آئی ایس آئی اور اہل مغرب کا واویلا

دشمن جب کسی قوم اور ملک پر فتح حاصل کرنا چاہے تو اس کے قلب پر وار کرتا ہے اور یہی حال پاکستان کے دشمنوں کا ہے جب بھی اسے اپنی شکست نظر آنے لگتی ہے وہ مسلح افواج اور آئی ایس آئی کو نشانہ بناتے ہیں اور مختلف اطراف سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس بار بھی وہ انتہائی احمقانہ انداز سے ایک تعلیمی ادارے کی رپورٹ کی صورت میں حملہ آور ہوئے ہیں ایسا نہیں ہے کہ لندن سکول آف اکنامکس کے ہاورڈ یونیورسٹی کے فیلو Waldman Matt کی کوئی سٹرٹیجک یا دفاعی اہمیت ہے تاہم اسے دشمن کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور تمام پاکستانیوں کو یقین ہے کہ یہ رپورٹ مغربی ممالک کی نیت کی غماز ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی طالبان کے مالی اور تیکنیکی مدد کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔ نامعلوم طالبان رہنماؤں کے انٹرویوز کا ڈھونگ رچا کر رپورٹ کو جاندار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے نو طالبان لیڈرز کون تھے افغانستان کے انتہائی مغرب دشمن علاقوں میں ان خاص لوگوں تک مصنف کی پہنچ کیسے ممکن ہوئی یہ باتیں ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ صدر پاکستان کی طالبان سے ملاقات کا بھی بے بنیاد ذکر کیا گیا ہے۔ آئی ایس آئی کی طالبان کی سپریم کونسل کے اجلاسوں میں شرکت بھی رپورٹ میں مذکور ہے۔ رپورٹ کے مندرجات تو اب تک سب کو معلوم ہو چکے ہیں لیکن اس کے محرکات ضرور قابل غور ہیں اور ہاں یہ بات بھی بعید از عقل ہے کہ اگر طالبان کو واقعی پاکستان سے مدد مل رہی ہے تو کیا اب اس مدد کی ضرورت ختم ہو گئی ہے جو وہ خفیہ مدد دینے والے مددگار کا راز فاش کر رہے ہیں طالبان بھی جانتے ہیں کہ انہیں اپنی بقا کے لیے ابھی یہ جنگ لڑنی ہے اور اگر پاکستان حقیقت میں مدد کر رہا ہے تو کیا اس کے بعد بھی وہ ان کی مدد جاری رکھے گا یا رکھنے کی پوزیشن میں ہوگا کہیں ایسا تو نہیں کہ وسط ایشیائی توانائی کے ذخائر تک پہنچنے کے لیے علاقے میں اپنے قیام کا جواز بنانے کے لیے مغربی خفیہ ایجنسیاں ان کی مدد کر رہی ہوں اگر یہ بات اہل مغرب کو دور کی کوڑی محسوس ہو رہی ہو تو بھی اس کے امکانات آئی ایس آئی کے طالبان کی مدد کرنے سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے الزامات اب مغرب کا معمول بن چکا ہے اس سے پہلے ایڈمرل مائک ملن یہ الزام لگا چکے ہیں کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا ہے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس بھی آئی ایس آئی پر طالبان کی مدد کا الزام لگا چکے ہیں۔ تاہم یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب امریکہ افغانستان میں بدترین حالات سے دو چار ہے جب صرف چند ہفتوں میں افغانستان میں تیس اتحادی فوجی مارے گئے۔ امریکہ اسوقت افغانستان میں ستر بلین ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے اب تک ہزار سے زیادہ امریکی لاشیں لے جا چکا ہے جبکہ اسکے اتحادی لاشوں کی تعداد بھی ہزار کے قریب ہے۔ ایسے میں دوسروں پر الزام دھر دینا بہت آسان راہ فرار ہے اور محسوس یہی ہو رہا ہے کہ امریکہ اور اسکے مغربی اتحادی نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ پاکستان، آئی ایس آئی اور پاک فوج سے خوف زدہ یہ ملک اور آئی ایس آئی سے کئی گنا زیادہ بجٹ اور وسائل رکھنے والی ان کی خفیہ ایجنسیاں اپنے تمام تر مصائب اور ناکامیوں کا ذمہ دار اس ادارے کو قرار دیتی ہیں جس کے وسائل ان کے مقابلے میں بہت کم اور مسائل بہت زیادہ ہیں جس کو بیک وقت سی آئی اے، ایم آئی 5-، را، رام اور موساد بلکہ کے جی بی کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے اگر ان مقابلوں کے بعد وہ ان کی آنکھوں میں دھول بھی جھونک دے تو ان ملکوں کو باعزت طریقے سے اپنی ہار مان لینی چاہئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی کسی بھی مقصد کے لیے اپنے لوگوں کی جان لینے کی سوچے گا بھی نہیں اور وہ دہشت گردی کی اس نام نہاد اور مسلط کردہ جنگ میں اپنے کئی اہلکاروں کی قربانی دے چکا ہے اس کے دفاتر کو حتیٰ کہ اسکی بسوں تک کو نشانہ بنایا گیا اور طالبان ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے رہے۔ اس سب کچھ کے بعد بھی اس قسم کی لا یعنی رپورٹس شائع کرنے کا سبب کچھ اور ہے یہ جس کو خود سمجھتے ہیں۔ اصل میں افغانستان پر حملے کے وقت امریکہ اور اس کے حواریوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہوں نے سوویت یونین کو تڑوانے کے بعد جس افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑا تھا وہاں انہیں اس قدر شدید مزاحمت اور ہزیمت کا سامنا کر نا پڑے گا اب جب وہاں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مورد الزام پاکستان کو ٹھہرا دیا جاتا ہے نیٹو کے بے تحاشہ ٹینکرز جسکی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ لے چکے تھے ظاہر ہے کہ طالبان نے تباہ کیے کیا اس میں بھی پاک فوج ملوث تھی اور کیا جی ایچ کیو، پریڈ لین کی مسجد اور آئے روز پاک فوج کے قافلوں پر حملے بھی یہی پاکستانی حمات یافتہ طالبان کر رہے ہیں اور کیا پاکستان ان کو اسی سب کچھ کرنے کے لیے مدد فراہم کر رہا ہے۔ اور کیا صدر پاکستان پچاس زیر حراست ان طالبان کو آزادی کی نوید سنانے گئے تھے جن کو وہ مسلسل اپنی شریک حیات کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور ان سے کسی نرمی کے راودار نہیں۔ اصل حقیقت وہی ہے جو پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ یہ لوگ اب بوکھلائے ہوئے ہیں اور کھسیانی بلی کھمبا ہی نوچتی ہے یہ مغربی طاقتیں تو یہ تک کہہ چکی ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو اسکی فوج میں موجود طالبان کے حمایتیوں سے خطرہ ہے جبکہ پاکستانیوں اور پاک فوج کو یقین ہے کہ یہ ایٹمی قوت ان کے قوت ایمانی کے بعدان کی بقا کی ضامن ہے اس لیے وہ مغربی اور مشرقی ہر بد نیت سے اس کی حفاظت کرینگے اور ان کے سامنے ہار نہ مانیں گے۔ دراصل مغربی دنیا اسلام اور خاص کر اسلامی جمہوریہ پاکستان سے خوفزدہ ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس ملک کا مذہب اسلام ہے لہٰذا یہاں داڑھی بکثرت ہی نظر آئے گی اور یہ بھی کہ اس ملک کا قومی لباس شلوار قمیض ہے لہٰذا اکثریت اسی لباس میں ملبوس ہو گی وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہاں تمام لوگ نمازی ہیں لہٰذا ٹوپی کا استعمال بھی عام ہوگا اب اگر ان سب خوبیوں اور خاصیتوں کے باعث امریکہ اور اہل مغرب پورے پاکستان کو طالبان سمجھے تو ان کی جہالت ہے۔ اور ان کو اپنی سوچ پر غور اور نظر ثانی کر لینی چاہیے اور اگر وہ پاکستانی قوم اور فوج کے بارے میں اپنے معاندانہ رویے میں تبدیلی کر لے تو اس کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ اس وقت پاکستان کو امریکہ کی ضرورت نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے ورنہ بصورت دیگر افغان جنگ اس کو مزید مہنگی پڑے گی پاک فوج نے اپنے جتنے افسروں اور جوانوں کو اس جنگ میں کھویا اگر اس کے باوجود بھی مغرب اس کو قصور وار قرار دے رہا ہے تو حکومت پاکستان کو بھی اپنی حکمت عملی پر غور کر لینا چاہیے۔ زیر تبصرہ رپورٹ کی وجوہات میں سے ایک پاکستان کا شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرنا بھی ہے جس کے لیے امریکہ پورا زور لگا رہا ہے اور مختلف حربے آزما رہا ہے۔

ایران پر مغربی پابندیاں لگنے کے باوجود پاکستان کا اس کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی مغرب کے سیخ پا ہونے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے بہرحال وجوہات جو بھی ہوں سب سے بڑی وجہ بدنیتی اور مغرب کا وہ دکھ ہے کہ ایک اسلامی ملک ایٹمی طاقت بن کر اس کے صلیبی ارادوں کی راہ میں روکاوٹ کیونکر بن گیا۔

جیسا کہ میں اوپر لکھ چکی ہوں کہ حکومت پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی ضرور کر لینی چاہیے اور اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے صرف میڈیا وار پر اکتفا کرنے کی بجائے سفارتی سطح پر اسے اٹھانا چاہیے اور برطانیہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک سے ایسی رپورٹ شائع ہونے پر پاکستان سے سرکاری طور پر معافی مانگے اور یہ گارنٹی بھی لینی چاہیے کہ آئندہ ایسی بے بنیاد خبروں اور رپورٹس کو شائع نہیں کیا جائے گا جمہوریت اور آزادی صحافت اپنی جگہ لیکن ذمہ داری کا ثبوت دینا ان کے حق میں بھی بہتر ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 555149 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.