اب ملک میرا امن کا گہوارہ بنے گا

اس امت محمدیہ پر اﷲ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے اس طور پر کہ امت محمدیﷺ کو ایک ایسے جامع کتاب سے نوازا ہے کہ اس میں انسانی ضروریات کے علاوہ ایک اسلامی مملکت کے چلانے کے اصول کے ساتھ ساتھ امن وآشتی کے پیامبر بننے کا درس بھی اِسی ہی کتاب سے ملتا ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ اﷲ تعالیٰ کی اس عظیم احسان کے بعد بھی امت محمدیﷺ نے اس احسان کی فراموشی کی۔

الغرض:آج کل مملکت خداداد میں ہر آئے دن نئے نئے واقعات رونما ہوتے ہیں،ایسے واقعات کی وجہ سے ہر جگہ پر آدمی امن سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے کہ اگر بازار چلا گیاتووہاں پر بھی انسان پھونک پھونک کر قدم رکھے گا کہ خدانخواستہ یہی پر اپنی زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں کیونکہ ہر جگہ پر بم بلاسٹ نے انسانوں کوخوف و دھشت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

مملکت خداداد پاکستان تو ایک اسلامی ایجنڈے کے تحت بنا تھا اور اس ایجنڈے میں چنداور امور کے علاوہ ایک امر یہ بھی تھا کہ یہاں پر اسلامی قانون نافذ کیا جائے گا،کیونکہ پاکستان کو بنایا ہی کلمۂ توحید کے بنا پر تھا،ہر جگہ پر یہ نعرے بلند کئے جاتے ہیں کہ’’ پاکستان کا مطلب کیا؟لاالٰہ الااﷲ‘‘مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مملکت خداداد پاکستان بننے کے بعد اسی نعرہ کو فقط نعرہ ہی رکھا گیا،اس کے تحت تو قانون نافذی کی گئی مگر الاماشاء اﷲ یعنی بہت کم۔

آیئے آپ کو قرآنی تعلیمات اور سنت نبویﷺ کے طور طریقوں کے تحت ایک مملکت کو امن وآشتی کا پیامبر بنانے کے صرف دو ہی طریقوں سے روشناس کرتا چلوں۔

ان طریقوں اور اصولوں میں سے یہ پہلا طریقہ اور اصل مملکت خداداد کے پورے عوام اور خواص سب کے لیے ہے وہ یہ کہ ہمیں اپنے گھروں،اہل وعیال اور بال بچوں میں قرآن خوانی کو عام کر کے ان کی نگرانی بھی کرنی چاہئے،کیونکہ آقائے نامدار ﷺ کا فرمان ہے کہ الاکلکم راعٍ وکلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘اگر اس حدیث شریف کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس صورت میں ہر آدمی مسؤل ہوگا اور اس سے اپنے رعایہ و ماتحتوں کے بارے میں پوچھاجائے گا۔جب یہی حالِ پرسان ہوگا تو ساری دنیا امن وآشتی،محبت وبھائی چارے سے سرشار ہو جائے گی،کیونکہ ہر آدمی کا یہ سوچ ہوگا کہ کل باری تعالیٰ کے دربار میں اس کے بارے پوچھ گچھ ہوگی تو ہرایک پھونک پھونک کر اس دارِفانی میں وقت گزارے گا۔یہ پہلا طریقہ اور اصل عام تھا،اس میں اہل ایوان اور صاحب اقتدار لوگوں کے علاوہ عام مسلمان بھی شامل ہیں۔

مگر اس کے علاوہ ایک خاص طریقہ بھی ہے کہ اس کے مخاطب صرف اور صرف ایوانِ اقتدار اور صاحب عظمت ومرتبہ لوگ ہیں،اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک نفس کے مارے جانے کو پوری انسانیت کے مارے جانے کے ساتھ تشبیہ دی ہے،جب ایک بے جانفس کو مارنا اتنی عظیم گناہ ہے تو اس کی روک تھام کیسے ہوگی؟اسی کے لیے بھی ایک قانون ’’قانونِ قصاص ‘‘ کو ذکر کر کے فرمایا کہ اے عقل والوں تمہارے لیے قصاص ہی میں زندگی ہے(مفہوم)اب قصاص میں کیسے زندگی ہے؟تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی ویسے بے جا قتل وقتال میں پڑ گیا اور وہ اس سے باز نہیں آرہا،تو اس سے اس مملکت خداداد کی سرزمین کو صاف کرکے اس کو بھی قصاصاً قتل کردیا جائے ،لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ قصاص لینا عام لوگوں کا کام نہیں بلکہ یہ تو ریاست ،حکومت اور اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ حکومت کسی کو قصاصاًقتل کر دے،یہ قصاص والا معاملہ سرعام کیا جائے تاکہ اور لوگ بھی اس سے سبق حاصل کر لیں کہ فلاں آدمی کوحکومت وریاست نے قصاصاً قتل کردیا۔

مگر یہ بھی ملحوظ نظر ہو کہ قرآنی تعلیمات واحکامات جتنے بھی ہیں وہ پورے کے پورے اہل زمین کے لئے ہیں،اس سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا جائے گا،کہ اگر کسی غریب آدمی کو تو قصاصاً قتل کردیا جائے اور امیرکو چھوڑا جائے،یاکسی غریب آدمی کے ہاتھ کو تو دس درہم کے چوری کے عوض کاٹا جائے اور امیر کوا اور بھی دلاسا دیا جائے ۔نہیں نہیں ہر گز ایسا نہیں ہوگا،اس میں سب لوگ برابر کے شریک ہونگے۔

جب قرآنی احکامات اور آقائے نامدار ﷺ کی تعلیمات پر ہم عمل پیرا ہونگے تو مملکت خداداد تو کیا پوری دنیا میں حضرت عمر ؓ کے زمانے جیسا دور ایمانی اجائے گا کہ یمن سے چل کر ایک عورت مکہ تک آتی ہے تو کسی کو مجال نہیں کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔قرآن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا جامع ومانع کتاب ہے کہ اس میں زندگی کی ہر شعبے کی حل موجود ہے ،جب قرآنی تعلیمات عام ہو جائیں گے تو پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی،راحت آلہ آبادی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
جوآلہ تخریب ہے ناکارہ رہے گا
اب ملک میرا امن کا گہوارہ بنے گا
جو جنگ کی سوچ کو ڈبوئے گا بہر طور
پبلک کی وہی آنکھ کا اب تارہ بنے گا
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 212027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.