رحمانی۳۰: ہندوستانی مسلمانوں کو اﷲ کے ’’ولی‘‘ کا نایاب تحفہ

ہندوستان کے سب سے پسماندہ ریاست بہار میں واقع ََ ـ ـِ رحمانی فاؤنڈیشن کے صدر حضرت مولانا محمّدولی رحمانی نے بہار کے اس وقت کے اے۔ڈی۔جی جناب ابھے آنند کے تعاون سے سال 2008 میں رحمانی۳۰ نامی کوچنگ کا آغاز کیا گیا۔ یہ پہل بہار میں سماجی اور اقتصادی طور پر پسماندہ اقلیت ، خاص طور پر مسلم طلباکو مفت کوچنگ فراہم کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ جہاں طلبا کو رہنے سہنے کے ساتھ ساتھ مفت کھانے کا بھی نظم کیا گیا تاکہ طالب علم کسی نفسیاتی دباؤ یا ذہنی تناؤ سے بالا تر ہوکر IIT/JEE کے مقابلہ ذاتی امتحان کی تیاری پوری لگن اور محنت سع کر سکے۔ یہ پہل اتنا کامیاب ہوا کہ پہلے ہی سال سو فیصد رزلٹ کے ساتھ پورے ملک میں توجہّ کا مرکز بن گیا۔ اس کامیاب تجربے نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسان سچے دل اور لگن کے ساتھ کچھ کرنا چاہے تو اس کے لئے کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ مولانا محمد ولی رحمانی کی دور اندیشی سوچ اور ایک بہترین حکمت عملی کے سبب مسلمانوں آگے لانے کی جو ایک مثبت پہل کی ہے وہ شاید سرسید احمد خاں کے بعد آزاد ہندوستان میں دوسرا سب سے کامیاب تجربہ کہا جا سکتا ہے، جس سے مسلمان نہ صرف اقتصادی طور پر بلکہ علمی اور سماجی سطح پر بھی ہندوستان کی مجموعی ترقی میں دوسرے فرقوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر اپنا کردار ادا کر سکے۔آج جہاں ایک طرف ملک کے آگے بڑھتی اور چمکتی معیشت میں یہاں کا سب سے بڑا اقلیتی فرقہ اپنے آپ کو بہت پسماندہ محسوس کر رہا ہے وہیں دوسری جانب آزادی کے لگ بھگ ۷۰ سال بعد بھی ملک کا ۲۰ فیصد اقلیت اپنے آپ کو ہاشئے پر محسوس کرتا ہے ایسے میں ہمارے لئے ایک خودمختار اور ترقی یافتہ ملک کا تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کے سماجی، اقتصادی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی صورت حال پر سچّر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد یہ بہت واضح ہو گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت درج فہرست ذاتوں اور فہرست قبائل سے بھی خراب ہے۔ رپورٹ میں یہ شفارش کی گئی ہے کہ حکومت مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے کے لئے رہائش کے ساتھ ساتھ روزگار کے بھی مساوی مواقع فراہم کرے۔ بہار میں مسلمانوں کے حالات کہ دیکھتے ہوئے بہت غور و خوض کے بعد حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے بہار کے سابق اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل جناب ابھے آنند سے رابطہ کر کے ان سے تعاون کی اپیل کی۔ انہوں نے سوچا کہ تعلیم کے بغیر مسلمانوں کی حالت میں بہتری نہیں لایا جا سکتا۔ مولانا محمد ولی رحمانی کا ماننا ہے کہ کسی بھی ایک طلبہ کی کامیابی دوسرے بہت سارے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ پروفیشنل قابلیت کے ساتھ ساتھ اچھے روزگار کے لئے بھی کافی پر امید اور خوداعتماد نظر آنے لگتے ہیں۔

ایر وائس مارشل حامد شاہل نے مولانا محمد ولی رحمانی کو لکھے ایک مکتوب میں کہا ہے کہ ـ ’’ مولانا محمد ولی رحمانی نے تعلیم کے میدان میں جو کوششیں کی ہیں اس کی تعریف نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ہندوستان کے تمام عوام کو کرنا چاہئے ۔ رحمانی۔۳۰ نے سو فی صد کامیابی دے کر عوام کے سامنے ایک بے مثال کارنامہ پیش کر دیا ہے۔ مولانا محمد ولی رحمانی کا اس طرح طلبہ کو تربیت دینے کی کوشش اور ان کی سوچ نہ صرف ان کے قائدانہ صلاحیت کی جیتی جاگتی مثال ہے بلکہ مسلم طلباء کے ایک بڑی تعداد کو اچھی طرح سے مقابلہ ذاتی امتحان کے ساتھ ساتھ نئے چیلینجوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرنا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔‘‘ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل پر لکھنے والوں میں ایک اور نام MIT کے کاشف الہدی کا ہے ۔ انہوں نے بھی رحمانی۔۳۰ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ رحمانی۔۳۰ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے امید کلی ایک ایسی کرن ہے جس کی روشنی سے مستقبل میں مسلمنوں کی تقدیر بدل جائے گی۔ یہ اس لئے نہیں کہ رحمانی۔۳۰ نہ صرف ذہین طلباء کو تربیت فراہم کرتا ہے بلکہ اس لئے کہ یہ مسلمانوں کی نئی نسل کو ایک بہتر اور روشن مستقبل کے لئے تیار کرتا ہے۔ حالانکہ مولانا محمد ولی رحمانی اور ابھے آنند اس مشن کے دو نمایاں چہرہ ہیں جنہیں لوگ جانتے ہیں لیکن اس کامیابی کے پیچھے ایک ایسی بے لوث ٹیم بھی کار فرما ہے جس کے اندا اپنے قوم ائر ملک کے مستقبل کو بدلنے کی صلاحیت ہے۔ـ‘‘

راجیہ سبھا کے سابق ڈیپٹی چیرمین کے رحمان خاں نے مولانا محمد ولی رحمانی کو بھیجے گئے اپنے ایک پیغام میں لکھتے ہیں ــ’’ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ رحمانی فاونڈیشن مونگیر کے سر پرست اعلی مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے مسلم سماج میں تعلیمی بیداری لانے کے لئے بہار کے دارلاحکومت پٹنہ میں IIT/ JEE کے مقابلہ ذاتی امتحانات کی تیاری کے لئے رحمانی۔۳۰ کے نام سے ایک کوچنگ سینٹر کی شروعات کی ہے جس کے نتائج کافی تسلی بخش آرہے ہیں ۔ میری دعاء ہے کہ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی سرپرستی میں چلنے والا یہ ادارہ دن رات ترقی کی منازل طے کرے اور ملت اسلامیہ کے ہونہار طلباء رحمانی۔۳۰ کے ذریعہ IIT/JEE کی تربیت حاصل کر کے اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنائیں۔‘‘

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بلا تاخیر مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کے مشن کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ تن۔من۔دھن سے اس میں تعاون کریں تا کہ قوم و ملّت کے آنے والی نسلوں کے لئے ایک مضبوط اور منظم پلیٹ فارم مہیا کر سکیں۔ مسلمانوں کے مالی مشکلات اس کی پسماندگی اور اس کی غربت کو دیکھتے ہوئے حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے محسوس کیا کہ اگر اب بھی کچھ نہیں کیا گیا تو مسلمانوں کی حالت اور بھی ابتر ہو جائیگی۔ مولانا محمد ولی رحمانی ہمیشہ ایسے تمام بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتے رہتے تھے جو مالی کمزوری کی وجہ سے موقعے کا صحیح فائدہ نہیں اٹھا پاتے تھے ۔ آج ہمیں ایسے زہین طلباء کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ضرورت ہے ہمیں ایک دور اندیش رہنما کی جن کے دل میں قوم و ملت کی فکر ہو، آج ہمیں ضرورت ہے مولانا محمد ولی رحمانی جیسے ہوحانی پیشوا کی، ہمیں ضرورت ہے مولانا محمد ولی رحمانی جیسے روشن خیال رہنما کی، ہمیں ضرورت ہے مولانا محمد ولی رحمانی جیسے سیاسی اور سماجی رہنما کی، اور سب سے ذیادہ ضرورت ہے مولانا محمد ولی رحمانی جیسے نرم، ایماندار، اور لگن کے ساتھ کام کرنے والے رہنما کی جس سے ملک، قوم اور ملت سب کا فائدہ ہو۔ آج ہندوستانی مسلمان مولانا محمد ولی رحمانی کو سب سے معزز، معتبر اور ایماندار رہنما تسلیم کرتے ہیں اور جنہیں لوگوں کا پورا اعتماد حاصل ہے۔

مولانا محمد ولی رحمانی اپنے اس مشن کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ ایک ایسا کوچنگ سینٹر کی شروعات کی جائے جس میں مالی اعتبار سے کمزور اور زہین طلباء کو تربیت دے کر IIT/JEE جیسے مقابلہ ذاتی امتحان کے لئے تیار کیا جا سکے۔ پھر انہوں نے اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جن کے زہن میں ملک اور قوم کے خدمت کا جذبہ کوٹکوٹ کر بھرا تھا۔ انہوں نے ایسے اساتذہ کا سیلیکشن کیا جو بچوں کے لئے دوست اور گائیڈ دونوں کا رول ادا کر سکے اور طلبہ کو ہمیشہ محنت کرنے کی ترغیب ملتا رہے۔ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے وسائل کے حساب سے سب سے کمزور ریاست بہار میں کامیابی سے مسلمانوں کی stereo-type سوچ کو بدلنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس ٹھوس پہل اور اس کی کامیابی سے دنیا بھر میں رحمانی۔۳۰ کی تعریف ہونے لگی۔ اس کی کامیابی کی وجہ سے بی۔بی۔سی نے رحمانی۔۳۰ پر ایک خصوصی رپورٹ بھی شائع کیا تھا ۔ ساتھ ہی دنیا بھر میں رحمانی۔۳۰ نے میڈیا کی توجہ اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے ذہن میں طلبہ کی کامیابی کو لے کر کئی طرح کے سوالات ابھرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر۔کیا مسلم تعلیمی اداروں سے پڑھ کر طلبہ مقابلہ ذاتی امتحانات میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے ؟ کیا دہی علاقوں سے آئے ہوئے طلبہ کے لئے آگے کوئی اچھا کیریر دستیاب ہے؟ کیا اردو میڈیم اسکول کے طالب علم IAS یا پھر IPS افسر بن سکتے ہیں؟ کیا اردو میڈیم کے بچوں کی صلاحیت کسی اور میڈیم کے بچوں سے کم ہوتی ہے کیا؟ در اصل انہیں سب سوالوں کا جواب ہے رحمانی۔۳۰۔ مجھے لگتا ہے کہ تمام کامیاب طالب علم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے رول ماڈل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں سید علی مجتبیلکھتے ہیں کہ ’’ہندوستانی مسلمانوں کو حکومت سے مانگنے کی بجائے مسلمانوں کو آگے آکر رحمانیأ۳۰ جیسے اداروں کی مدد کرنی چاہئے اور بہار کے اس ماڈل کو پورے ملک میں اپنانا چاہئے تا کہ مسلمانوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی بھی ترقی ہو۔‘‘

2009 میں رحمانی۔۳۰ کی کامیابی کے بعد عوام میں یہ باتیں زور پکڑنے لگیں کہ رحمانی۔۳۰ کا expansion پورے ملک میں ہو۔ اس سلسلے میں مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے ملک بھر کے مسلمانوں، دانشوروں، اور کمیونیٹی کے مختلف رہنماوٗں سے اپیل کی اور اس اپیل کا اثر اتنا زیادہ ہو کہ رحمانی۔۳۰ کے کئی اور سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔ اس سینٹر کا مقصد صرف یہ تھا کہ ملک کے مختلف حصوں کے مسلم غریب اور ذہیں طلباء کو موقع مل سکے اور کامیاب ہو کر اپنے آنے والی نسلوں کے لئے ترغیب کا ذریعہ بن سکیں۔اس سال طلبہ کی اس بڑی کامیابی کے بعد مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے کہا کہ اب کوئی بھی ہمارے طالب علموں کی صلاحیت پر شک نہیں کر سکتا کیوں کہ ہمارے طلبہ میں بھی وہی ساری خوبیاں اور صلاحیت موجود ہے جو کسی اور طالب علم میں ہو سکتی ہے۔ ہمیں صرف تخلیقی طریقے سے ان ذہانت کو بہتر طریقے سے سنوارنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس سال یعنی 2016 کے رزلٹ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ رحمانی ۔۳۰ کے سبھی سینٹروں سے کامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد کافی تسلی بخش رہی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 115 میں سے 80 طلباء کو کامیابی ملی ہے جس میں رحمانی۔۳۰ ، پٹنہ سے 23 ، اے۔آئی۔آر۔۳۰ ممبئی سے19 ، رحمانی ویب پٹنہ سے 10 اور ایم۔ایس۔اے۔آر۳۰ حیدرآباد سے28 طالب علموں نے کامیابی حاصل کی ہے جو اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ ٰٓر

2009سے IIT/JEE میں واضح کامیابی کی وجہ سے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون مملک میں رہ رہے لوگوں نے بھی بھر پور حمایت دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ میں نے ایک نیوز پورٹل twocircle.net پر کئی لوگوں کے ہمت افزہ خطوط پڑھے اور ساتھ ہی کئی لوگوں کے حمایت دینے کی بات بھی دیکھی۔ سعودی ؑرب میں رہ رہے ظفر احسن مجیب الرحمان لکھتے ہیں ’’ جناب مولانا محمد ولی رحمانی صاحب: مسلم کمیونٹی آپ اور آپ کے پوری ٹیم کو اس تعاون کے لئے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ میں آپ کی سوچ، آپ کی صلاحیت، بے لوث خدمت، اور تنظیمی صلاحیت کی تعریف کرتا ہوں ۔ آپ نے مسلم قوم کے سچے رہبر اور رہنما کے طور پر ایک مثال قائم کی ہے۔‘‘ ایک اور پوسٹ میں انگلینڈ میں مقیم تنائالحق لکھتے ہیں ’’ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ اتنی بڑی کامیابی کے لئے آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑی کامیابی نہیں دیکھی۔ میں رحمانی فاونڈیشن اور جناب ابھے آنند کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی پیش کش کرتا ہوں۔‘‘

حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کے مطابق مستقبل میں ملک کے اور بھی مختلف علاقوں میں مقابلہ ذاتی امتحان کا انعقاد کیا جائے گا تا کہ ملک کے مختلف حصوں میں رہ رہے ذہین طلباء جو IIT/JEE کے مقابلہ زاتی امتحان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کو موقع مل سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رحمانی فاوئنڈیشن کا پیغام بہت واضح ہے ۔ فاوئنڈیشن مسلم طلباء کے ساتھ ساتھ تمام طبقوں کے طلباء کے تعلیمی حالت میں بہتری اور ایک صحت مند طرز زندگی کی تعمیر دیکھنا چاہتی ہے۔
M J  Warsi
About the Author: M J Warsi Read More Articles by M J Warsi: 2 Articles with 1149 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.