ماں کی محبت کاکا مقام کیسے رویوں کا متقاضی ہے
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
جب خالق نے دھرتی کے نظام کو بنانے سنوارنے
کے حوالے سے اور اپنے بندئے کی نگہداشت، پرورش ،تربیت کی بابت فیصلہ کیا
ہوگا تو خالق نے ایک ہستی ماں تخلیق کردی ہوگئی۔ اِس ہستی کے لیے خالق نے
ماں کا لفظ پسند فرمایا اور اپنی محبوب ہستی محمد ﷺ کے لیے بھی م سے محمد
نام پسند فرمایا ۔ گویا حرف م سراپا محبت و وفا اور رحمت کی نشانی ٹھرا۔
محمدﷺ کے نام مبارک میں تو خالق نے حرف م کو دو مرتبہ لکھ دیا۔یوں نام محمد
ﷺ کا فیض کائنات کے خاتمے تک جاری رہے گااور ماں بھی نبی پاک ﷺ کے طفیل اِس
قابل قرار پائی گئی کہ فرمادیا گیا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔اب ہم آتے
ہیں اپنے موجو دہ سماجی حالات کی طرف۔ماں کی ہستی بلاشبہ عظیم تر ہے۔ماں کی
شان بیان کرتے وقت اِس کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ
ماں کی محبت کا ادراک اگر ہوجائے تو پھر رب اور اُس کے محبوب نبی پاکﷺ تک
بھی رسائی ہوجاتی ہے۔ماں کی عظمتیں بیان کرنا بہت ضروری ہے لیکن ماں سے
محبت کا حقیقی اظہار تو وہ عمل ہے جو اِس عظیم ہستی کے ساتھ اولادسلوک کی
شکل میں کرتی ہے۔ماں کی قربانیوں کا تذکرہ کرنا سورج کو چراغ دیکھانے کے
مترادف ہے۔ماں کی عظمت اور محبت کاتقاضا تو یہ ہے کہ اِس ہستی کے معاملات
کو آسانی فراہم کی جائے۔ شائد ماں باپ کے اوپر وہ بہت کڑا وقت آجاتا ہے جب
وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں اور اُن کی اولاد اپنی اولاد کے معاملات اور اپنے
کاروبارِ حیات میں اتنا گُم ہوجاتے ہیں کہ ماں باپ اُن کے دیدار تک سے
محروم ہو جاتے ہیں۔ماں سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اُسکا خیال اُس طرح
رکھا جائے جس طرح بڑھاپے میں ایک شخص کو جس طرح کی چاہت کی ضرورت ہوتی
ہے۔والدین بڑھاپے میں لاغر ہوجاتے ہیں۔ اُن کو خوراک اور ادویات کے ساتھ
ساتھ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اپنی اولاد کے لیے فارن خوراک کے ڈبے خریدئے
جاسکتے ہیں اپنی بیوی کے لیے ہر فرمائش پر آمین کہا جاسکتا ہے۔ اور ایسا
ہونا بھی چاہیے اولاد کا اور بیوی کا یہ حق ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ماں
باپ کا خیال رکھا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔ بڑھاپے میں جس طرح کے اکلاپے کا
شکار ماں اور باپ ہوجاتے ہیں اِس اکلاپے کی وجہ سے بہت سی نفسیاتی بیماریاں
اُن کو آگھیرتی ہیں۔تو اگر اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ کچھ وقت نکال کر اُن
کا حا ل چال پوچھ لے ۔ اُن سے بات کر لے۔ اُن کی خوراک اور اُن کی ادویات
اور اُن کی دیگر ضرورتوں کے متعلق جان لے۔ تو یقینی طور پر ماں باپ کو
اطمینان حاصل ہوگا اور اُن کے بڑھاپے کے دنوں میں اُن کے دل پر کچوکے نہیں
لگ پائیں گے اور نہ ہی اُن کا یہ پچھتاوا آن گھیرئے گا کہ کاش وہ یہ کر
لیتے اور یہ ہوجاتا تو ایسا ہوتا۔اب بڑھاپے میں ماں باپ کو امید کی کرن صرف
اُن کی اولاد کی چاہت ہی دلاتی ہے ۔ اُن کے سامنے جینے کی اُمنگ کی صرف ایک
ہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد اور اُن کی اولادوں کو ترقی کی منازل طے
کرتے ہوئے دیکھیں اور اُن کو دُعائیں دیں۔ گویا اِس بڑھاپے کی دور میں اﷲ
پاک انسان کو ماں اور باپ کی شکل میں دو ایسی بزرگ ہستیاں عطا فرمادیتا ہے
جو ہر وقت اُس کے لیے خیر کی طالب ہوتی ہیں اور پھر رب اتنی محبت کرنے والی
ہستیوں کی دعائیں کیسے رد کر سکتا ہے۔ ماں عورت ہے اب دیکھتے ہیں کہ ہمارا
معاشرہ عورت کا یہ مقام دیے ہوئے ہے۔ اُسی عورت نے ہی تو ماں بننا ہوتا ہے۔
عورت ماں ہے ، بہن ہے،بیٹی ہے بیوی ہے۔زمانہ جہا لیت میں عورت کو خاندان کے
لیے شرمندگی کا باعث تصور کیا جاتا تھا اور عورت کو خاندان کی بدنامی کا
عنصر سمجھا جاتا تھا۔عرب جو کہ زبان پہ بہت قادر تھے اور شاعری اُن کے گھر
کی باندھی تھی وہ جس شخص کی کوئی بیٹی ہوتی تو وہ اُس کے ایک ایک اعضا کی
نشاندہی کرتے اور لڑکی کا نام لے لے کر شاعری کرتے یوں بیٹیوں کے باپ یہ بے
عزتی برداشت نہ کر پاتے وہ بچی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے ۔ رب
پاک نے عورت کو ترکہ میں سے حصے دار بنایا اور اﷲ پاک نے کھول کھول کر قران
مجید میں وراثت کی تقسیم کو تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمایا۔ عورت کو مرد کے
لیے باندھی نہیں بلکہ اگر وہ ماں ہے تو اُس کے قدموں تلے جنت کو قرار دیا۔
اگر وہ بیٹی ہے تو اچھی پرورش کرنے پر والدین کو جنت کی بشارت دی اور اگر
وہ بہن ہے تو اُسکو عزت واحترام دیا اگر بیوی ہے تو اُس کو ہر قسم کی مالی
مشکلات سے آزاد کروا کر مرد کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ گھر کا معاشی نظم و
نسق خود چلائے اور عورت گھریلو امور کو انجام دئے بچوں کی پرورش کرئے اور
معاشرئے کو بہترین نسل تیار کرکے دے۔ اسلام سے پہلے عورت کو انتہائی گھٹیا
مخلوق کا درجہ دیا گیا۔ ہندو مذہب میں تو مرد کے مرتے ہی عورت کو بھی اُسکے
خاوند کے ساتھ زندہ ہی جلا دیا جاتا جسے ستی کی رسم کہا جاتا ہے۔ عورت کو
معاشرئے میں غلام سے بھی بدتر حثیت حاصل تھی۔ گویا کہ عورت ہونا جرم بن
جاتا۔ اﷲ پاک کے نبی پاکﷺ نے عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔عورت کی
آزادی کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن راقم کے نزدیک صرف ایک
بات ہی فی زمانہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ عورت موجودہ حالات میں کمانے کے لیے
گھر سے نکلتی ہے تو اُسے کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ حالات
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہیں اسلام نے تو سینکڑوں سال قبل ہی معاشی ذمہ
داری مرد پر ڈال دی تاکہ عورت عزت و احترام کے ساتھ گھر کا نطم و نسق
سنبھالے اورخوش وخرم پاکیزہ زندگی بسر کرئے اور معاشی پریشانیوں سے آزاد
ہوجائے۔ذرا تصور فرمائیں عورت جب معاشی سرگرمیوں کے لیے ملازمت بھی کرتی ہے
پھر اُس کو گھر کے معاملات بھی دیکھنا پڑتے ہیں تو اُس کو دوہری مشقت کرنا
پڑتی ہے۔ راقم یہاں عورتوں کی ملازمت کے خلاف بات نہیں کر رہا ۔عورت کو کام
ضرور کرنا چاہیے تاکہ معاشرئے کے نظام میں روانی رہے لیکن عورت سے کام اتنا
ہی لینا چاہیے جتنا یہ صنف نازک کر سکتی ہے۔ اُسے اذیت سے دوچار نہیں کر
دینا چاہیے۔کہ وہ گھر اور دفتر کے درمیان فٹ بال بن جائے۔ اِس طرح کا توازن
رکھ کر اگر عورت کو کوئی ایسا کام کرنے کو مل جاتا ہے تو اسے ضرور کرنا
چاہیے ۔عورت کو ہراساں کیا جانا معمول بن چکا ہے۔ گو خاتون محتسب کے ادارئے
کا قیام صوبہ پنجاب کی حد تک عمل میں آچکا ہے لیکن خود ہی غور فرمائیں کتنے
فی صد خواتین جا کر اِس محتسب کے دفتر میں یہ درخواست دیتی ہیں کہ مجھے
ڈیوٹی کی جگہ فلاں شخص نے ہراساں کیا۔عورت کی عزت و احترام کے لیے معاشرے
میں روحانی انقلاب کی پھر سے ضرورت ہے وہ انقلاب جو نبی پاکﷺ کا عطا کردہ
ہے ہے تاکہ زمانے کی آنکھوں میں حیا ہو۔قوانین تو بے شمار ہیں اور مروجہ
نظام میں قوانین پر عمل درآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔خواتین کی آزادی
کے حوالے سے دنیا بھر میں بے شمار تحریکیں چل رہی ہیں اور بہت سی تنظیمیں
بھی میدان عمل میں ہیں۔ عورت کو مارکیٹینگ کے لیے بطور ماڈل نیم برہنہ پیش
کرنا کونسی آزادی ہے اور اِس سے معاشرئے کی کس طرح خدمت بجا لائی جارہی ہے۔
عورت کو باپردہ ہونے کا حکم اُس کے لیے قید نہیں بلکہ اُس کی عزت و ناموس
کی حفاظت اور احترام کے لیے بہت بڑی سہولت اور عزت و تکریم کا مقام ہے۔
دنیا کے کسی معاشرے میں فحاشی کے حق میں وکالت نہیں کی جاسکتی ، ہر مذہب
عورت کی عزت و ناموس کو اعلیٰ و ارفعٰ مقام دیتا ہے ۔اِس لیے جو خواتین
خواہ وہ ملازمت پیشہ ہیں یا گھر کے انتظام وانصرام میں مصروف رہتی ہیں
پردئے میں رہنے سے اُن کے احترام میں بے حد قدرومنزلت پائی جاتی ہے۔دین نے
جو حدود قیود معاشرئے کے ہر فرد کے لیے مقرر کی ہیں اُن کے پیچھے نفسیاتی
طور پر جو پہلو کا ر فرما ہے وہ یہ ہے کہ کسی طور بھی کوئی بھی فرد فطرتی
روش سے ہٹنے نہ پائے۔اﷲ پاک ہر انسان کا خالق و مالک ہے اور اپنے بندئے سے
اتنی محبت کرتا ہے کہ اُتنی محبت ستر مائیں مل کر بھی نہیں کر سکتی وہ خدا
اپنی مخلوق کی بے عزتی بے حرمتی کیسے برداشت کر سکتا ہے۔اِس لیے فطرتی
تقاضے اُسی صورت پورئے ہو سکتے ہیں جب معاشرئے کا ایک ایک فرد ایک دوسرئے
کی عزت و ناموس کو مقدم رکھے۔ نبی پاکﷺ کا ارشاد ہے کہ اﷲ کے بندئے کے دل
کو دُکھانا کعبہ کو ڈھانے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔عورت کی آزادی کی رٹ لگانے
والے عورت کو جسم فروشی کی طرف لگا تے اور مالی مفاد حاصل کرتے ہیں کیا یہ
آزادی ہے۔ عورت کو اپنے مالی فائدئے کے لیے بطور شو پیس، پیش کرنا کیا یہ
آزادی ہے۔پاکستانی معاشرئے میں خواتین کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے
پرائمری تعلیم سے لے کر ثانوی و اعلیٰ تعلیم تک کے مواقع بہت کم ہیں۔
ملازمتوں کی کمی ،ٹرانسپورٹ کے مسائل،معاشرتی اونچ نیچ امارت اور غربت کے
درمیان خلیج کا حائل ہونا، جہیز کی لعنت وٖغیرہ۔عورت کو بطور پروڈکٹ سمجھنے
کے عمل کی نفی کرنے کی از حد ضرورت ہے۔جب معاشرئے میں ماں کے ساتھ یہ سلوک
کیا جارہا ہے ہم کس مُنہ سے ماں کی عظمت کے گُن گارہے ہیں۔ ہم اپنی بیٹی
بیوی بہن کو جو مقام دئے رہے ہیں وہ مقام تو ماں کا بھی بن جانا ہوتا ہے۔اﷲ
پاک ہمیں باعمل انسان بنائے۔ |
|