ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

بقول شاعر۔
یہ کہہ کر میں فرشتوں سے جنت میں چلا جاؤں گا
کہ میں اپنی ماں کے قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا ہوں۔
دنیا آنکھ ہے تو ماں اس کی بینائی، دنیا پھول ہے تو ماں اس کی خوشبو، سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے نرم کیا جا سکتا ہے ۔زندگی میں ایک ایسا رشتہ جو بغیر کسی لالچ کے دکھ درد بانٹتا ہے اور پیار کرتا ہے تو وہ ہے ماں۔لفظ ماں کے ساتھ میرے لور ی کے الفاظ نہیں گونجتے ، کوئی لاڈ یا پیار کا لفظ بھی دور تک نظر نہیں آتا،بس دو آنکھیں ہیں جن میں کبھی پیا ر امڈتا ہے تو کبھی غصہ۔

ماں کی محبت اور اس کی اہمیت کے لیئے جب بھی قلم اُٹھایا تو مجھے لگا جیسے لفظ کم پڑ گئے ہوں میں لکھتے لکھتے صبح سے شام کر دوں تو بھی شاید ا س عظیم ہستی کا ایک پہلو بھی بیا ں نہ کر سکوں ، ماں کی بے پایاں محبت کوشاید لفظوں میں نہ ڈھال سکوں اور نہ ہی کوئی ایسا پیمانہ بنا ہے جس سے جنت کی اس ملکہ کے پیا ر کو ناپا جا سکے ۔خدمت اور خلوص کی اس عظیم ہستی کو سمجھنا بھی جوے شیر لانے کے برابر ہے ، خود بھوکی رہ کر اولاد کے پیٹ کو بھرنے والی کی عظمت کو سلام، لفظ ماں جیسے زبا ن پر آتا ہے گویا بے جان جسم میں جان آجاتی ہے خوشی کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ جاتی ہے اس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی رب ذولجلال نے دنیا میں پیدا ہی نہیں کی ۔دھوپ ہو چھاؤں ، آندھی ہو طوفان اس کی محبت اور پیار میں کمی نہیں آتی ۔ وہ کڑی دھوپ میں ایک سائباں کے طرح اسکی تپش سے بچا لیتی ہے اور اس کی گرم گود سردی کی سرد ہواؤں سے بچا لیتی ہے ۔خود کانٹوں پر چلتی ہے اور اولاد کو پھولوں کی سیج مہیا کرتی ہے ۔دنیا جہان کے غموں کو اپنے آنچل میں سمیٹ لیتی ہے مگر لبوں پر مسکراہٹ سجائے زندگی کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے -

8مئی کو پوری دنیا میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا تا ہے جس کا مقصد ماں کی اہمیت کو اجا گر کرنا اور ماں کی خدمت کو سراہنا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکم دیا ہے:﴿اور اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آیا کروـ﴾ ماں نو ماہ تک بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور اﷲ اس کی حفاظت فرماتے ہیں، ماں گرمی سردی میں اولاد کا خیال رکھتی ہے ایک اور جگہ پر اﷲ جلہ شانہ نے والدین کے لیٗے خصوصی دعا مانگنے کا حکم دیا۔ :﴿ـرب ارحمھماکما ربیانی صغیراـ﴾: جس کا ترجمہ ہے اے میرے رب میرے والدین پر رحم فرما جیسے انہوں نے مجھ پر بچپن میں کیا۔یعنی مجھے چلنا نہیں اتا تھا ، اپنا نام تک معلوم نہیں تھا ،تب میرے ماں نے مجھ پر رحم کیا اور مجھے چلنا سیکھایا ۔

ماں کی قدروقیمت کی اہمیت کے لیئے ہمارے آقا کریم ﷺ فرماتے ہیں ۔ محمد ﷺ اگر فرض نماز پڑھ رہے ہوں اور مجھے میرے ماں بلائے تو قسم ہے رب زوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جاں ہے میں نماز چھوڑ کر پہلے ماں کی بات سنوں گا۔ خدا نے اس کی عظمت کو بلند کرنے کے لیئے جنت کو اس کے قدموں میں رکھ دیا اب جس کا جی چاہے اس کی خدمت کر کے اس کی عزت کر کے جنت حاصل کرلے ۔﴿ الجنت تحت الاقدام المھات﴾ جنت ماں کے قدموں میں ہے اﷲ تعالیٰ جلہ شانہ نے بھی ماں کی اہمت کو اپنے اس انداز میں بیاں فرمایا۔ اور اﷲ 70 ماؤں سے بھی زیادہ انسان سے محبت کرتا ہے ۔ایک مرتبہ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے دریافت کیا میرے ماں با پ میں سے مجھ پر زیادہ کس کا حق ہے جس پر آپ ﷺ نے والدہ کے بارے 3 مرتبہ کہا پھر چوتھی بار والد کے حق کی بات کی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اﷲ جلہ شانہ سے ہم کلام ہونے جا رہے تھے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ آواز آئی ـ:اے موسیٰـ: سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے ۔وہ ماں ہی ہے جو نہ کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی خدمت کا صلہ نہیں مانگتی ہے بلکہ کوہلوکے بیل کی طرح کام کرکے بھی اس کے چہرے پر پریشانی یا تھکن نمودار نہیں ہوتی بلکہ اولاد کی خوشی کی خاطر اس کے چہرے پر رونق اور مسکرا ہٹ رہتی ہے بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبت ان پر نچھاور کرتی رہتی ہے ۔دنیا کا ہر رشتہ کسی نہ کسی غرض سے منسلک ہوتا ہے مگر دنیا میں ماں ایک ایسا عظیم رشتہ ہے جو بے غرض اور بے لوث ہوتا ہے آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جایں ماں کی دعایں سائے کی طرح پیچھا کرتی رہتی ہے ، ماں اپنی اولاد کے خاطر تقدیر سے لڑ جاتی ہے ماں اولاد کی پر یشانی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اور اس کی دعاؤں سے بڑی سے بڑی مصیبت ٹل جاتی ہے۔

اکثر لوگ کہتے ہیں ایسے دن منانا مسلمانوں کا کام نہیں یہ غیر مسلم لوگ مناتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو ماں بچپن میں بچوں کو پالتی پوستی ہے انکی ضرورتوں خیال رکھتی ہے جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو اولڈ ہاؤس کیوں بھیج دیے جاتے ہیں اولڈ ہاؤس بھی تو غیرمسلموں کے طریقوں میں سے ایک ہے ۔ کتنی مائیں ہیں جو اپنی اولاد کی شکل دیکھنے کو سالہاسال سے ترس رہی ہیں

کیا اسی دن کے لیئے اس بوڑھی ماں نے دعائیں مانگی تھیں اور جنم دیا تھا۔ ماں کی بد دعا سے بچنا چاہیے اس کی بد دعا عرش کو ہلا دیتی ہے وہ لوگ سچ میں بڑے بد نصیب ہوتے ہیں جو اس عظیم ہستی کی نافرمانی کرتے ہیں وہ نہ صرف اس دنیا میں ذلت کی زندگی گذارتے ہیں بلکہ اپنی آخرت کو بھی بربا د کرلیتے ہیں۔ماں کی نافرمانی کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ماں وہ ہستی ہے جس نے اپنے بچوں کو اپنا خوں پلا کر ان کو پالا پوسا خو د گرمی سردی ، بھوک پیا س ، دکھ برداشت کیے اپنی خواہشوں کو قرباں کیا۔ کیا ایسی ہستی دنیا میں اور کوئی ہے؟ اس کی محبت کا بدل کوئی ہے؟وہ محبت کا ایک سمندر ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔جس گھر میں ماں نہیں وہ گھر قبرستاں کی مثل ہے۔
بقول شاعر جن کے سر سے ماں کا سایہ چھن جاتا ہے
مائے نی میں کنوں آکھاں۔درد وچھوڑے دا حال نی
دھواں دُھکھے میرے مرشد والا۔جاں پھُلاں تاں لال نی
جنگل بیلے پھراں ڈھوڈھیندی۔ اجے نہ پائیولال نی
دکھاں دی روٹی سُولاں دا سالن۔آہیں دا بالن نال نی
M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 49114 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More