سڑک کے کنارے ڈھابے پر بیٹھے یہ اسکی تیسری
چائے تھی۔ اب رش کم ھو چکا تھا۔ گاڑیاں کم ہوتی جا رہی تھیں اور ھوا ہلکی
ہلکی سرد سسکیاں لینے لگی تھی۔ ٹیبل پر رکھی ڈبی میں اب چار سگرٹ باقی تھے۔
ایک سگرٹ سلگایا اور سڑک کے پار چار منزلہ ہاسٹل کو اوپر سے نیچے گھورنے
لگا۔ وہ ھاسٹل جس کی دیواروں نے ناجانے کتنی صدیوں سے عارف کے مستقبل کو
قید کر رکھا تھا۔ وہ ھاسٹل جس کی سفید دیواروں کے ساتھ اسکا خون بھی بے رنگ
ھو گیا تھا۔ خالی سڑک پر چند تیز رفتار گاڑیاں ایک جمپ پر دو پل دھیر ے
ہوتیں اور پھر اسی رفتار سے زندگی کی طرح بے نیاز ھوئی دور نکل جاتیں۔ ٓسگرٹ
بجھا کر وہ کھڑا ھوا اور چائے کے ساٹھ روپے اور چالیس روپے کی ٹپ دے کر سڑک
پار کرنے لگا۔شام گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ھاسٹل کی بے رنگ دیواریں اسکی
انکھوں کی طرح سیاہ ہونے لگی تھیں۔
وہ سریاں چڑھ کر چھت پر پھنچا تو اب سرد بے جان ھوائیں اسکے جسم سے لپٹ رہی
تھیں۔آہستہ آہستہ ان کے بین کی ٓاوازیں اسکو سنائی دینے لگیں۔ ایک سگرٹ
نکالا اور کش لگاتے لگاتے ریلنگ کی طرف بڑھنے لگا۔ عارف نے نظر بھر کر نیچے
کی طرف دیکھا اور پھر چھت کے دوسرے کونے کی طرف جانے لگا۔اسکا قید خانہ کس
قدر اونچا تھا۔۔ جیسے ٓاسماں سے چند قدم ہی دور ہو۔ وہ اوپر دیکھنے لگا۔
ایک ٓاوارہ بادل، اسکی طرح جیسے بے مقصد سفر کاٹ رھا تھا۔تیسرے سگرٹ کی کش
لگانے لگا۔دھویں کے ساتھ جیسے اسکا وجود ریزہ ریزہ ھوتا ھوا میں تحلیل ہوا
جا رھا تھا۔ وہ ایک بار پھر چھت کی ریلنگ کے پاس پھنچ چکا تھا۔
سگریٹ زمین پر پڑا بجھ چکا تھا۔ نیچے سڑک ویران ہوچکی تھی، اسکی قید کے
باہر سڑک کے دونوں خالی راستے جیسے کسی منزل کو نھیں جاتے تھے۔ ٓاس نے نظر
اٹھا کر ٓاسمان کی طرف دیکھا، اور ایک گہری سانس لی۔ اس کے چہرے پر اب
اطمینان کا ایک سایہ دیکھائی دیتا تھا، شاید اسے راستہ مل ہی گیا تھا، اس
نے ڈبی نکالی۔ ٓاخری سگرٹ لگایا۔ ایک کش لی اور اسکو چھت پر جلتا چھوڑ
دیا۔۔ھوا نے ابھی سگرٹ کی ٓاگ کو بجھایا نہ تھا، پر عارف کا دیا بجھ چکا
تھا، اسکا جسم چار منزل نیچے فٹ پاتھ پر ملا تھا۔۔
عارف کی اگلی منزل خدا جانے جنت تھی یا جھنم، یا کوئی تھی بھی کہ نہیں، یہ
وہ کردار جانے یا خدا جانے۔۔ پر اگر کسی مولانا سے رائے لی جائے تو یقینا
اسلام میں ایسی خود ازیتی کی ممانعت کی بنیاد پر عارف سزا کا مستحق ہوگا،
پادریوں کی بھی ایسی ھی راے ہے، ھندو ں کے مطابق خودکشی کرنے والے کی روح
یا ٓاتمہ بھٹکتی رہیگی،گو ان مذایب میں بھی اس عمل کو منع کیا گیا ہے،
جاپان میں خودکشی کو ایک مختلف زاویہ سے دیکھا جاتا رھا ہے، سامورای کی
کھانیوں سے اس میں ایک ایسا رنگ بھر دیا گیا تھا کے لوگوں میں اس عمل کے
لیے ایک قبولیت کا رویہ اور جزبہ دیکھنے کو ملتاتھا، ایسے فلسفے بھی موجود
ھیں جو خودکشی کو ایک مجرمانہ عمل نھیں سمجھاتے، مگر انسان چاہے جن وجوہات
سے ازیت جان سے فراغت حاصل کرنے کی کوشش کرے، وہ وجہ ایک انسانی جان سے
قیمتی نہیں ہو سکتی۔
ہمار ے ایک استاد کے بقول، جب کوٰئی شخص روٹی چوری کرتے پکڑا جاے تو اسکے
ہاتھ نہیں کاٹے جانے چاہیے بلکے خلیفہ وقت سے الٹا پوچھ ہوگی، پر افسوس کے
جس ملک کے لیے دعواہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر بنا ہے وہاں
ساٹھ فیصد تک عوام غربت کی لکیر سے نیچے رھتی ہے، کوی گردے بیچنے پر مجبور،
تو کبھی بچے بیچنے کی خبر ٓاجاتی ھے، پر اب تو بھوک سے بلکتے بچوں کا قتل
کرکہ ماں کی خودکشی کی خبر یں بھی پرانی ہوی جا رہی ہیں۔ نہ صرف غربت بلکہ
سماجی رویوں اور حادثوں کے نتیجے میں پیدا ھونے والی زھنی بیماریوں کی وجہ
سے بھی لوگ اس راہ پر چل پرتے ہیں۔ سال ۲۰۰۲ میں پاکستان میں ورلڈ ھیلتھ
ارگنایزیشن کی ایک ریپورٹ کے مطابق پاکستان میں ۱۵۰۰۰ سے زاہد خودکشیوں کے
واقعات پیش ٓاے۔ سال ٢٠١٢ میں ورلڈ ھیلتھ ٓاتگنایزیشن کی ایک رپورٹ میں
سالانہ دسلاکھ خوکشیاں بتایئ گیئیں، جن میں قریبأ ساتھ ھزار پاکستانی شامل
ہیں۔ ایک قدرے پرانی رپورٹ کے مطابق ١٩٩٥ سے ١٩٩٩ تک صرف سندھ میں ٢٥٦٨
خودکشیاں رپور ٹ کی گیئ۔
٢٠١٥ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال کے پہلے چھ مہینوں میں ١٠٦١ لوگوں نے
جان سے فراغت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پاک سرزمین میں ہونے والی ان خودکشیوں
کا اندازہ بینالقوامی اداروں اور این جی اوز کی رپورٹس اور ٓاخباروں کی
سرخیوں سے ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ ٓاج تک اس کی روک تھام اور اس پر نظر
رکھنے کے لیے کوی ملکی ادارہ بنایا نھیں جا سکا۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ہم کبوتر کی طرح بلی کے سامنے ٓانکھیں بند کر
دینے کی عادت پال چکے ہیں، شاید خودکشی جیسے پیچیدہ معاملے سے نپتنے کے
بجاے اسے ایک طرف جھاڑ دینا، یا انکھ پھیر دینا زیادہ ٓاسان معلوم ھوتا ہو۔
مگر حقیقت چونکہ ٓاپکی اور میری نگاہ کی محتاج نہیں، ہم ا ٓنکھیں بند کردیں
یا دماغ،وہ رہے گی جب تک اس میں تبدیلی نا لای جاے یا کو ی حل نہ تلاشا
جاے۔ سو وقت کی ضرورت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسکولوں میں سایکلاجکل
کاونسلنگ کا سسٹم بنایا جاے، جس کہ ساتھ ساتھ امریکہ کہ طرز پر ایک سویسایڈ
واچ سیل بنایا جاے، جسکی فو ن لا ین مدد کہ لیے۲۴ گھنٹے کھلی ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی قانونسازی سے بھی سیکھا جا سکتا ہے اور
خودکشیوں کی مقدار میں کمی لانے کے لیے زہنی امراض کے علاج کے لیے ایک جامع
سسٹم تشکیل کرنا پریگا۔
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں خودکشی کرنے والے کی سزا پینل کوڈ
کے سیکشن ۳۲۵ کے تحت ایک سال قید اور جرمانہ ہے، ایسے قانون الٹاخودکشی
کرنے والے کہ عظم کو مزید تقیوت بخشنے کا کام بھی کر سکتاے ہیں۔ تعلیمی
اداروں میں سایکلاجکل کاونسلنگ کی راہ میں ہمارے بہت سارے عوامی مفروضے بھی
ہونگے، چونکہ ہمارے ہاں کسی قسم کہ بھی زہنی علاج کرانے والے کو پاگل کھا
جاتا ہے اور عمومآ اس شخص سے سماجی رابطے توڑ کر مزید پاگل بنانے کی کوشش
کی جاتی ہے، اسلیے یہاں یہ متعارف کرانا کچھ ٓاسان نہ ہوگا مگر ٓاخری فیصلہ
ھمیں خود کرنا ہے کہ ٓایا ھمیں اپنی غلط فہمیوں اور مفروضوں کی دنیا چاہیے
یا ہمیں اپنے بچوں کی زہنی اور جسمانی صحت چاہیے۔ ا س کام کے لیے بنیادی
ضرورت تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافے کی بھی ہے، جو کہ کوی نیا مطالبہ بھی
نھیں۔
افسوس کہ ھم لوگ، ترقی یافتہ ممالک سے پاناما اور سویٹزرلینڈ میں پیسے
چھپانا تو سیکھ سکتے ہیں مگر انسے عوامی فایئدے کا کویئ سبق ہم پر حرام ہے۔
شرم کا یہ مقام ھے کہ ۰۵فصد خودکشیاں جھاں غربت اور افلاس کی وجہ سے ہوتی
ہیں وہاں میٹرو بس پر ۵۰ بلین اور پورے کہ پورے ھیلتھ بجٹ صرف ۲۰ بلیں
روبپے لگتے ہیں۔ تو اس ملک میں حقیقت میں عارف ھی کیوں نہ پیدا ہوں؟
شاید جون الیا نے اسی بستی کہ لیے کہا تھا۔۔
پڑی ر ہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکہ کیوں کریں ہم۔۔
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم۔۔ |