صحافیوں کےخلاف جھوٹے مقدمات اور پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا احتجاج
(Sohail Ahmad Mughal, Lahore)
صحافیوں کےخلاف بے بنیاد مقدمات کے اندراج کے بعد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، ریجنل یونین آف جرنلسٹس پنجاب اور ایسوسی ایشن آف کرائم رپورٹرز لاہور کا احتجاج۔ پڑھیے نوجوان صحافی سہیل احمد مغل کی اس خصوصی تحریر میں |
|
پنجاب کے صوبائی دارلحکومت میں گزشتہ جمعہ کے روز پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس،
پنجاب یونین آف جرنلسٹس، ریجنل یونین آف جرنلسٹس، ایسوسی ایشن آف کرائم رپورٹرز
لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے صحافیوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے ایک
بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ یہ مظاہرہ براہ راست حکومت یا کسی وفاقی ادارے کےخلاف
نہیں کیا گیا تھا بلکہ پولیس اور پنجاب کے ایک ضلع کے ڈی پی او کےخلاف تھا۔ صحافیوں
کا کہنا تھا کہ موصوف ڈی پی او رانا فیصل گزشتہ سوا سال سے صحافیوں کو سچ لکھنے اور
خبریں شائع کرنے پر انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کےلئے جھوٹے مقدمات میں ملوث
کررہا ہے اور نہ صرف صحافی بلکہ وکلاءسمیت دیگر مکاتب فکر سے منسلک افراد کو بھی من
گھڑت مقدمات میں ملوث کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔دراصل جھوٹے مقدمات کا یہ نہ رکنے
والا سلسلہ فروری 2015 ءمیں روزنامہ نئی بات کے نامور کالم نگار سید اعجاز گیلانی
کےخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت سنگین دفعات کے مقدمہ سے شروع ہوا ۔ انہوں نے
اپنے آرٹیکل میں حقائق سے پردہ اٹھایا تو ڈی پی او اصلاح کرنے کی بجائے انتقامی
کاروائی پر اتر آیا اور مقدمہ درج کردیا ۔ اس کے بعد پے در پے سینئر صحافیوںآصف
نوازخان(دنیا نیوز)، مرزا اسرار بیگ(روزنامہ صحافت)، فہیم افضل چوہدری(روزنامہ جہان
پاکستان)، طارق خاں بلوچ(روزنامہ وقت) سمیت متعدد صحافیوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ
کی دفعات کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے بوگس مقدمات قائم کردئیے گئے ۔لاقانونیت کی
اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ کچھ عرصہ قبل اوکاڑہ شہر کے وسط میں واقع ایک
سرکاری سکول کی انتظامیہ کو ایک خط موصول ہوا تھا جس کے ساتھ ایک گولی( بلٹ) بھی
تھی اور خط میں سکول کو دھماکے سے اڑانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ دھمکی آمیز خط موصول
ہونے کے واقعہ کی قومی اخبارات کے نمائندوں نے خبریں شائع کیں جس پر موصوف ڈی پی او
آپے سے باہر ہوگیا اور صحافتی تنظیم ریجنل یونین آف جرنلسٹس پنجاب کے جنرل سیکرٹری
عابد حسین مغل(روزنامہ جہان پاکستان) ، سینئر صحافی حافظ عتیق الرحمن (روزنامہ
اسلام)، حافظ حسین(روزنامہ نوائے وقت)، میاں محمد ارشد ساقی(روزنامہ پاکستان)، منیر
چوہدری( روزنامہ جنگ)اورمحمد ارشد(روزنامہ دن)کےخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کا
مقدمہ درج کردیا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ دھمکی آمیز خط بھیجنے والے ملزمان
کےخلاف انتہائی معمولی نوعیت 506 بی کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جبکہ صحافیوں کو دہشت
گرد قرار دیدیا گیا۔ اب خط بھیجنے والے ملزمان سے ڈی پی او کو کیا ہمدردی تھی جو
انہیں اتنا بڑا ریلیف دیا گیا یہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔اسی طرح ابھی چند روز
قبل92 نیوز چینل کے اینکر قیصر خان نے موصوف ڈی پی او کے ایک چہیتے ایس ایچ او کا
ڈکیت گینگ کی سرپرستی کا راز فاش کردیا اور تمام ثبوتوں کیساتھ پروگرام ”اندھیر
نگری “ میںویڈیو آن ائیر کی لیکن موصوف ڈی پی او آگ بگولہ ہوگئے اورتمام ثبوت سامنے
ہونے کے باوجود ایس یچ او کی وکالت شروع کردی اور اینکر پرسن کےخلاف تھانہ حجرہ شاہ
مقیم میں بوگس مقدمہ درج کردیا اور یہی نہیں اینکر قیصر خان کا ساتھ دینے والے دیگر
معزز و سینئر صحافیوں جن میں چوہدری محمد اشفاق (روزنامہ نوائے وقت)، جمشید اقبال
(92 نیوز)، محمد کاشف وٹو(روزنامہ الشرق)، مظہر عباس(نیوز ون)سمیت 18 صحافیوںکے
خلاف بھی چار مختلف نوعیت کے مقدمات دو دن کے اندر درج کردئیے گئے ۔ موصوف ڈی پی او
کی تعیناتی کے دوران اب تک صحافیوں کےخلاف 28 سے زائد مقدمات درج کیے جاچکے ہیں جو
کہ صرف صحافیوں کی آواز کو دبانے کےلئے درج کیے گئے ہیں ۔ سنگین دفعات کے ان جھوٹے
مقدمات کی بھرمار نے صحافیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیااور ملک بھر کے صحافی اس
ڈی پی او گردی کےخلاف یک زبان ہوگئے اور اس طرح گزشتہ جمعہ کے روزپنجاب اسمبلی کے
اجلاس کے دوران اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا گیاجس میں راقم سمیت معروف اینکر پرسن
مبشر لقمان(24 نیوز)، سینئر صحافی عارف حمید بھٹی(اے آر وائی نیوز)، خاور نعیم
ہاشمی(92 نیوز)، صدر پی ایف یو جے رانا محمد عظیم(روزنامہ دنیا)، جنرل سیکرٹری آر
یو جے عابد حسین مغل(روزنامہ جہان پاکستان)، صدر پی یوجے شہزاد بٹ(اے آروائی نیوز)،
صدر اے سی آر اعجاز احمد بٹ(روزنامہ جہان پاکستان)، فرید بابر خان (روزنامہ سمائ)،
عامر مغل (خیبر نیوز)،اسد مرزا(روزنامہ نئی بات)،فیاض ملک( چینل فائیو نیوز)، کاشف
بٹ( روزنامہ سرزمین)، اشفاق رحمانی (آن لائن) سمیت نامور صحافیوں نے شرکت کی ۔
احتجاج میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماءواپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید اور
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماءشوکت بسرا نے بھی شرکت کرکے صحافیوں کیساتھ اظہار
یکجہتی کیا ۔ اپوزیشن ارکان نے اجلاس میں بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا
اور صحافت دشمن ڈی پی او کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جس کے بعد حکومتی ایم پی اے
رانا محمد ارشد(مرکزی صدر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان) کی مداخلت پر صحافیوں اور
حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ حکومت کی جانب سے صوبائی وزیر قانون
رانا ثناءاللہ نے صحافیوں سے مذاکرات کیے اور طویل مذاکرات کے بعد جھوٹے مقدمات
خارج کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ معاملہ کی انکوائری لاہور کے کسی ایماندار
پولیس آفیسر سے کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی ۔صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ
نے یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ آئندہ کسی صحافی کےخلاف اگر صحافتی فرائض کی انجام
دہی پر اگر مقدمہ درج ہوا تو ڈی پی او سمیت مقامی پولیس کو قصور وار تصور کیا جائے
گا، اور کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔حقائق عوام تک پہنچانے، کرپٹ مافیا کو بے
نقاب کرنے ،آئین و قانون کے باغیوں کےخلاف آواز حق بلند کرنے کےلئے اپنی جان پر
کھیل جانے والے صحافیوں پردہشت گردی جیسے مقدمات درج کرکے انہیں ”دہشت گرد“ جیسے
لقب دینا شرمناک اقدام ہے ۔ |
|