کہاں سے لاؤں ماں تجھ سا؟

توجہ برائے خصوصی ایڈیشن(مدر ڈےMother Day )
تحریر: علینہ ملک (کراچی)
م الف ں ،بظاہر ان تین لفظوں کو یکجا کر دینے سے ایک چھوٹا سالفظ ،ماں بنتا ہے ،مگر یہی لفظ اپنے اندر کل کائنات کو سموئے ہوئے ہے کہ ایک ماں نہ ہو تو گھر کیسے بنجر ،ویران اور اجاڑ دکھائی دینے لگتا ہے ۔یہی لفظ جب زبان سے ادا ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے گویا پوری کائنات اس میں سمٹ گئی ہو ، یہ کائنات اوراس کا ئنات کے سارے رنگ ،اس کی ساری رائنائیاں ،رونقیں ،خوشیاں ،جذبے ،احساسات سب ماں کے وجود سے ہیں ۔ماں ایک ایسی عظیم ہستی کہ جس کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔ہر انسان کی زندگی کا ایک ایسا انمول ،عزیز از جان اور قیمتی رشتہ کہ جس کی عظمت اور رفعت کو لفظوں میں بیان کر نا کسی کے بس میں نہیں کہ دنیا کے سارے اچھے الفاظ بھی یکجا کر لیئے جائیں تب بھی ہم اس محبت کے پیکر کی عظمت کو بیان کر نے سے قاصر رہتے ہیں۔ایک ماں کی اپنے بچوں سے محبت ،اس کے جذبات اور احساسات کو بیان کرنے کے لئے آج تک کوئی ایسا پیمانہ ایجاد نہیں ہو سکا اور نہ ہی ایسے الفاظ اترے کہ جو ماں کی محبت کو مکمل طور پر بیان کر سکیں۔ماں کی محبت اس شجر سایہ کی سی ہے کہ جس کے نیچے بیٹھ کر ٹھنڈک اور سکون کا احساس ہوتا ہے اور جو اپنے وجود میں سمیٹ کر دنیا کے ہر دکھ اور غم کو چھپا لیتی ہے ۔
آنسوؤں کو میرے زمیں پر گرنے نہیں دیتی
ماں میرے سارے دکھ ہتھیلی میں سمیٹ لیتی ہے

زمین پر خدا کی محبت کا روپ ماں ہے ۔ماں کی محبت کتنی عظیم ہے نا کہ اﷲ نے بندوں سے اپنی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہ دی ہے ۔ماں اﷲ کی محبت کا دوسرا روپ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بچے دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں وہ ماں کی محبت کو نہیں بھول سکتے اور جب دنیا کے ہنگاموں سے تھک جاتے ہیں تو صرف ماں کی آغوش میں ہی سکون پاتے ہیں ۔کیونکہ ایک ماں ہی ایسا رشتہ ہے جو بنا کسی غرض کے اولاد سے حقیقی محبت کرتی ہے چاہے اولاد کتنی ہی نافرمان کیو ں نہ ہو ماں کا دل اولاد کے ایک چھوٹے سے دکھ اور معمولی سی تکلیف پر بھی تڑپ اٹھتا ہے ۔
یہ ایک ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں ماں سجدے میں رہتی ہے

نجانے اسے ہماری بدنصیبی کہہ لیں یا پھر بدقسمتی کہ ماں باپ کی بے لوث محبت اور شفقت کا اندازہ ان کے جانے کے بعد ہوتا ہے۔بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ خود کو ماں باپ سے زیادہ سمجھداراور عقلمند سمجھنے لگتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان کے فیصلوں پر حاوی بھی ہونے لگتے ہیں اور بعض اوقات ان کے ساتھ تلخ کلامی بھی کرجاتے ہیں ،مگر اس وقت ان سب باتوں کا احساس نہیں ہو پاتا ،یہ احساس تو اس وقت ہو تا ہے جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔خاص طور پر جب ماں نہ رہے تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں جیسے بے آسرا سے ہو گئے ہیں ،تب وہ پیار بھری شجر سایہ بہت یاد آتی ہے ۔جب کھانے کا دل نہ ہو اور کوئی پوچھنے والا یا پرواہ کرنے والا بھی نہ ہو کہ آپ نے کھانا کھایا کہ نہیں تب محسوس ہوتا ہے کہ وہ ماں ہی ہوتی تھی جو بھوکھا نہیں سونے دیتی تھی کہ جب تک اس کے بچے کھانا نہ کھا لیں تو وہ چین سے نہیں بیٹھتی ، یا اگر اس کی من پسند چیز نہیں تو ماں اس کے بدلے کچھ نہ کچھ ایسا بنا کے ضرور کہلا دیتی تاکہ بچہ بھوکھا نہ رہے ۔یا پھر اس وقت ماں کی یاد ضرور ستاتی جب یاد آتا کے گھر لوٹ کے آنے میں اگر دیر ہو جاتی تو ماں سوتی نہیں تھی اور سارا ٹائم جاگ جاگ کر اپنے بچوں کے خیریت سے لوٹ کے آنے کی دعا کرتی رہتی اور آج کوئی نہیں ایسا جو اتنی بے چینی سے دعا کرے ۔یا پھر وہ لمحات جب کوئی خود کو بہت مشکل حالات میں محسوس کرے ،جب تنہائی ہو اور دل دکھا ہو کسی بات سے یا کسی بیماری اور مشکل نے آ گھیرا ہو تو دل بھر بھر سا آتا اور آ نسو آنکھوں میں امنڈ آتے ایک تڑپ سی دل میں اٹھتی ، تب اپنی ماں کی یاد شدت سے آتی کے کاش آج ماں ہوتی تو سارے دکھ درد سمیٹ لیتی اپنی دعاؤں کے حصار میں کیونکہ عرش والا بھی اس کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا ۔ماں کے بغیر گھر کسی قبرستاں کی طرح لگتا ویران اور اجاڑ ،اور جب کبھی کوئی خوشی کی نوید ملتی تو تب بھی سب سے پہلے بے اختیار ہی لبوں پر ماں کا نام آجاتا ہے کے ماں تو دل میں بستی ہے ۔جب شدت سے ماں کی یاد آتی ہے تو دکھ بیان سے باہر ہوتا ہے کہ اب کہاں ڈھونڈیں اس ماں کو اور کہاں سے لائیں ماں کو جس کی شفقت اور محبت کا کوئی نعم البدل ہی نہیں ۔افسوس کے ماں کے چلے جانے کے بعد اس محبت کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے ۔بیٹیاں جو ماؤں کے بہت قریب ہوتی ہیں کے وہ اپنا ہر راز ہر دکھ ہر غم ماں کے آگے بیان کر دیتی ہیں جب شادی ہو کر سسرال جاتی ہیں تو مائیں ہی ہوتی ہیں جن کے پاس آکر وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہیں ،اور جب ماں نہ رہے تو پھر کوئی اتنا اچھا سامعہ نہیں ملتا جو انکی ہر طرح کی بات کو توجہ سے سنیں اور ان کے دکھ درد کو اس طرح محسوس کر سکے جسے مائیں کرتی ہیں کہ وہ بچوں کے ہر دکھ کو خود پر تاری کر لیتی ہیں اور پھر دن رات کڑھتی رہتی ہیں ۔پھر بہن بھائیوں کو لاکھ اپنے دکھ درد اور غم بتاؤ ہر کوئی اپنی اپنی زندگیوں میں اتنا پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ اس وقت چند لمحوں کے لئے ہمدردی کر بھی دے تو بعد میں دنیا کے جھمیلوں میں سب بھول بھال جا تا ہے ،جب کے ماں اگر اس کے دس بچے بھی ہیں تو وہ ان دس بچوں کے بھی ہر ہر دکھ اور مسئلے کو یا د رکھتی ہیں ،اور ہر دکھ کو اپنے اوپر محسوس کرتی ہے کیونکہ اولاد اس کے وجود کا حصہ ہوتی ہے اور اسے تکلیف پہنچے تو اس درد کی شدت کو ماں کا دل بھی محسوس کرتا ہے ۔
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ نہیں ہوگا
میں چلتا ہوں تو اس کی دعائیں ساتھ چلتی ہیں

ماں باپ کی زندگی میں ان کی قدر کر نا سیکھیں کیونکہ ماں اور باپ کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں اور ماں کی نافرمانی پر تو اﷲ بھی سخت ناراض ہوجاتا ہے ۔ان کے ساتھ تلخ کلامی کرنا، ان کو جھڑکنا ،ان کو سختی سے جواب دینا انتہائی نا پسندیدہ فعل ہیں اور بہت بد قسمت ہیں وہ لوگ جو ماں کے ہوتے ہوئے اسکی دعاؤں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔اولاد چاہے کیسی بھی ہو ماں اپنے بچوں کو کبھی نہیں چھوڑتی اور نہ ہی کبھی ان کے لئے بددعا کرتی ہے مگر اگر اولاد نافرماں ہے تو اﷲ پھر ماں کی دعا کو اسکی اولاد کے حق میں قبول نہیں کرتا ہے ۔اسی لئے ببد بصیب ہیں وہ لو گ جو ماں کے ہوتے ہوئے بھی بے سکون رہتے ہیں ۔دنیا کے کسی ولی ،کسی پیر اور کسی اولیاء کی دعا ماں کی دعا اور اس دعا کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی لہذا اپنی ماؤں سے دعا لینے کا ہنر سیکھیں ۔مائیں جب تک حیات ہیں ان کی خدمت کو عبادت تصور کریں اگر وہ دل سے خوش ہونگیں تو رب بھی خوش ہوگا اور جب رب خوش ہو گا تو دنیاکی ہر خوشی بنا مانگے آپ کے نصیب میں لکھ دی جائے گی ۔اﷲ پاک سب کی ماؤں کا سایہ سروں پر سلامت رکھیں اور جن کی مائیں حیات نہیں ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین
 
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.