نوجوانوں میں شیشہ نوشی کا بڑھتا رجحان

نوجوانوں میں شیشہ نوشی کا بڑھتا رجحان....متعلقہ ادارے خاموش

پاکستان میں شیشہ کیفوں کی تعدادمیں دن بدن ہوشربااضافہ ہورہاہے جس میں نوجوان لڑکے اورلڑکیاں دیدہ دلیری کے ساتھ شیشے کااستعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک میں شیشے کی روک تھام کے لیے عدالت کی جانب سے حکم دیا جاتا رہا ہے،لیکن تاحال ان احکامات پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے ”عوامی مقامات پر کھلے عام تمباکو نوشی اور جگہ جگہ شیشہ سینٹرز کھولنے“ کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت سے شیشہ نوشی میں استعمال ہونے والی غیر ملکی مصنوعات کی درآمدات کے حوالہ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ شیشہ نوشی کے خلاف ذرایع ابلاغ پر عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ حکومت ملک بھر میں عوامی مقامات پر تمباکو اور شیشہ نوشی کے خلاف مناسب اشتہار بازی کرے تاکہ نوجوان نسل کو اس کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ صوبہ خیبر پی کے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے شیشہ نوشی کے خلاف مجوزہ بل تیار کر لیا ہے، انہوں نے کہاکہ شیشہ میں شراب اور چرس کا استعمال کیا جا رہا ہے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے بتایا گیا کہ شیشہ نوشی پر پابندی کے حوالہ سے بل کابینہ نے منظور کرلیے ہیں، جو منظوری کے لیے اپنی اپنی اسمبلیوں میں پیش کیے جارہے ہیں۔ لاہور، اسلام آباد، کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں شام ہوتے ہی ہوٹلوں اور ریستوران میں نوجوانوں کا رش لگ جاتا ہے۔ ہفتہ اور اتوار کو اس رش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جو یہاں شیشہ نوشی کے لیے آتے ہیں۔ان شیشہ کیفوں کے خلاف جب بھی پولیس کارروائی کرتی ہے تو بااثر شخصیات کے کیفوں پر روٹین کا دورہ کر کے واپس آ جاتی ہے، لیکن نہ تو وہاں سے کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی مقدمہ درج کیا جاتا ہے، بلکہ کیفے کی انتظامیہ کو ہوشیار رہنے کا کہہ دیا جاتا ہے، جس پر شیشہ کیفوں کے مالکان وقتی طور پر کیفے کے عقب میں واقع کھلی جگہوں، خفیہ کمروں یا چھتوں پر شیشے کو منتقل کر دیتے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے دھندوں کا پولیس کی معاونت کے بغیر چلنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بعض شیشہ کیفے مالکان اس بات کی تصدیق بھی کرچکے ہیں کہ انہوں نے پولیس کے ساتھ ماہانہ رقم طے کی ہوتی ہے، جس کی ادائیگی کے بعد مالکان پولیس کی جانب سے بے خوف وخطر آزادی کے ساتھ کیفے چلاتے ہیں۔شیشہ کیفے کے مالکان میں بڑی بڑی فیشن ماڈلز، سنگرز، نامور بینڈز کے مالکان اور دیگر بااثر شخصیات شامل ہیں۔ شیشہ کیفوں کے علاوہ کچھ ہوٹل و ریسٹورنٹس نے بھی شیشہ لابی بنائی ہوئی ہے، جہاں چرس، افیون اور کوکین جیسے فلیورز کے ساتھ شیشہ میسر ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مہنگا نشہ کوکین ہے، جو دس ہزار کے قریب فی گرام ملتا ہے۔ پوش علاقوں کے تھانوں کے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ شیشہ کیفوں میں چرس، افیون اور کوکین کا استعمال روکنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے، کیونکہ ان کے مالکان اس قدر بااثر ہیں کہ اگر کارروائی کی جائے تو ان کے بڑے بڑے سفارشی سامنے آنے پر ہم حیران رہ جاتے ہیں اور ہماری جرا ¿ت نہیں ہوتی کہ ان سفارشیوں کے خلاف جا سکیں۔ اگر کوئی ہمت دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے معطل یا تبدیل ہو کر پولیس لائن میں وقت گزارنا پڑتا ہے۔ اسی لیے گزشتہ سال بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے چاروں صوبائی حکومتوں کو شیشہ کیفوں کے خلاف فوری کریک ڈاو ¿ن کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ متعدد شیشہ کیفوں میں منشیات بھی فروخت کی جارہی ہےں، لیکن انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ ماضی میں عدالت کے حکم کے بعد پولیس نے کئی شہروں میں کریک ڈاﺅن کر کے متعدد افراد کو حراست میں لیا تھا اور بعض شیشہ کیفے بند بھی کیے تھے، لیکن لے دے کر نہ صرف گرفتار کیے گئے افراد کو چھوڑ دیا گیا، بلکہ بند کیے گئے تمام شیشہ کیفے بھی دوبارہ کھول دیے گئے ہیں اور آج ملک کے مختلف شہروں میں جگہ جگہ شیشے کی کھلے عام فروخت ہو رہی ہے۔

شیشہ حقے کی ہی ایک قسم ہے، جس کا آغاز سترہویں صدی عیسویں میں مصر سے ہوا اور آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیل گیا، شیشہ میں خوشبودار تمباکو استعمال کیا جاتا ہے، جس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 54 لاکھ افراد تمباکو نوشی سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ روزانہ 272 اموات اور پانچ ہزار مریض تمباکو نوشی کی وجہ سے ہسپتال جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (W.H.O) کے مطابق پاکستان میں 20 سے 25 ملین افراد تمبا کونوشی کرتے ہیں ،جن میں 36 فیصد لڑکے اور 9 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 8ہزار افراد تمباکو نوشی کرنے کی وجہ سے بے شمار بیماریوں کا شکار ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں قانون کے مطابق 16 سال سے کم عمر نوجوان کو سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی عاید ہے۔ آج ہمارا ملک اس قانون کے اطلاق سے محروم نظر آتا ہے اور کم عمر لڑکے اور لڑکیاں تفریحی مقامات، کالجوں،جامعات اور سڑکوں پر کھلے عام اسموکنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل نے شیشے کو فیشن کے طور پر اپنالیا ہے،کیونکہ وہ اس کے نقصانات سے لاعلم ہیں،اسی لاشعوری ہی کی وجہ سے آج ہماری نئی نسل اپنی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ شیشہ نوشی سگریٹ نوشی سے کئی گنا زیادہ نقصان دہ ہے، ایک گھنٹہ سادہ شیشہ نوشی کرنا دو سوسگریٹ پینے کے برابر ہے اور اگر شیشے میں چرس و افیون وغیرہ ملائی جائے تو اس کا نقصان مزید بڑھ جاتا ہے۔ شیشہ نوشی سے سانس لینے میں تکلیف، پھیپھڑوں کا کینسر، دل کی بیماریاں، دمہ،خوراک کی نالی کا کینسر اور نمونیہ جیسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہےں۔ عالمی ادارہ برائے صحت کی رپورٹ کے مطابق شیشہ پھیپھڑوں کے کینسر، غذائی نالی اوسوفیگس کی خرابی، گیسٹرک اور پیشاب کی بیماریوں کا بھی باعث بنتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے شیشہ پرکشش اس لیے ہے کہ اس میں مختلف فلیورز ملائے جاتے ہیں جو روایتی سگریٹ پینے کے مقابلے میں زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں شیشے کی بدولت نیکوٹین، چارکول، ٹوکسن اور دیگر زہریلے اجزا انسانی جسم میں داخل ہوکر اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے جس کے نتیجے میں کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔پروفیسر جاوید احمد خان آغا خان یونیورسٹی میں شعبہ ادویات کے سربراہ اور پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف کاربن مونوآکسائیڈ ہی جسم میں آکسیجن کو جلا کراہم اعضا میں سما جاتی ہے جس سے دل کی بیماریاں، پھیپھڑوں کا سرطان اور مختلف سانس کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

قانون میں درج ہے کہ کسی بھی تعلیمی درسگاہ، اسکول، کالج، یونیورسٹی کے پانچ سو میٹر تک کوئی شیشہ کیفے نہیں کھل سکتا، لیکن سروے کے مطابق اس کے باوجود ساٹھ فیصد شیشہ کیفے تعلیمی اداروں کے قریب ہیں اور اس نشہ کا استعمال کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد نوجوان طلبہ و طالبات کی ہے، جو بڑے، مہنگے اور اچھے اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ شیشہ کے استعمال کرنے والوں کی اکثریت 15 سے18 سال تک کی عمر والے نوجوانوں کی ہے، جو فیشن کے طور پرشیشہ کیفے میں دیدہ دلیری سے جاتے ہیں۔ شیشہ کیفے مالکان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اسٹودنٹس آتے ہیں، وہ جس قسم کے فلیورز ملانے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، ہم اسے پورا کرتے ہیں۔ اس کے فلیورز میں شراب، چرس، گانجا ، گٹکا، مکس کیا جاتا ہے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ شیشہ دوسری نشہ آور اشیا کی طرف پہلا قدم ہے۔جو لوگ شیشہ پیتے ہیں ان میں تمباکو کی دوسری اقسام کے استعمال کی شرح بڑھ جاتی ہے اس لیے سنجیدگی سے اس مسئلہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگرہم نے اسے نہ روکا تو اس کے اثرات اگلے دس بیس سالوں میں سرطان ، سانس اور دل کی بیماریوں میں اضافے کی صورت میں نمایاں ہوں گے۔ پاکستان میں تمباکو کے استعمال کو برا تصور کیا جاتا ہے، لیکن شیشہ کی صورت میں تمباکو کو ملنے والی سماجی قبولیت ماہرین صحتِ و سماجیات سمیت ہر ذمہ دار فرد کے لیے پریشان کن ہے۔ مسلم اور مشرقی معاشروں میں خواتین کا سگریٹ پینا اچھا نہیں سمجھا جاتا، لیکن جب سے شیشہ آیا ہے خواتین میں بھی اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ایک سروے کے مطابق تین سال قبل ملک میں مردوں میں شیشہ نوشی کا تناسب 43 فیصد اور لڑکیو ں میں گیارہ فیصد تھا۔اگر اب یہ سروے کیا جائے تو یہ تناسب کہیں زیادہ ہوگا، جو انتہائی خطرناک بات ہے۔

سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ امتناع سگریٹ نوشی آرڈیننس 2002ءکے تحت شارع عام اور ہوٹل و کلبوں میں سگریٹ نوشی و شیشہ بار کھولنے کی سخت ممانعت ہے۔ فحاشی، عریانی اور بے راہ روی پھیلانے والے اور نوجوان نسل کے مستقبل کو تباہ کرنے والے شیشہ کیفوں کے خلاف سخت کریک ڈاون کیا جانا چاہیے۔ شیشہ کیفے اور شیشہ بار ایک طرف تو انسانی صحت کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں اور دوسری طرف بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ میں نوجوانوں کو مبتلا کر رہے ہیں۔ ایسے کیفوں سے نوجوانوں میں منشیات کا رجحان بڑھ رہا ہے اور وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو رہے ہیں۔ شیشہ کیفوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کر کے ایسے گھناو ¿نے کاروبار سے منسلک افراد کے خلاف مقدمات قائم کر کے شیشہ کیفوں کو فی الفوربند کیا جائے، جبکہ معاشرے میں شیشہ نوشی کی روک تھام کے لیے مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ شیشہ نوشی کے تلخ حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں اس لعنت سے متعلق سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ الیکٹرانک میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ اس سے لاحق نقصانات سے متعلق شعوری پروگرامز نشر کرائے۔ مناسب حکومتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں شیشہ نوشی کی وبا دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے انفرادی کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔ سگریٹ اور شیشہ پینے سے نہ صرف پینے والا شخص متاثر ہوتا ہے بلکہ دوسرے قریبی لوگ بھی شدید متاثر ہوتے ہیں، سگریٹ اور شیشے سے نکلنے والا دھواں ماحول کو آلودہ کر رہا ہے،جس سے تازہ ہوا میں دن بہ دن کمی واقع ہو رہی ہے۔حکومت بیرونی فضائی آلودگی پر تو کام کر رہی ہے، لیکن اندرونی فضائی آلودگی کس حد تک سنگین ہے اس کا اسے اندازہ نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے ریستورانوں میں تمباکو کے دھویں سے پیدا ہونے والی آلودگی کو ایک مشین کے ذریعے جانچا گیا۔ جن ہوٹلوں میں شیشہ پیا جا رہا تھا، وہاں آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت کی 2.5 کی حد سے کئی ہزار گنازیادہ تھی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.