امیدوں کے چمن

دینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ ،نت نئی سازشیں ،مدارس کی مشکیں کسنے کے منصوبے ،دینی مدارس سے عوام الناس کو بدظن کرنے کے جتن ،دہشت گردی کے واقعات کے ڈانڈے مدارس سے جوڑنے کی کوشش اور مدارس پر اندھا دھندچھاپے مارنے کا مقصد یہ ہوتا ہے لوگوں کا مدارس سے تعلق توڑ دیا جائے ،لو گ مدارس کے ساتھ مالی تعاون کرنا بند کردیں ،لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجنے سے گریزاں ہو جائیں،کبھی کبھی اس حوالے سے فکرمندی بڑھ جاتی ہے لیکن حالیہ ایک ماہ کے دوران ختم بخاری شریف کی مختلف تقریبات میں حاضری دے کر جو اطمینان کی کیفیت نصیب ہوئی وہ ناقابل بیان ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام اور حفاظ قرآن کی دستار بندی کے ایمان افروز مناظر ،اپنے سینوں میں قرآن کریم کو محفوظ کرنے والے خوش نصیب بچوں کے نورانی چہرے اور دورہ حدیث سے سند فراغت پانے والے نوجوانوں کی ولولہ انگیز کیفیات کو دیکھ دیکھ کر ایمان ہی نہیں مورال بھی بہت بلند ہوا ۔گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اس پہلو پر خصوصی محنت کی گئی کہ مدارس کے ساتھ تعاون کا سلسلہ بند کر دیا جائے ،لوگوں کے دل ودماغ میں شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں ،کبھی قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی اور کبھی دیگر ہتھکنڈے مگر اﷲ رب العزت کی رحمت سے مدارس چل رہے ہیں ،تعاون کے سلسلے جاری ہیں۔عوامی تعلق اور اعتماد کی صرف ایک مثال سامنے رکھیے مولانا قاضی عبدالرشید ڈپٹی سیکرٹری جنرل وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ادارے دارالعلوم فاروقیہ راولپنڈی میں ان کے ایک مخلص رفیق چودھری ناصر بانی چیئرمین عام آدمی پارٹی نے ادارے کی خدمات اور طلبہ وطالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر تیز ی سے ترقی کرتے ہوئے راولپنڈی کے ایک علاقے میں اڑھائی سو کنال جگہ مدرسہ کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا ۔صرف یہی نہیں بلکہ دارالعلوم سے ملحقہ پلاٹ پر تین منزلہ بلڈنگ اپنے ذاتی خرچ پر تعمیر کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ۔اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں اور ہماری دانست میں پروپیگنڈے اور سازشوں کے اس دور میں چودھری ناصر جیسے لوگوں کا عزم اور حوصلہ مدارس دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے ۔اﷲ رب العزت ایسے لوگوں کو مزید ہمت اور اپنی شان کے مطابق اجر عطا فرمائیں ۔

پاکستان بھر میں پھیلے ہر ادارے کی داستان ایمان افروز اور حیران کن ہے جسے سن کر اور پڑھ کر ایمان والوں کا ایمان تازہ ہوتا ہے جبکہ منافقین اور دین دشمنوں کو اذیت ہوتی ہے ہم یہاں صرف دارالعلوم فاروقیہ کی کہانی پیش کرتے ہیں ۔مولانا قاضی عبدالرشید جامعہ فریدیہ کے ناظم اور مدرس تھے انہیں اقصی المدینہ کی گلزار مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں ۔قاضی صاحب طویل سفر طے کر کے جامعہ فریدیہ تشریف لاتے شام کو واپس مسجد تشریف لے جاتے ۔کچھ عرصے بعد اہل علاقہ نے درخواست کی کہ اس مسجد سے ملحقہ ایک مدرسہ قائم کیا جائے مولانا قاضی عبدالرشید نے ایک مکتب سے آغاز کیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک دارالعلوم بن گیا ایسا دارالعلوم جس سے کسب ِ فیض کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ایسا دارالعلوم جو پورے علاقے پر ابر رحمت بن کر برسا ،چونترہ کا علاقہ اور چکر ی کا نام ہی جرائم کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے ۔لوٹ مار ،قتل وغارتگری اور چوری چکار ی اس علاقے کی پہچان ہوا کرتی تھی لیکن صرف چند برسوں کے دوران اس علاقے میں مولاناقاضی عبدالرشید کے دارالعلوم کی برکت سے قاضی صاحب کی نگرانی میں پینتیس مساجد خدمات سرانجام دے رہی ہیں جن میں سے تئیس مساجد میں مدارس بھی قائم ہیں ۔اس ادارے سے فیض پا کر اندرون وبیرون ملک خدمات سرانجام دینے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔دارالعلوم فاروقیہ کی تکمیل ختم بخاری کی تقریب میں مسلسل سوچتا رہا کہ مولوی کسی قدر تاقابل تسخیر اور ناقابل شکست مخلوق ہے کہ ساری دنیا مل کر اس کے کام کو روکنے اور اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے جتن کر رہی ہے اور اﷲ کی رحمت سے مولوی اپنی ٹوٹی پھوٹی محنت کی برکت سے پھلتا اور پھولتا چلا جا رہا ہے صرف دارالعلوم فاروقیہ نہیں ملک کی ہر مسجد اور ہر مدرسہ کی اسی سے ملتی جلتی کہانی ہے۔ہم انہی سطور میں مولانا محمد عبداﷲ شہید کے جامعہ فریدیہ ،مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی کے دارالعلوم زکریا ،مولانا ظہور احمد علوی کے جامعہ محمدیہ اور مولانا عبدالکریم کے جامعہ قاسمیہ میں منعقدہ ختم بخاری کی تقاریب کا تذکرہ بھی کریں گے کہ ان جیسے روحانی مناظر کبھی کبھار ہی اہل ایمان کو دیکھنے کو ملتے ہیں ،یہ صرف جڑواں شہروں کی بات ہے ورنہ ہر شہر اور ہر قصبے کے مدارس اور مولوی کی محنت پانی کی طرح اپنا راستہ خود بناتی چلی جاتی ہے اورسچی بات یہ ہے کہ مسئلہ مولوی کا نہیں مولوی بھی انسان ہے اور انسان بھی ایسا کہ جس کا عہد اس کے نبی کے عہد سے چودہ سو سال دور ہے اس میں عام معاشرے کی طرح ڈھیر ساری کوتاہیاں ہوں گی مگر جس دین کی محنت اور جس قرآن کی خدمت کا بیڑہ اس مولوی نے اٹھایا وہ دین سدابہار ہے اور اس قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری رب ذوالجلال نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔

دارالعلوم فاروقیہ کی ختم بخاری کی تقریب میں استاذ محترم مولانا قاضی شبیر عثمانی کی ولولہ انگیز نقابت نے سماں باندھ رکھا تھا ،بلبل کشمیر مولانا سعید یوسفت تشریف لائے اور اپنی آواز کا جادو جگایا ،ایسی خوش الحانی کہ سبحان اﷲ ،وجاہت اور خطابت کا حسیں امتزاج ایک سماں باندھ دیا مولاناسعید یوسف کی خطابت نے ،خود مولانا قاضی عبدالرشید ایسا قادرالکلام خطیب کہ استحکام مدارس اور استحکام پاکستان کانفرنس کا کنونیئر منتخب ہونے سے لے کر ختم بخاری شریف کے اجتماعات تک کون سے شہر اور کون سے قصبہ ہے جو قاضی صاحب کی خطابت سے نہ گونجا ہو ،وفاق المدارس کی کانفرنس کا اعلان ہوا تو قاضی صاحب نے علالت کے باوجود طوفانی دورے ،سینکڑوں اجلاس اور پروگرام کر کے ایک ہلچل مچا کر رکھ دی اور اب بھی دن رات پروگراموں کی بھرمارکے باوجود آواز اور لب ولہجے کا وہی بانکپن ،شاید اپنے گلشن کی ہریالی دیکھ کر قاضی صاحب کی خطابت جوبن پر آگئی تھی یا ان کی خطابت ایک معمول کا معاملہ تھا بہر حال جو کہا کمال کہا ……سینٹ میں قائد ایوان مولانا عبدالغفور حیدری نے بہت جامع خطاب فرمایا،پیر طریقت مولانا محمود الحسن مسعودی صاحب نے بہت مختصر مگر پراثر اندازسے سامعین کو مواعظ حسنہ سے نوازا ،مولانا مفتی محمودؒ کے داماد اور مولانا فضل الرحمن کے بہنوئی مولاناقاری یوسف صاحب پشاور سے تشریف لائے تھے سفید ریش ،بڑھاپے میں ایسی آواز اور ایسی تلاوت کہ حیرت ہوئی اور برادرم سعید اعوان صاحب نے کان میں سرگوشی کی کہ ان کی جوانی کی تلاوت اور حسن صوت کا کیا عالم ہوگا؟

اور مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی کا علمی ،عوامی اور عام فہم سے درس بخاری اس تقریب میں ختامہ مسک کا درجہ رکھتا ہے ،مولانا زاہد الراشدی نے بخاری شریف کی جامعیت کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ امام بخاری نے اس کتاب میں جس جامعیت اور حسن ترتیب کا اہتما م کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دین اسلام اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملے کے بارے میں رہنمائی موجود ہے ۔فرد کی سطح ہو ،فیملی کا معاملہ ہو ،ریاست کی ذمہ داری ہو ،سوسائٹی کا قضیہ ہو یا عالمی اور بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ ہوہر حوالے سے دین اسلام مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔مولانا زاہد الراشدی کے درس بخاری کی سب سے انفرادی خصوصیت یہ تھی کہ استاذگرامی مولانا مفتی محمد فاروق جیسا علم کا بحر بے کنار بھی ان کی علمی موشگافیوں پر بے ساختہ داد دے رہا تھااور مغرب کے بعد سے مجمع میں بیٹھا چاچا گل خان بھی مولانا راشدی کی سادہ سی تقریر پر سر دھن رہا تھا …… سبحا ن اﷲ ……اﷲ نے کس فیاضی سے اس درویش منش شخص کو حسن کلام کا ملکہ عطا فرمایا ہے ۔جس مجلس اور جس موقع پر کوئی بات کی کمال کیا ……رات بہت بیت چکی تھی مگر مجمع ہمہ تن گوش تھا مولاناراشدی نے ہی آخر میں دعا سے اس محفل کا اختتام کیا ۔

دارلعلوم فاروقیہ کی انتہائی منظم اور خوبصورت تقریب کے انعقاد کا سہرا یقینا مولانا قاضی عبدالرشید صاحب اور انکی فعال ٹیم صاحبزادہ قاضی محمد جنید،مولانا محمد قاسم ،مولانا شفیق الرحمن ،مولانا ہارون الرشید ،مولانا حبیب الرحمن،مولانا تنویر اور دیگر حضرات کے سر ہے ،ان کی شبانہ روز محنتوں اور کاوشوں کی جھلک تقریب میں نمایاں نظر آ رہی تھی ،عزیزم اشفاق گل کی محبت اور خلوص کا تذکرہ نہ کرنا یقینا زیادتی ہو گی ،جنہوں نے اسی سال دارلعلوم فاروقیہ سے سند فراغت حاصل کی اور ختم بخاری کی تقریب میں شرکت کے لئے بار ہا مجھ سے اور برادرم مولانا عبدالرؤف محمدی سے رابطہ کیا اور تقریب میں شرکت پر اصرار کیا
آخر میں بس یہی دعا ہے کہ
پھلا پھولا رہے یا ربـ!چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 129551 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.