بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر
کرایا ، جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی آیات
دکھائیں ،بے شک اﷲ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔(بنی اسرائیل۔۱)معراج کا
سفر نبی کریم ﷺ کے معجزات میں سے عظیم معجزہ ہے۔ایک قول کے مطابق نبوت ملنے
کے دسویں سال 27رجب کو نبی کریم ﷺکو یہ سفر کروایا گیا، واقعہ معراج تقریباً
25صحابہ کرام ؓ سے مروی ہے جن میں حضرت انس بن مالک ؓ،حضرت ابوذر غفاری ؓ ،حضرت
مالک بن صعصعہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ،حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ،حضرت ابوہریرہ ؓاور
حضرت ام ہانی ؓ شامل ہیں۔
معراج کا مبارک سفر دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے کو اسراء اور دوسرے کو
معراج کہا جاتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ
تک کا سفر اسراء کروایا اور پھرمعراج کے سفر میں مسجد اقصیٰ ساتویں آسمان
سے اوپر سدرۃ المنتہی اور وہاں سے عرش معلی تک کی سیر کروائی۔حضرت انس بن
مالک ؓ نے حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ میں کعبہ شریف کے قریب بیداری اور نیند کی ردمیانی کیفیت میں
لیٹا ہو ا تھا کہ تین آدمی میرے پاس آئے،میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو
حکمت اور ایمان سے پر تھا،میرا سینہ چاک کیا گیا،پھر اسے آب زم زم سے دھویا
گیا،پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا،پھر میرے پاس ایک چوپایا جو قد
میں خچر سے کم اورگدھے سے اونچا تھا لایا گیا،یہ چوپایا براق تھا ۔ ( صحیح
بخاری صفحہ نمبر455)صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ وہ
چوپایا ایک قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی ،میں اس پر سوار
ہوا یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا،میں نے اس براق کو اس حلقہ سے
باندھ دیا جس سے حضرات انبیاء کرام باندھا کرتے تھے،پھر میں مسجد میں داخل
ہوا۔امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت نقل فرمائی ہے
کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو انبیاء کرام کی جماعت
میں دیکھا ،اسی اثنا میں نماز کا وقت ہوگیا،میں نے ان سب کی امامت کی۔(صحیح
مسلم ج1ص96)حافظ ابن کثیر ؒ نے تفسیر ابن کثیر میں ابن ابی حاتم کے حوالے
سے حضرت انس بن مالک کی روایت نقل کی ہے کہ نماز پڑھانے کے بعد حضرت
جنرائیلؑ نے آپ سے عرض کی ،اے محمد!آپ جانتے ہیں آپ کے پیچھے کن حضرات نے
نماز پڑھی ؟آپ نے کہا نہیں۔حضرت جبرائیل ؑ نے کہاکہ جتنے بھی انبیاء کرام
اﷲ نے مبعوث فرمائے ہیں ان سب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔(ص6ج3)
بیت القدس سے آسمانوں کا سفر حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ
ﷺ نے فرمایا میں جبرائیل ؑکے ساتھ روانہ ہوا یہاں تک کہ قریب والے آسمان تک
پہنچ گیا،جبرائیل ؑ نے آسمان کے خازن سے کہا کہ کھولئے ،اس نے سوال کیا کہ
آپ کے ساتھ کون ہے؟جبرائیل ؑ نے جواب دیا کہ محمد ﷺ ،اس نے دریافت کیا کہ
انہیں بلایا گیا ؟ جبرائیل ؑ نے جواب دیا ،ہاں انہیں بلایا گیا ہے،اس پر اس
نے مرحبا کہا،اور کہا گیا کہ ان کا آنا بہت اچھا آنا ہے،ہم اوپر پہنچے تو
وہاں آدم ؑ کو پایا ،میں نے انہیں سلام کیا ،انہوں نے فرمایابیٹے اور نبی
کے لیے مرحبا ہے،پھر دوسرے آسمان پرپہنچے انہیں سوال و جواب کے بعد وہاں
حضرت عیسیٰ ؑاور یحییٰ ؑکو پایا انہوں نے مرحبا کہا ان کے الفاظ یوں تھے
مرحبا ہو بھائی کے لیے اور نبی کے لیے،پھر ہم تیسرے آسمان پر پہنچے وہان
جبرائیل ؑ سے وہی سوال و جواب ہوئے ،وہاں حضرت یوسف ؑ کو پایا ، میں نے
انہیں سلام کیا ،انہوں نے کہا مرحبا ہو بھائی اور نبی کے لیے۔ پھر ہم چوتھے
آسمان پر پہنچے سوال و جواب کے بعد دروازہ کھولا گیا ہم اوپر گئے وہاں
ادریس ؑ کو پایا ،میں نے انہیں سلام کیا ،انہوں نے کہا مرحبا ہو بھائی اور
نبی کے لیے،پھر پانچویں آسمان پر پہنچے ،وہاں بھی حسب سابق جبرائیل ؑ سے
سوال و جواب کے بعد دروازہ کھولا گیا ،ہم اوپر پہنچے وہاں ہارون ؑ کو پایا
میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے بھی کہا مرحبا ہو بھائی اور نبی کے لیے،پھر
ہم چھٹے آسمان پر پہنچے ،وہاں بھی حسب سابق جبرائیل ؑ سے سوال و جواب کے
بعد دروازہ کھولا گیا ،ہم اوپر پہنچے وہاں موسیٰ ؑ کو پایا ،میں نے انہیں
سلام کیا ،انہوں نے کہا کہ مرحبا میرے بھائی اور نبی کے لیے ،جب میں ان سے
آگے بڑھ گیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔( حضور
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ
کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ
رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی
عطا ہوئی یہ وہی رسولِ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت
کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا)،پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے ،وہاں بھی حسب
سابق جبرائیل ؑ سے سوال و جواب کے بعد دروازہ کھولا گیا ،ہم اوپر پہنچے
وہاں ابراہیم ؑکو پایا ،میں نے انہیں سلام کیا ،انہوں نے فرمایا مرحبا ہو
بیٹے کے لیے اور نبی کے لیے۔(صحیح بخاری۔455)حضرت ابراہیم ؑ بیت المعمور سے
ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور یہی وہ مقدس گھر ہے جس میں ستر ہزار فرشتے روزآنہ
نماز پڑھتے ہیں ،جنب نکل کر جاتے ہیں تو دوبارہ کبھی لوٹ کر اس میں نہیں
آتے۔ یہاں سے آپ کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا ،وہاں سے عرش کا نورانی
سفر ، رب کریم سے ملاقات اورتقرب جسے قاب قوسین سے تشبیہ دی گئی ، اسی
معراج کے سفر میں پچاس نمازوں کا تحفہ بھی عطا ہوا جو رب کریم کے لطف و
انعام سے مقدار میں پانچ رہ گئیں لیکن ثواب مکمل کو برقرار رکھا گیا۔
معراج کی رات نمازوں کے تحفہ کے ساتھ ساتھ اﷲ کریم کے بہت سارے انعامات اور
بھی عطا ہوئے جن میں سورہ بقرہ کی آخری آیات اٰمن الرسول سے آخر تک ،"امت
محمدیہ کے تمام بڑے گناہ معاف کردئے جائیں گے سوائے شرک کے" کا مغفرت بھرا
اعلان(صحیح مسلم ج1ص97)۔ان انعامات کو لے کر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اﷲ
تعالیٰ کی ذاتی و صفاتی تجلیات اور تمام فیوض و برکات سمیت واپس اپنی امت
کی طرف پلٹے۔بلاشبہ نبی کریم ﷺ کا سفر معراج جہاں آپ کی عظمتوں اور رفعتوں
کااظہار ہے وہیں پوری امت کے لیے اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں کا اعلان
بھی ہے۔ |