تین طلاق کا مسئلہ

انڈ ین لا سے متصادم ہونے والی ایک مجلس کی تین طلاق سے پیدا ہونے والے بیشمار مسائل کے سد باب کا ایک راستہ جو نظر آتا ہے وہ یہ کہ گجرات کے شہر احمد آباد میں ہونے والے اسلامک ریسرچ سنٹر کے زیر اہتمام مختلف مسالک کے علمائے کرام کے اظہار خیال جو 4,5,6 نومبر 1973 کو منعقد ہوئی تھی اس کی راہ نمائی سے استفادہ حاصل کرے۔ آخر اس منطق اور فلسفہ کا کیا معنی نکالا جائے کہ ” ایک بار میں تین طلاق کہنا گرچہ جرم ہے، لیکن اس سے طلاق ہر حالت میں مکمل تصور کیا جائے گا۔ اس نظام میں تبدیلی ممکن نہیں‘؟ گویا تبد یلی کرنے والے ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، سوڈان مصر وغیرہ نے” شرعی قوانین میں مداخلت “ کو یا تو قبول کر لیا ہے یا ان ملکوں میں ”غیر شرعی“ قانون کا نفاذ ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کیلئے’ ’دین بچاو¿‘ کی اصل تعبیر یہی ہو سکتی ہے کہ وہ ”انڈین لا“ سے تصادم کا ارستہ اختیار کرنے کی بجائے ا سلامک ریسرچ سنٹر احمد آباد (گجرات) کے زیر اہتمام 1973 میں منعقدہ مختلف مسلکوں کے علمائے کرام کے اس مذاکرہ سے نکل کر آنے والے خیر سے استفادہ کرلے ورنہ سپریم کورٹ کا اس مسئلہ میں موقف واضح کرنے سے ملک میں ایک ایسی بحث کا آغاز ہو جائے گا جو مسلمانوں کے تمام ترجیحاتی مسائل کو پس پشت ڈالنے کا سبب بن جائے گا۔ ملحوظ خاطر رہے کہ اس مجلس مذاکرہ ( سیمنار) کی صدارت حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب دیوبندی ؒ ،( صدر آل انڈیا مجلس مشاورت )، نے کی تھی۔
کیامسلم پرسنل لاءبورڈ سپریم کورٹ سے تصادم کی راہ پر؟

جہاں تک ملک میں فوجداری قانون یا جرائم سے تعلق رکھنے والے معاملات ہیں وہ انڈین لاءکے ضمن میں آتے ہیں اور اس کے نفاذ میں کسی بھی شہری کے مذہب، ذات، نسل کی بنیاد پر قانونی چارہ جوئی نہیںہوتی اور نہ ہی متعلقہ شہری کواپنے پسند کے قانون کا حق انتخاب حاصل ہے۔ انڈین لاءسب کیلئے یکساں اور برابر ہے۔ لیکن دستور ہند میں شادی، بیاہ، میراث، وصیت وغیرہ کے قانون میں یہ گنجائش ہے کہ شہری اپنے دھرم کی وضع کردہ دستور یا شریعت یا پابندی پر عمل پیرا ہو۔ اسی طرح مسلمانوں کا پرسنل لا ہے۔ مسلمانوں کے عائلی قانون سے مراد نکاح، طلاق ، والدین و اولاد اور زوجین کے حقوق ، میراث و وصیت وغیرہ کے مسائل ہیں جو بالکل ہی واضح ہیں۔ مسلم پرسنل لا کے تعلق سے مسلمانوں کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ شرعی قانون ہے اور اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔لیکن مسلمانوں کی اکثریت کی شرعی علم سے عدم واقفیت کی وجہ سے معاشرہ میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جس سے غیروں کو جہاں ایک طرف اسلامی تعلیمات پر تنقید وتشنیع کا موقع ملتا ہے وہیں دوسری طرف معاشرہ میں نقص امن کا مسئلہ پیدا ہونے کا سبب بھی بتلایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شریعت میں میراث کا مسئلہ بالکل واضح ہے ۔ لیکن کسی مسلم خاندان میں میراث یا جائداد کے معاملات کو لے کر باہم دست و گریباں کی صورت میں مقامی انتظامیہ کو دخل دینے کی نوبت جب آتی ہے تو معاملہ کورٹ کچہری تک پہنچ جاتا ہے۔ فریقین میں سے ایک مسلم لاءکی دہائی دیتا ہے تو فریق ثانی انڈین لاءکے رو سے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس صورتحال میں ترجیح ملک کے قانون کو حاصل ہو جاتی ہے اور پھر آئین ہند کے رو سے ایک ایسا فیصلہ بھی سامنے آتا ہے جو مسلمانوں کے شرعی قانون سے براہ راست ٹکراتا نظر آتا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اگرچہ اپنے قیام کا بنیادی مقصد حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے پرسنل لا کو ختم کر کے ” یونیفارم سیول کوڈ“ کی تکرار کے پس منظر میں بتلایا ہے ، تاہم اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ” مسلم لا“ کو تنقید کا نشانہ بننے دینے میںمسلمانوں کا اپنا غیر دانشمندانہ طرز عمل کا دخل ہی نسبتاً زیادہ ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا با ضابطہ قیام اگرچہ 1973 ہوا ہے لیکن اصلاح معاشرہ کی ضرورت سے وہ کس حد تک باخبرتھا اس کا اندازہ مسلم پرسنل لا کنونشن بمبئی 27;28 دسمبر 1972 کے منظور شدہ اس قرارداد سے ملتا ہے کہ” یہ کنونشن اس امر کی و ضاحت کراتا ہے کہ مسلمانوں کو عائلی اور معاشرتی زندگی کے شرعی احکام و آداب سے واقف کرایا جائے تاکہ وہ پوری طرح شرعی احکام پر عمل کر کے معاشرہ کو صالح بنیادوں پر استور کرسکیں“۔ معلوم ہوا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام سے قبل ہی اصلاح معاشرہ کی کوشش چل رہی تھی ، تاہم مسلم پرسنل بورڈ کی تاسیس کے بعد سے یہ مانا جاتا ہے کہ اس میں مزید شدت آ ئی ہے۔ لیکن مسلم معاشرہ کی بد حالی اور نئے طرز کے مسئلوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلم معاشرہ کی اصلاح ہو بھی رہی ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال دو عدد خواتین قاضی کا میڈیا میں نمودار ہو کر یہ اعلان کرنا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے انہوں نے نکاح پڑھانے کی ذمہ داری اپنے اوپر مسلط کر لی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ خواتین کو اپنا یا کسی اور کا ازروئے شریعت نکاح پڑھانے کا حق ہے بھی ، قاضی بننے کے لیکن جس محرک کی طرف راجستھان کی مسلم خاتون محترمہ شبنم آراءنے ا شارہ کیا ہے وہ شریعت کی من مانی تشریحات ہیں جو ان کے مطابق مردوں نے اپنا اجارہ داری بنا رکھا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے سابق ڈین نیز قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئر مین پروفیسر طاہر محمود نے تو اسے ” مولویوں کی ضد “ سے معتبر کرتے ہوئے ” شریعت میں مداخلت “ کا جواز بتلایا ہے۔ معلوم ہوا کہ شریعت کی تشریحات یا فہم ایسی بھی ہیں جسے خواتین کی ایک قابل لحاظ تعداد سمجھتی ہیں اور پروفیسرطاہر محمود کی طرح مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھی سمجھتے ہیں۔

اسی طرح سال کے بارہ مہینوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے دین اسلام کے نام پر ایسے رسم و رواج کے مظاہرے ہوتے ہیںجس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ نصف شعبان کی عبادات کے نام پر ساری رات ملک بھر میں موٹر بائیک کی دوڑ کی جس منکرات کا مشاہدہ ہوتا ہے اور جس کے نتیجہ میں ہونے والے حادثوںکی وجہ سے قیمتی جانیں جاتی ہیں، اسے اسلامی یا شرعی عبادات سے تعبیر ہر گز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے ایسے وضع کردہ طریقہ عبادات پر پابندی عائد کئے جانے پر کیا مسلم پرسنل لا بورڈ اسے مسلمانوں کے شرعی احکام میں مداخلت سے تعبیر کرے گا؟ کیا جمعہ کی نماز یا رمضان کی تروایح کیلئے مسجد سے متصل مصروف ترین شاہراہوں یا سڑکوں پر جماعت کا اہتمام کر کے برادران وطن کو زحمت میں ڈالنا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے ؟ یہی حال محرم کے مہینہ کا ہے کہ اکھاڑے کے جلوسوں میں اغیار کی رسموں کی اس قدر ملاوٹ کر لی گئی ہے کہ اب اکھاڑ ے محرم کی دسویں تاریخ ( یوم عاشورہ)کے بجائے گیارہویں محرم الحرام کو نکلنے لگے ہیں جس سے ضلع و پولیس انتظامیہ کو پریشان کرنے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلم پرسنل بورڈ کی نگہداست میں تشکیل دی جانے والی تنظیموں اور اداروںکی جانب سے اصلاح معاشرہ کے ضمن میں جس منکرات اور مناہی سے مسلمانوں کو متعارف کرانے کی ضرورت تھی اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے میں تساہلانہ یا مصلحتانہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

معاملے کا دوسراپہلو یہ ہے جو سپریم کورٹ کو ”شریعت میں مداخلت“ کا ہاتھ لگا ہے وہ یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے عنوان سے جو بھی بیداری مہم کا مشاہدہ ہوتا ہے اس میں خاص مکتب فکر کے مسائل کی ترویج اور فریق مخالف کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا نے کا ایک ذریعہ نظر آتاہے۔ حالانکہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی بیماری اور برائی پر کسی خاص مکتب فکر کا اجارہ داری نہیں، تاہم اصلاح معاشرے کے تعلق سے ساری کوششیں فقہی مسائل کی نذر کر کے ایک خاص فریق کو گالیاں دینے اور دوسرے مسلک کی بالا تری کا موقع نکال لیا جاتا ہے۔ عصبیت اور تنگ نظری کے اس اسلوب کی طرف دانشوروں کا وہ طبقہ جو ائمہ مجتہدین ، محدثین اور علمائے کرام کی آراء اور نظریات کے ذریعہ ہی متبادل راہ کا اعادہ کرتے ہیں تو انہیں انکی علمی کم مائیگی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ گویا دین فہمی ایک خاص مکتب فکر میں ہی مقید ہو کر رہ گئی ہے۔ 22 اپریل کے شمارہ میں تین طلاق اور” دانشوروں کی غلط فہمیاں“ کے زیر عنوان ، دانشوروں کی اسی علمی کم مائیگی کی خوب بحث کی گئی۔ تاہم یہ طرز تحریر اختیار کرنے سے قبل اپنے اسلاف کی تلقین اور نصیحتوں پر ہی توجہ فرما لیتے۔ ظاہر ہے اس طرح کے اصلاح معاشرہ سے مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی بہترے کوششوں کے باوجود مسلم معاشرہ کی برائیاں کم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔جب یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ مسلم پرسنل بورڈ مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم ہے تو مسلمانوں کے مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اداروں کو بورڈ اصلاح معاشرہ کاایک مشترکہ رہنما اصول ،جو اسکے پونہ اجلاس چہارم منعقدہ 10,11 جون 1978 کی تجویز میں موجود ہے، اس کی تجدید کیوں نہیں کرتا؟ تجویز میںکہا گیا ہے کہ ”بورڈ کے تحت تشکیل پانے والی کمیٹیاں اپنی اپنی جگہ رہ کر ائمہ مساجد ، خطباءاور واعظین کا اجتماع کریں اور مسلم پرسنل لا کے مسئلہ اور اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں بورڈ کے فیصلوں کو عام کرنے کیلئے ان کو تیار کیا جائے، تاکہ ان کے ذریعہ عام مسلم سوسائٹی کی اصلاح اور اسلامی خطوط پر ان کی تعمیر کا کام انجام دیا جا سکے“۔ احقر کی نظر میں بورڈ کی اس تجویز کے ذیل میں اب ایک نئی شق کے جس اضافہ کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ بورڈ کی تشکیل شدہ کمیٹیاں بورڈ کے اغراض و مقاصد سے ہٹ کر اگرمسلکی منافرت پھیلانے کا کام کرتی ہیں تواس کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف مناسب کاروائی کرے تاکہ امت مسلمہ کو متحد رہنے میں مدد ملے۔ مسلمانوں کی مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کا رویہ تو ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کی طرح بن کر رہ گیاہے۔ لہذا ضرورت ہے کہ جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان رواداری کو فروغ دینے کے سلسلہ میں بورڈ اپنی اس ذمہ داری کی تجدید کرے جس میں مسلم معاشرہ میں پھیلی ہوئی خرابیوں کا جائزہ لے کر ضروری عنوانات پر لٹریچر تیار کرے کی بات کہی گئی ہے اور جس کے ذمہ ایک سب کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔

مسلمانان ہند کایہ مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اس کے شرعی قانون کا مذاق اس وقت زیادہ اڑایا جاتا ہے یا آئین ہند سے ٹکراؤ کا سبب اس وقت بتایاجاتا ہے جب عمرانہ جیسے معاملات کے نتیجہ میں قابل لحاظ مسلم اداروں کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ فتویٰ صادر کر کے اسے عین اسلام باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بورڈ نے مصلحتا خاموشی کو ترجیح دی ہے یا پھر کثرت تعداد کو امت کا سواد اعظم مان کر اس سے نہ صرف مرعوب ہو اہے بلکہ اس کے غیر ذمہ دارانہ فتویٰ کو عین قرآن وسنت بھی سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اعلان شدہ اغراض و مقاصد کے ذیل میں یہ بات واضح طور پر تحریرہے کہ”: مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے ما بین خیر سگالی، اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشو نما کرنا اور ”مسلم پرسنل لا“ کی بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ان کے درمیان رابطہ اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا“ مقصود ہے۔ اس کے علاوہ ”ہندوستان میں نافذ ” محمڈن لا“ کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینا اور نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعہ کا اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب وسنت کی اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا“ ۔ لیکن عمرانہ عصمت ریزی تنازعہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے اس اعلان شدہ مقاصد کے حصول میں فقہی مسالک کے اس آسان موقف کو قبول نہیں کیا جس سے قرآن وسنت پر مبنی شرعی قانون تختہ مشق بننے سے بچ سکتا تھا ۔ معلوم ہوا کہ تحفظ شریعت کے ضمن میں مسلم پرسنل بورڈ کو اپنے اغراض مقاصد کے حصول میں شرح قلب کے ساتھ کام کرنے کی مزید ضرورت ہے ۔

”شریعت میں مداخلت “کے ضمن میں تیسرا پہلو یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملت کے وسیع تر مفاد کی خاطر حقیقت پسندانہ اسلوب اختیار کرنے میں مصلحتوں سے کام لیا ہے۔اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لابورڈ کے ایک ذمہ دار ترجمان کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے اس کا موقف واضح ہوتا ہے۔ انہوں کہا تھا کہ” کسی ملک میں کیا ہوتا ہے ، اس سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیںہے۔ پاکستان ، بنگلہ دیش، ایران، سوڈان اور دیگر ملکوں میں کیا ہو رہا ہے وہ ہم نہیں دیکھتے ۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث اور سنت کیا کہتی ہے۔ اسلام میں ایک ہی موقع پر تین بار طلاق کہنا اچھا نہیں سمجھا گیا ہے لیکن اس سے طلاق مکمل سمجھا جائے گا۔ اس نظام میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے“۔ مزید یہ بھی کہا کہ ” ایک بار میں تین طلاق کہنے کو غلط کئے جانے کا مطالبہ پہلے بھی اٹھ چکا ہے لیکن حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی سمیت چاروں مسلک کے مذہبی رہنماؤں نے طے کیا ہے کہ ایک بار میں تین دفعہ طلاق کہے جانے سے طلاق مکمل مانا جائے“ ( اخبار مشرق،4 ستمبر15)۔ بورڈ کے ترجمان موصوف کا مذکورہ بالا موقف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 1) پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ ملکوں کے فقہی مسالک( حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے اپنے وضع کردہ فقہی مسالک( حنفی ، مالکی، شافعی اور حنبلی) شریعت کے دو الگ اصول اور ضابطوں پر عمل پیرا ہیں۔ یا 2) ترجمان موصوف کے بیان کا یہ معنی اور مفہوم ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا اسلام اور دیگر ملکوں کا اسلام جدا گانہ ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان موصوف آخر میں اجتہاد کے دروازے پر تالا ڈالتے ہوئے ،( جس کے وہ مجاز نہیں)، نہایت ہی متکبرانہ انداز میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ مروجہ تین طلا ق کے ”اس نظام میں تبد یلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے“۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے اغراض و مقاصد کے ذ یل میں بورڈ کا لہذا یہ دعویٰ کہ” ہندوستان میں نافذ ” محمڈن لا“ کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائز ہ لینا اور نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعہ کا اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا“، موصو ف ترجمان کے مذکورہ ضدی بیان کے مطابق تضاد اور مختلف نظر آتا ہے۔

واضح ہو کہ اسلامک ریسرچ سنٹر احمد آباد (گجرات) کی دعوت پر احمد آباد میں 4,5,6 نومبر 1973 ءکو ایک مجلس میں” تین طلاق “ کے موضوع پر ایک مجلس مذاکرہ( سمینار) منعقد ہوئی تھی۔ اس مجلس کی صدارت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب، مسلم مجلس مشاورت نے فرمائی تھی ۔ مفتی صاحب موصوف کے علاوہ اس مجلس میں درج ذیل علمائے کرام نے شرکت فرمائی تھی ۔ ۱) مولانا محفوظ الرحمن صاحب [ فاضل دیوبندی مدرس مدرسہ بیت العلوم ، مالیگاؤں]۔ 2) مولانا سعید احمد اکبر آبادی [سابق صدر شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی، مدیر برہان، دہلی] ۔ 3) مولانا مختار احمد صاحب ندوی[ ناظم جمعیت اہلحدیث، بمبئی]۔ 4)مولانا عبدالرحمن صاحب ابن شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ صاحب رحمانی۔ 5) مولانا سید احمد صاحب عروج قادری[ مدیر ماہنامہ ، زندگی ، رام پور، یو پی]۔6) مولانا سید حامد ،[سیکریٹری جماعت اسلامی ہند، دہلی] 7) مولانا شمس پیر زادہ صاحب[امیر جماعت اسلامی مہاراشٹرہ]۔ مختلف مکاتب فکر اور مسلکوں کے مذکورہ علمائے دین نے جس طرح تین طلاق کے مسئلہ پر وقت کی ضرورت کے لحاظ سے نئے سرے سے اجتہاد کی کوششوں پر زور دیا تھا وہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے فراموش کر رکھا ہے۔ مسلم پرسنل لاءبورڈ نے آخر ان علمائے کرام کی دردمندانہ اور مخلصانہ کاوشوں کی بابت کیا موقف اختیار کیا ہے جنہوں نے اپنے مقالات میں بہترے شبہات کا ازالہ کیا۔ جن میں سے کچھ اہم نکات یہاں نقل کیا جا رہا ہے ۔ حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب دوران خطابت اس طرف اشارہ فرمایا کہ ” بہت سارے مسائل میں احناف نے ابو حنیفہؒ کے اقوال کو ترک کر کے دوسرے ائمہ کے اقوال پر فتویٰ دیا ہے۔ مثلاً وہ عورت جس کا شوہر لا پتہ ہو اس میں امام مالک ؒ کے قول پر فتویٰ دیا گیا ہے کہ چار سال تلاش و جستجو اور انتظار کے بعد نکاح فسخ کر دیا جائے اور اس عورت کو شادی کی اجازت دیدی جائے۔ اس ضمن میں حضرت مولانا محفوظ الرحمن نے حضرت مولانا تھانویؒ کے ملفوظات سے ایک واقعہ کا حوالے دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” انہوں ( حضرت تھانویؒ) نے حیلة ناجزہ تصنیف فرمائی اور اس میں نکاح مفقود الزوج کے سلسلہ میں امام ملک ؒ کے مسلک کے مطابق فتویٰ دیا تو کسی نے کہا کہ آپ لوگ تقلید ابو حنیفہ ؒپر بہت زور دیتے ہیں، لیکن امام مالک کے مسلک کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں تو ، تقلید جا رہی ہے۔ فرمایا تم تقلید کو لئے پھرتے ہو، یہاں سرے سے اسلام ہی جا رہا ہے۔ درحقیقت ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ شریعت کی مصلحت کُل کو باقی رکھنے کیلئے کسی خاص امام کی تقلید کر کے دوسرے امام کی رائے پر عمل درست ہے۔ اسی طرح قد یم فقہا کے نزدیک وصی کو یتیم کے مال میں مضاربت کا حق حاصل تھا، مگر متاخرین اس کو ناجائز بتلاتے ہیں۔ ان مثالوں سے مولانا موصوف کا بتلانا مقصود یہ تھا کہ” فقہ حنفی میں بہت توسعَّ ہے۔ فقہ حنفی صرف ابو حنیفہؒ کے اقوال و آرا کا نام نہیں بلکہ بوقت ضرورت دیگر فقہا و ائمہ کے اقوال پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے“۔ (تطلیقات ثلاثہ کا مسئلہ از مولانا محفوظ الرحمن دیوبندی )۔

کیا بورڈ نے مولانا محفوظ الرحمن قاسمیؒ ، فاضل دیوبند ، مدرس بیت العلوم، مالیگاؤں اور دیگر شرکائے سیمینارکے خیالات سے استفادہ کیا ہے؟ حضرت مولانا نے فقہی اجتہادات کے جس اسلوب کی طرف دعوت دیا تھا، مسلم پرسنل لا بورڈ نے کیا اس زاویئے سے اپنے موقف پر نظر ثانی کا دروازہ کھلا رکھا ہے؟ حضرت مولانا نے فرمایا تھا کہ:” کیا تین طلاق کو( تین کے بجائے ) ایک سمجھنے کا خیال دور نبوت سے ہی آ رہا ہے؟ اور کیا احادیث میں اس کے لئے کوئی بنیاد موجود ہے یا نہیں؟ اگر اس کی بنیاد موجود ہے اور دور نبوت سے ہی بحث و گفتگو کی گنجائش چلی آ رہی ہے تو اب ہمارے لئے اور مسئلوں کی طرح یہاں بھی دیکھنا ہو گا کہ ہمارے معاشرے سے کونسی صورت زیادہ مناسب ہے ‘ اس کو اختیار کر لیا جائے۔ غور و فکر کی دوسری بنیاد یہ کہ تین طلاق ایک ساتھ کوئی محمود اور پسندیدہ شئے نہیں ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہ ایسی شکل پر غور و فکر کیا جائے جو سنت کے مطابق اور شریعت کے منشا کے عین مطابق ہو۔ غور و فکر کی تیسری بنیاد ، کیا فقہ حنفی میں اس کی گنجائش ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے اقوال سے ہٹ کر کسی دوسرے امام یا مجتہد کے قول پر عمل کیا جائے۔ غور و فکر کی چوتھی بنیاد ہمارے معاشرتی اور سماجی حالات ہمیں کون سی صورت اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قانون کی عمدگی کیلئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اس میں معاشرہ کیلئے زیادہ سے زیادہ خیر و فلاح کی ضمانت ہو“ ۔ بورڈ اپنے دعوے کے مطابق اگر تمام فقہی مسالک کے اجتہادات کو بیک وقت حق پر سمجھتا تو کم از کم مروجہ تین طلاق کے مسئلہ میں مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سبب نہیں بنتا۔ مسلمانوں کے ” شرعی قانون“ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ” شریعت میں دخل اندازی “کے مترادف بنا دیا گیا ہے وہ انڈ ین لاءسے متصادم ہو نے والی ایک مجلس کی تین طلاق اور اس سے پیدا ہونے والا نان و نفقہ کا مسئلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیامسلم پرسنل لاءبورڈ ا ہل سنت وا لجماعت کے اس طبقہ کے موقف کو بھی شریعت میں دخل اندازی کے مترادف سمجھتا ہے جو ایک وقت کی تین طلاق کو تین کی بجائے ایک سمجھتاہے۔ افسوس کہ بورڈ نے مسلمانوں کے مختلف مسالک کے مختلف فقہی اجتہادات کو موقع اور ضرورت کے تحت نافذ کرنے میں شرح صدر سے کام نہیں لیاہے۔

انڈ ین لا سے متصادم ہونے والی ایک مجلس کی تین طلاق سے پیدا ہونے والے بیشمار مسائل کے سد باب کا ایک راستہ جو نظر آتا ہے وہ یہ کہ گجرات کے شہر احمد آباد میں ہونے والے اسلامک ریسرچ سنٹر کے زیر اہتمام مختلف مسالک کے علمائے کرام کے اظہار خیال جو 4,5,6 نومبر 1973 کو منعقد ہوئی تھی اس کی راہ نمائی سے استفادہ حاصل کرے۔ آخر اس منطق اور فلسفہ کا کیا معنی نکالا جائے کہ ” ایک بار میں تین طلاق کہنا گرچہ جرم ہے، لیکن اس سے طلاق ہر حالت میں مکمل تصور کیا جائے گا۔ اس نظام میں تبدیلی ممکن نہیں‘؟ گویا تبد یلی کرنے والے ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، سوڈان مصر وغیرہ نے” شرعی قوانین میں مداخلت “ کو یا تو قبول کر لیا ہے یا ان ملکوں میں ”غیر شرعی“ قانون کا نفاذ ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کیلئے’ ’دین بچاؤ‘ کی اصل تعبیر یہی ہو سکتی ہے کہ وہ ”انڈین لا“ سے تصادم کا ارستہ اختیار کرنے کی بجائے ا سلامک ریسرچ سنٹر احمد آباد (گجرات) کے زیر اہتمام 1973 میں منعقدہ مختلف مسلکوں کے علمائے کرام کے اس مذاکرہ سے نکل کر آنے والے خیر سے استفادہ کرلے ورنہ سپریم کورٹ کا اس مسئلہ میں موقف واضح کرنے سے ملک میں ایک ایسی بحث کا آغاز ہو جائے گا جو مسلمانوں کے تمام ترجیحاتی مسائل کو پس پشت ڈالنے کا سبب بن جائے گا۔ ملحوظ خاطر رہے کہ اس مجلس مذاکرہ ( سیمنار) کی صدارت حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب دیوبندی ؒ ،( صدر آل انڈیا مجلس مشاورت )، نے کی تھی۔
tanwir ahmed
About the Author: tanwir ahmed Read More Articles by tanwir ahmed: 2 Articles with 2901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.