اسلامی جمہوریہ پاکستان جب معرض وجود میں آ
گیا تواگرچے اس وقت ہمارے پاس اسلامی قانون کا کوئی زائچہ موجود نہ تھا
لیکن قرآن اور احادیث کی صورت میں زاویہ تو موجود تھا کہ ان کی رو شنی میں
اسلامی قوانین کو سمجھ کر ایک بہترین اسلامی ریاست کے قوانین و آئین کا
نفاذ عمل میں لایا جاتا ! جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آزاد کروانے کا
مقصد بھی پورا ہو جاتا!مگر افسوس اس بات کا ہے کہ برطانیہ اور انگلینڈ کے
آئین کو جوڑ کر تھوڑی بہت ترمیم کر کے اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین
بنا دیا گیا جس میں بھی ایک بات انتہائی اسلامی اور قابل تعریف ہے کہ تمام
تر بنیادی سہولیات عوام تک پہنچانی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ پاکستان میں اس
وقت اعلیٰ تعلیم میں میرٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور واقعی یہ حکومت کا ایک
انتہائی قابل ستائش عمل ہے کہ لوگوں کو قابلیت کے اعتبار سے اہمیت دی جائے
۔ملک بھر میں اس وقت شرح خواندگی 58فیصد کے قریب ہے جو کہ کسی بھی ملک کی
ترقی ،استحکام اور سالمیت کیلئے انتہائی کم ہے کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسا
ہنر اور ہتھیار ہے جس سے ،غربت افلاس،فسادات،بد امنی جیسی صورتحال با آسانی
ختم کر سکتے ہیں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا اصل میں تعلیم ہی انسان کی
روحانی،اخلاقی اور جسمانی تربیت کرتی ہے ۔ایک وقت تھا کہ تعلیم بہت نایاب
تھی لیکن سستی تھی کیونکہ اس وقت کے اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت اپنا فرض
اولین سمجھ کر کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم تو ہر دروازے پر
پہنچ گئی ہے لیکن ابھی بھی دسترس سے باہر ہے اور جو لوگ تعلیم یافتہ ہیں ان
میں زیادہ شرح تعلیم کے اس لئے خلاف ہیں کہ انہیں اتنی زیادہ تعلیم حاصل
کرنے کے با وجود روزگار کے مواقع فراہم نہیں کئے گئے حالانکہ اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم ،صحت
،تحفظ،خوراک،پانی اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات ہر شہری تک بلا امتیاز
پہنچائے لیکن 67سال آزادی کے گزرنے کے با وجود اس آئین کی پامالی مسلسل
جاری ہے ۔پاکستان میں اس و قت غربت ،بد امنی اور مفلسی کی بڑی وجہ کوئی ہے
تو وہ صرف بے روزگاری اور شرح خواندگی میں کمی ہے ۔حکومت پاکستان کی جانب
سے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے فنی تعلیم بھی متعارف کروائی گئی ہے
جس میں لوگ مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرتے ہیں لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی
پیدا ہوتا ہے کہ ہر سال کتنے لوگ فنی تعلیم حاصل کرنے کیلئے فنی تعلیمی
اداروں کا رخ کرتے ہیں ؟کتنے لوگوں کو وہاں تعلیم و ہنر حاصل کرنے کا موقع
ملتا ہے؟ اور کتنے لوگ ہنر حاصل کر نے کے بعد ایک با ضابطہ زندگی گزارتے
ہیں ؟اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ ایسے تعلیمی اداروں
میں زیادہ تعداد متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کی ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک
ایسا طبقہ ہے جو نہ تو اعلیٰ تعلیم کیلئے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں اور
نہ ہی کوئی کاروبار کرنے کی ان میں سکت ہوتی ہے جیسا کہ اعلیٰ طبقے کے لوگ
اپنی اولاد کیلئے با آسانی کر سکتے ہیں ۔تعلیمی ادارے میں جانے کے بعد پھر
ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ جس سے لوگوں کو وہ تعلیم بھی انتہائی مشکل اور
چادر سے باہر نظر آتی ہے وہ اس طرح کہ جب بھی کوئی ایسی تعلیم متعارف
کروائی جاتی ہے تو اسکو عوام تک پہنچانے کیلئے حکومت کے پاس وسائل با لکل
نا پید ہوتے ہیں جسکی وجہ سے اس فنی تعلیم کو عوام میں عام کرنے کیلئے نجی
اداروں کو بھاری فیسیں لے کر رجسٹرڈ کیا جاتا ہے جو پھر اپنی ساتھ ہوئی
زیادتی کانزلہ عوام پر گراتے ہیں چونکہ عوام اس کیلئے مجبور ہوتی ہے اور
والدین ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کچھ بن جائے تاکہ ان کی پیٹھ
پیچھے انہیں نہ کوسیں اسی وجہ سے وہ اتنی بھاری فیسیں برداشت کر تے ہیں ۔پھر
ان نجی اداروں کے دیگر مظالم الگ سے ہوتے ہیں کہ آج پیپر فنڈ دے دو،آج
سپورٹس فنڈ،آج فلاں فنکشن تو کل فلاں فنکشن ،کبھی مدر ڈے تو کبھی قائد ڈے!!
اس مد میں جو فنڈز اکٹھے کئے جاتے ہیں وہ الگ سے غریب والدین کی کمر توڑتے
ہیں مطلب یہ کہ اس دورانیہ میں غریب تو غریب متوسط طبقے کے لوگ بھی گزر بسر
تک ہی محدود رہ جاتے ہیں ۔لیکن یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا!!کیونکہ اس کے
بعد گورنمنٹ کی باری آتی ہے کہ جب امتحانات ہوتے ہیں تو ایک خاص پاسنگ شرح
متعین کر کے بچوں کی قابلیت کے ساتھ خوب کھیلا جاتا ہے کہ پندرہ فیصد سے
بھی کم بچے پاس ہوتے ہیں اور باقی سب کو کسی نہ کسی مضمون یہاں تک کہ
پریکٹیکل میں بھی فیل کر دیا جاتا ہے ایسے میں جو دورانیہ دو سال کا ہوتا
ہے وہ تین سے چار سال کا ہو جاتا ہے اس پر سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
گورنمنٹ کے پاس روزگار کے اتنے مواقع اور وسائل نہیں ہیں ،اس لئے ایسے رزلٹ
دیتے ہیں یا گورنمنٹ کے ان اداروں کے پاس وسائل اور بجٹ کی کمی ہے اسی لئے
ادارے کو چلانے اور اس کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ایسی شرح متعین کر رکھی
ہے؟؟اور اس بات کا سب سے بڑا ثبوت فارمیسی ٹیکنیشن کا کورس ہے جسکا دورانیہ
تو دو سال ہے لیکن رزلٹ ٹھیک نہ ہونے کے باعث ہر طالبعلم کو تین سے چار سال
کا دورانیہ درکار ہوتا ہے اسکے علاوہ نجی تعلیمی ادارے جنکی رجسٹریشن کے
بغیر فارمیسی کونسل امتحان نہیں لیتی وہ الگ سے لوٹ کھسوٹ کرتی ہے یہاں
شعبہ تعلیم کو لوگوں نے بزنس بنا لیا ہے اور اساتذہ نے عبادت نہیں بلکہ
روزگار بنایا ہوا ہے جو کہ ہم جگہ جگہ قائم اکیڈمیوں اور ٹیوشن سنٹر کی
صورت میں دیکھ سکتے ہیں ۔صرف فارمیسی کے شعبے میں ہی نہیں بلکہ جتنے بھی
فنی تعلیم ہے جیسا کہ آپ انجینئیرنگ انسٹی ٹیوٹ کے رزلٹ کو اٹھا کر دیکھ
لیں کم و بیش ہی طالبعلم نظر آتے ہیں جن کو سپلی کے سانپ نے نہ ڈسا ہو
وگرنہ سب کو ہی یہ سانپ ڈس جاتا ہے ۔سی ایس ایس اور پی سی ایس جیسے مقابلے
کے امتحانات دیکھ لیں ہر سال کتنے لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں ان میں پاس
ہونے کی شرح بھی آپ کے سامنے ہے اور ان میں سے کتنے لوگ بھرتی ہوتے ہیں وہ
بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں جب کبھی غلطی سے کسی ادارے میں کچھ آسامیاں خالی
ہو جاتیں ہیں تو اس میں میرٹ کو یقینی بنانے والے لولی پاپ کو بیچ کر
کروڑوں روپے اکٹھے کئے جاتے ہیں اور پھر ان پر بین بھی لگا دیا جاتا
ہے۔دوسرے اسلامی اور انگریز ممالک میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ
ٹیکس لینے کے بعد عوام کو تمام تر بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہے بچے کی
پڑھائی سے لے کر اس کو روزگار ملنے تک کے تمام اخراجات خود برداشت کرتی ہے
یہاں تک کہ اگر کوئی نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارغ ہو ااور اسے
روزگار میسر نہ ہو تو اسکا ماہوار وظیفہ اسکو اس وقت تک دیا جاتا ہے جب تک
اس کا کوئی روزگار نہ بن جائے ۔اگر حکومت عوام کو ایسی سہولیات مکمل طور پر
نہیں دے سکتی تو کم سے کم عوام کی رسائی تو یقینی بنائے ،اگر عوام میں وہ
سہولت خود خریدنے کی ہمت ہے تو اسکو پست کرنے کی کوشش تو نہ کرے!اور امن و
استحکام اس وقت ہی پیدا ہو سکتا ہے جب لوگ زیادہ سے زیادہ مصروف رہیں اور
امن و استحکام آئے گا تو خوشحالی و ترقی بھی پاکستان کا مقدر بنے گی ۔جب
ایسے مواقع عوام کو ملیں گے تو جو ہمارے قابل لوگ یہاں سے تنگ آ کر دوسرے
ممالک میں جاتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں ان کا دل بھی کرے گا کہ وہ
اپنے ہی ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنی تمام ہمت تہہ دل سے خرچ کریں ۔
|