنی تہذیب نہ کر سکے۔ اور
یہ شعور ہی کھو بیٹھے کہ کسی سے بات کیسے کرنی ہے چھوٹے بڑے کی تمیز کیسے
کرنی ہے۔ کس کو کس درجے میں رکھنا ہے۔ تو کیا اُس قوم کو یہ شعور نہیں
دلایا جائے گا کہ اِس وقت دنیا کے ڈیڑھ ارب لوگ جس ایک شخصیت کے بارے میں
ایسا احساس رکھتے ہیں کہ ان کا ذکر کرنے سے پہلے کہیں ‘فداک ابی و اُمی‘ یا
رسول اللہ آپ پر میرے ماں باپ قربان۔
کیا ان ڈیڑھ ارب لوگوں کے دلوں میں ایک غیر معمولی تعلقِ عشق تمہیں آزادی
اظہار کے نام پر اپنے احساسات اور جذبات سے کھلواڑ کرنے دے گا۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو خُدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب کم زرِ عیّار ہوگا
تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا۔
اور یہ بات کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تصویر یا کارٹون
بنانے کی کیوں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا احساس ہے کہ عام سے عام مسلمان
خواہ وہ کتنا ہی آزاد خیال کیوں نہ ہو اگر اپنے ایمان اور عقیدے کی آنکھ سے
اپنے دل میں جھانکے گا تو اس تصوّر ہی سے اس کا کلیجہ پھٹ پھٹ جائے گا کہ
کوئی سرورِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی گستاخی کی جسارت کرے اور
وہ خاموش کھڑا رہے۔ اس کا سوچا بھی کیسے جا سکتا ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ
ختم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت اور آپ کے غیر معمولی
احترام کے بیج ہمارے دلوں میں خود اللہ کریم کے بوئے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ ٹالک شو میں تصویر کی حلّت اور حرمت پر بحث نے مجھے
انگشت بدنداں کر چھوڑا۔ یہاں معاملے کی حسّساسیت اور نزاکت ہی کو ملحوظ
نہیں جا رہا۔
قرآن اعلان کرتا ہے کہ مومنوں اگر تمہاری آوازیں بھی پیارے نبی کی آواز سے
گستاخاً اونچی ہو گئیں تو ممکن ہے تمہارے عمر بھر کے اعمال ضائع ہو جائیں۔۔۔
اللہ اکبر
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہں کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
غازی علم الدین شہید کے واقعے نے دور و نزدیک کے مسلمانوں کے دلوں پر گہرا
اثر چھوڑا۔ کچھ احباب علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بابت مختلف
سوالات کیے علامہ صاحب نے دورانِ گفتگو انتہائی رقّت آمیز لہجے میں فرمایا
‘میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرے پاس آئے اور کہے کہ
تمہارے پیغمبر نے ایک دن میلے کپڑے پہن رکھے تھے۔‘
میں آپ سے پوچھتا ہوں اگر آپ کے ساتھ کوئی بد تہذیبی سے پیش آئے تو کیا آپ
کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہو گی؟ اور اگر آپ کے سامنے کوئی آپ کے والد کا
کوئی مذاق اُڑائے پا دشنام طرازی کرے۔ آپ خود کے ساتھ کی ہوئی بدتمیزی تو
شائد معاف کر دیں اپنے والد کے ساتھ کیے ہوئے سلوک کو معاف کر پائیں گے؟ تو
یہ تو اس ہستی کی گستاخی کی بات ہے جس پہ ماں باپ کیا ہزار جان قربان۔
گستاخوں کے لیے نرم گوشے کا تصوّر بھی کرنے والوں سے میرا سوال ہے کہ روزِ
محشر، میدانِ محشر میں شافعِ محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے حضور کس
جواز کے ساتھ پیش ہو گے؟
علامہ صاحب تو کہتے ہیں کہ:
چوں بنامِ مصطفیٰ خوانم درود
از خجالت آب می گردد وجود
میں جب اپنے پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مخاطب کر
کے درود پیش کرتا ہوں تو جب اپنی حالت کو دیکھتا ہوں تو ندامت سے پانی پانی
ہو جاتا ہوں۔
گستاخوں کے خلاف مظاہروں کے ذریعے اپنے مجروح احساسات اور جذبات کے اظہار
کو ڈرامہ اور تماشہ کہنے والو عاشقانِ رسول کے سیلِ رواں کو مت للکارو اور
اس معاملے کی حسساسیت کو فراموش نہ کرو۔
قارئین کرام ! ایک بات یہاں ضرور واضح کر دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ناموسِ
رسالت کی حفاظت کی ذمہ داری در حقیقت خود اللہ رب العزت نے اپنے ذمہ لی ہے۔
فرمایا: فصدعُ بِما تؤمِرُ و اِعرِض عنِ المُشرکِین اِنّا کفّیناک
المستھزئِین ہ
پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) آپ کو جو حکم ملا ہے ان مشرکوں کو
صاف صاف پہنچا دیں اور اس کے نتیجے میں جو آپ کا استھزاء کریں گے یا گستاخی
کریں گے ان کے ساتھ نمٹنا ہماری ذمہ داری ہے۔
یہ بالکل اسی طرح کی ذمہ داری ہے جیسے فرمایا
اِنّ نحنُ نزّلنا الذِکر و انّ لہُ لحٰفِظون۔
بے شک ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا اور ہم یہ اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔
قرآن حفاظِ کرام کے سینوں میں محفوظ ہے لیکن اگر پوری دنیا سے تمام حافظ
ختم بھی ہو جائیں تو بھی قرآن محفوظ ہی رہے گا کیونکہ اس کی ذمہ داری اللہ
تعالیٰ کی ہے۔ اسی طرح ناموسِ رسالت کی حفاظت بھی اللہ اپنے خاص بندوں کے
ذریعے کرواتا ہے۔ ورنہ اللہ گستاخوں کے لیے بھی کافی ہے۔
سزائے موت یا قتل یا تلوار کے نام پر جدید مغرب زدہ ذہن سوالیہ نشان بن
جاتا ہے۔ میں پوچھتا کہ پوری دنیا میں ہتک کے قوانین نہیں بنتے؟ کیا ہتکِ
عزت پر دنیا بھر کی عدالتیں سزائیں نہیں سناتیں؟
کیا ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت جن کو رب العالمین نے ساری انسانیت کے لیے
ہادیِ برحق بنا کر بھیجا ان کی ہتک کی جسارت کرنے والوں کو تمہارے عقیدہ و
ایمان کی عدالتیں کھلے عام دندناتے پھرنے کی اجازت دیں گے؟
اس لیے یہ واضح رہے کہ جہاں مسلمانوں کی ریاست قائم ہوگی وہ ضرور ایسے
قوانین بنائیں گے جس سے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بلکہ لا
نُفرِّقُ کے اصول کے تحت تمام انبیاء و مرسلین کی شان میں گستاخی کرنے والے
کو سزائے موت دی جائے۔ اور جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں جیسا کہ موجودہ
صورت میں سویڈن یا ڈنمارک وغیرہ تو ہر عامی و عارف پر یہ لازم ہے کہ اُٹھے
اور آوازِ دل بلند کرئے اُس وقت تک جب تک بین الاقوامی سطح پر ایسے قانون
کی تشکیل عمل میں نہیں آ جاتی جس کے تحت ایسے گستاخوں کی مکمل بیخ کنی کی
جائے کہ دوبارہ کوئی اس طرح کی حرکت کی جرات نہ کرے۔
اس ضمن میں میں اہلِ مغرب کو بھی ایک بات بالفاظِ واشگاف بتانا چاہتا ہوں
کہ اگر وہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کسی قسم کی جنگ کا ارادہ بھی رکھتے
ہیں تو بد قسمتی سے انہوں نے بہت غلط میدان کا چناؤ کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے
کہ وہ کسی بھی اور معاملے میں مسلمانوں کو تقسیم کر سکتے تھے یہ واحد
معاملہ ایسا ہے کہ پوری اُمتِ مسلمہ اس پر یک جان اور متحد ہے۔ ڈیڑھ ارب
میں سے اس پر کسی ایک شخص کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
کوئی کوالامپور کی گلیوں کا ایک عام باسی ہو یا مراکش کے شہر رباط کا تاجر،
وہ یمنی رومی یا شامی ہو یا حبشی و افغانی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلّم کی محبت اور آپ کی ناموس کی حفاظت کے ولولے یک جان اور نوجوان ملیں
گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت ایمان
کی اکملیت کا مظہر تو ہے ہی مگر اصل بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے
ایک جذباتی لگاؤ اور عشق کی وہ کیفیت جو ہر مسلمان اپنے دل کے اندر محسوس
کر سکتا ہے وہ آنحضور کی حرمت و محبت کے معاملے میں کسی قسم کے اختلاف کا
شکار ہونے ہی نہیں دیتا۔
اور ہر عامی و عارف حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو جتنا عقل سے
سمجھتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر عشق و محبت کی عینک سے دیکھتا ہے۔
علامہ اقبال تو کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ تصور ہی راحت بخش ہے کہ آقا نامدار
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم میرے ہادی اور رہنما ہیں۔
علامہ سے کسی نے اللہ کے وجود کیلیے عقلی دلائل دریافت کیے تو آپ نے فرمایا
وجودِ باری تعالیٰ کے جتنے عقلی دلائل دیئے جا سکتے ہیں اتنے ہی عدم وجود
کے۔ سائل نے حیران ہو کر پوچھا تو آپ اللہ کے وجود کے قائل کیونکر ہیں؟
علامہ نے برجستہ جواب دیا میں تو اﷲ کے وجود کا قائل صرف اس لیے ہوں کہ
میرے پیارے آقا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے کہ اللہ
موجود ہے۔
یک نظر کر دی و آدابِ فنا آموختی
اے خنک روزے کہ خاشاکِ مرا وا سوختی
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ! آپ نے اپنی نگاہِ لطف سے مجھے
نوازا اور اپنی محبت میں فنایئت کے آداب سکھا دیئے وہ کتنا خوشگوار دن تھا
جب آپ کی نظرِ کرم ہو گئی اور میرے نفس کی تمام آلائیشیں جل کر ختم ہو گئیں۔
قارئینِ کرام ! نبیِ مہربان جو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور
اسلام جو امن کا دین ہے کس طرح ایک چھوٹی سی بات پر اس قدر سنگین رویہ
اختیار کر سکتا ہے۔ اسکی وجہ جیسا کہ میں سطورِ بالا میں بھی عرض کر چکا
ہوں کہ ہماری کشتِ دل میں اس کے بیج اللہ رب العزت کے لگائے ہوئے ہیں۔ خود
اللہ کا اپنے پیارے رسول سے جو تعلق ہے وہ شائد کسی تعارف کا محتاج تو نہیں۔
آپ اندازہ کریں کہ اللہ کریم جو اپنے محبوب کی زلفوں اور کملی سے بھی محبت
رکھتا ہے اور یہاں تک کہ اُس شہر کی قسمیں کھاتا ہے جس میں آپ کی ولادت
ہوئی۔
لا اُقسِمُ بِھذا البلد وانت اُحِلُ۔۔
کیا میں اس شہر کی قسم نہ کھاؤں جس میں اے محمد آپ کی ولادت ہوئی۔۔
اور ہمیں اس جبّار و قہّار نے متنبہ کر دیا کہ خبردار اس حریم میں قدم بھی
سوچ کے رکھنا کہیں میرے عتاب و عذاب کا نشانہ بن کے عمر بھر کے اعمال ضائع
نہ کروا بیٹھنا۔
تاجدارِ کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم خود گستاخ یہودی عورت کے ایک دن کوڑا
نہ پھینکنے پر اس کی خبر گیری کیلیے تشریف لے جاتے ہیں۔
اللہ رب العزت نبی مہربان کی مہربانیوں اور رحمت اللعالمین کی رحمتوں اور
حسنِ سلوک کی مثالیں دے کر اسے بہترین نمونہ قرار دیتا ہے۔
مگر ذرا خود اللہ جل جلالہ کے الفاظ پر غور تو کیجیئے جو آپ کے گستاخ کے
لیے خود اللہ نے فرمائے۔ محترم قارئین ذرا دل تھام کے پڑھیے یہ اللہ کے
الفاظ ہیں۔ ان میں غیض و غضب اور قہر تو دیکھیے جو محبوب کے گُستاخ کے لیے
اللہ کے لہجے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ فرمایا:
تبّت یدا ابی لہب وّ تبّ ہ
تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں اے ابو لہب اور تو ہلاک ہو جائے۔
ابو لہب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کیلیے جب گستاخ کلمات ادا
کیے تو اللہ جل جلالہ نے یہ غضب ناک الفاظ فرمائے۔
غور تو کیجئے یہ بدعا کون دے رہا ہے۔ تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں ابو لہب اور تو
مر جائے۔
قرآن اپنی روش کے بر خلاف ایک شخص کا نام لے کر اس شدّت کے ساتھ حملہ آور
ہوا ہے کہ گویا گستاخانِ رسول کے ساتھ نمٹنے کا سبق سکھاتا محسوس ہوتا ہے۔
اسی لیے شائد فرمایا
انّ کفّیناک المستھزئین۔ آپ کے ساتھ تمسخر کرنے والوں کے لیے ہم کافی ہیں۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضور کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے
فوراً بعد گستاخ مسیلمہ کذّاب کے فتنے کی بیخ کنی کی۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہودی کے مقابلے میں ایک گستاخِ رسول
مسلمان کا سر قلم کر دینا کیا کافی دلیل نہیں ہے؟
میدانِ جنگ میں صحابی کا ایک گستاخ مشرک کے پیچھے فوج میں گھس کر اُسے
پکڑنے کی کوشش میں خود اپنے بدن کے کئی ٹکڑے کروا لینا اور آنحضور کا
فرمانا : اعجبتم من الرجل نصر اللہ و رسولہ۔ کیا ایسے شخص پر متعجب ہو جس
نے اللہ اور اسکے رسول کی مدد کی ہے۔
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب
در حقیقت یہ دل کی کیفیت ہے جو آنحضور سے غیر معمولی اور والہانہ وابستگی
اور تعلق پر نمو پاتی ہے۔
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مسلمان ریاست اس سے متعلق قوانین بنانے کی
پابند ہے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف پر یہ لازم ہے کہ وہ اس طرح کے
قوانین تشکیل دے جس سے تہذیب کی اس اعلیٰ قدر کو نہ صرف مذہبی بنیاد پر
بلکہ انسانیت کے شرف کی خاطر کسی صورت میں پامال نہ کیا جاے۔ تاکہ ان جلیل
القدر ہستیوں کی حرمت کو انسانیت کا مسئلہ سمجھا جائے۔
ایک گزارش میں قلم کاروں سے بھی کروں گا کہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا
کر نہائت شائستہ انداز سے دعوت کا کام کریں۔ ٹی وی، ریڈیو، انٹرنیٹ، اخبار،
جیسے ہر ذریعے کو بروئے کار لا کر مغرب کو یہ بتائیں کہ رسالت مآب صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلّم سے ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے اور اس کی حساسیت اور نزاکت
کو ان تک پہنچائیں۔ یہ منتقل کرنا چاہیے کہ آپ کے لیے آپ کی ذات، رشتہ دار،
حکومت، ملک، کچھ بھی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ مگر ہمارے لیے ساری کائنات
سے بڑھ کر متاع رسول کریم کی ذاتِ اقدس ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے جذبات
اور احساسات کا اظہار جس طرح کرنا ہے اس میں خاص طور پر یہ خیال رکھنا ہے
کہ ہم جو کچھ بھی کریں اپنے طرزِ عمل سے ہم دنیا کے سامنے کس شخصیت کی
نمائندگی کر رہے ہیں۔
ہمیں اظہار میں شدّت تو ضرور دکھانی ہے کہ ہماری کس درجے میں دل آزاری ہوئی
ہے مگر اس قدر مہذب اور شائستہ طریقے سے کہ سامنے والے کو پیغمبر کی اُجلی
سیرت اور گستاخوں کی مکروہ حرکات کا موازنہ کرنے میں آسانی ہو۔
اپنے پیغمبر کی نمائندگی کرتے ہوئے ہمیں ان اقدار کا احترام کر کے گفتگو
کرنی چاہیے جو انسان کے ہاں مسلّمات ہیں۔
اور میرا احساس تو یہ ہے کہ روئے زمین پر ایک بھی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جو
کسی نہ کسی طریقے سے اپنی توفیق کے مطابق ناموسِ رسالت کی نگہبانی کا حق
ادا نہ کرے۔ وہ کسی پُر امن مظاہرے میں شریک ہو یا کسی اخبار میں اداریہ
لکھے۔ وہ کسی ٹی وی یا ریڈیو پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے یا کسی بلاگ پر
یا ویب سائٹ پر لوگوں کی تعلیم کرے وہ براہِ راست دعوت کا کام کرے یا
بالواسطہ گفت و شنید سے رائے کا اظہار کرے وہ انفرادی طور پر یا اجتماعی
طور پر اقتصادی جنگ میں شریک ہو یا کسی بھی طرح سے اپنے جذبات اور احساسات
کا مظہر بنے۔ وہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا علمبردار ہے۔ اور
اگر اس معاملے کو معمولی نوعیت کا معاملہ سمجھے اور دل میں ذرہ بھر بھی بغض
رکھے تو وہ جان لے کہ اللہ دلوں کو خوب جاننے والا ہے۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید ملک نے ایک
دفعہ علامہ اقبال سے دورانِ گفتگو پوچھا کہ ہم بھی بہت بڑے ڈاکٹر ہیں لیکن
آپ پوری امت کے امراض کا مداوہ کر کے حکیم الامت کیسے بن گئے؟ علامہ نے
برجستہ جواب دیا بڑا آسان نسخہ ہے آپ بھی آزما لیں، میں نے اپنے آقا علیہ
اصلواہ و السلام کی بارگاہِ اقدس میں گِن کے ایک کروڑ بار درود پاک کا
نذرانہ پیش کیا ہے۔
علامہ کی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اللہ رب
العزت کے حضور یہ گزارش کی کہ محشر کے دن اگر میرا حساب لینا نا گُزیر ہو
گیا تو اے دو عالم کے غنی مولا میرا حساب میرے محبوب آقا کی نگاہوں سے
اوجھل لینا۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پزیر
گر حسابم را تو بینی نا گُزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
اللہم صلی علی سیدنا و مولانا محمدا و علی آلہ و اصحابہ وسلم
(نوٹ: قارئین کے مشاہدے کےلیے پروگرام کا لنک پیش ہے۔)
https://www.facebook.com/#!/video/video.php?v=400908781428&ref=mf |