ایک مرد نیک کی کہانی

زندگی کو ایک حقیر مجبوری سے ایک بیش بہا قوت میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے - جناب رئیس احمد مرحوم نے اپنے کتابت کے ہنر کو ایک رسالے کی صورت میں ایک بیش بہا زندگی اور قوت میں تبدیل کر دیا تھا
مرد نیک کا نام تھا جناب رئیس احمد -
پاکستان ریلوے مغل پورہ لاہور سے ان کا تعلق تھا جہاں پاکستان بننے کے بعد بھارت سے آکر آباد ہوئے تھے - بعد میں ان کی ٹرانسفر کراچی ہو گئی تھی - جناب رئیس احمد کو خطاطی اور کتابت کا بہت شوق تھا اسی سبب اپنے شوق کی خاطر ہاتھ سے کتابت کا کوئی کورس بھی کر لیا تھا -

جب وہ نوکری سے ریٹائر ہوئے تو انہیں جناب افضل حق کی کتاب ‘زندگی“ کا فقرہ تنگ کر نے لگا کہ اللہ نے جو نعمت دی ہے اس کا شکر ادا کرنے کا کم سے کم طریقہ یہ ہے کہ اس نعمت میں دوسروں کو شریک کرنا چاھئے - چنانچہ انہوں نے سوچا کہ اپنا فن کتابت اللہ کی راہ میں لگایا جائے اور یوں اور اس کے فیض میں دوسروں کو شریک کیا جائے -

انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر ایک کتابچہ بنام “اپنی باتیں “ برائے اسلامی معلومات اپنے ہاتھ سے کتابت کر کے دو سو کی تعداد میں چھپوائے -

وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں وہ وہ کسی عالم مولانا محمد ایوب کے دروس میں شرکت کیا کرتے تھے - ان کی مجالس میں جاتے تھے اور جو وہ کہتے تھے اسے اپنی نوٹ بک میں تحریر کر لیا کرتے تھے - اسی طرح دوسرے علمائے کرام کی محافل سے بھی اکتساب کرتے اور ان کے بھی نو ٹس بنالیتے تھے - اس طرح انکے پاس علم کا اچھا خاصہ خزانہ بن گیا تھا - ان کا یہ کتابچہ انہی دروس سے کشید کی ہوئی معلومات پر مشتمل تھا -

جناب رئیس احمد صاحب کے تعلقات کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں تھا چنانچہ انہوں نے اپنے احباب سے درخواست کی کہ یہ کتابچہ صحیح افراد تک پہنچادیں - وہ اس مد میں کچھ رقم ڈاک کے سلسلے میں خرچ کر نے پر بھی تیار تھے -

جن احباب سے نے تقسیم کی گزارش کی تھی ان میں ایک صاحب پاکستان نیوی میں کسی اچھے عہدے پر کام کر رہے تھے -پاکستان نیوی کے ان صاحب نے کچھ نہیں کیا بس یہ کیا کہ جنگ اخبار میں اشتہار چھپوا دیا کہ یہ کتابچہ فلاں صاحب سے بلا کسی قیمت کے حاصل کیا جاسکتاہے -

چنانچہ ہوا یہ کہ رئیس بھائی کے گھر خطوظ کا تانتا بندھ گیا اور سات آٹھ سو کے قریب مطالبے آگئے -- ان درخواست نما خطوں میں میرا خط بھی شامل تھا -میں رئیس بھائی سے واقف نہیں تھا -

رئیس بھائی حیرت میں رہ گئے کہ یہ اشتہار کس نے چھپوایا ہے - جنگ اخبار والے کہہ رہے تھے کی یہ ان کی پالیسی کے خلاف ہے کہ چھپوانے والے کا نام بتا یا جائے - خیر رئیس بھائی کے اصرار پر انہوں نے نام بتادیا - رئیس بھائی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کیا کہ اللہ تعالٰٰی کی رضا ہے کہ میں مزید کام کروں اور ان نیک تعلیمات کو آگے پہنچاؤں - سو انہوں نےاسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور مزید کتابچے چھپوا کر طلب کرنے والوں کو بھیج دئے - ٹکٹ کے اخراجات خود برداشت کئے اس کے بعد اپنے ذاتی ( گھر کے نہیں - اپنے ذاتی ) اخراجات کم کئے اور ہر ماہ ہاتھ سے کتابت کر کے سب افراد کو ماہوار کتابچہ بنام ‘اپنی باتیں ‘ بھیجتے رہے - -یہ سلسلہ جاری رہا -

اس رسالے میں زیادہ تر مواد انہی نوٹس سے استفادہ کر کے لکھا جاتا تھا جو انہوں نے مختلف علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھ کر حاصل کئے تھے -

لیکن جب مہنگائی کے سبب اخراجات ان کے بس سے باہر ہوگئے تو اس ماہوار کتابچے کی ترسیل کے لئے کچھ معاوضہ ڈاک کی ٹکٹوں کی صورت میں رکھ دیا - وہ بھی نصف صاحبان ادا کرتے - اور نصف نہیں - لیکن رئیس بھائی نے اس کی اشاعت جاری رکھی اور سب کو رسالہ بھیجتے رہے - مہنگائی کا سانپ اپنی گرفت سخت کر رہا تھا اور جناب رئیس بھائی مقابلہ کئے جا رہے تھے - انہوں نے رسالہ سہ ماہی کر دیا لیکن اشاعت بند نہیں ہونے دی - خوبصورت بنانے کے لئے اس کا ٹائیٹل رنگین کردیا-

عمر ڈھلنے کے سبب اب ان کے ہاتھ کتابت میں ان کی مدد کر نے سے عاری ہو نے لگے اور اس وقت تک کمپیوٹر اردو کتابت آچکی تھی سو اب وہ اپنے اس رسالے کی کمپیوٹر سے کمپوزنگ کرانے لگے - زندگی کے آخری مہینوں میں جب آخر مہینوں میں جب صحت نے بالکل جواب دے دیا تو مجبور ہو کر اس رسالے کی اشاعت بند کردی -

میری ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں تھیں - وہ بھی اس رسالے کے واجبات ادا کرنے کے سلسلے میں اور ان سے واقفیت کا ذریعہ بھی وہی اشتہار بنا تھا جو جنگ اخبار میں شائع ہوا تھا - ان ہی رسالے سے اخذ کرکے میں نے کچھ اچھے مضامین انگریزی میں لکھے اور بیرون ملک سوفٹ ویر میڈیا میں چھپے - ان کے ایک چراغ سےکئی چراغ روشن ہوئے اور ان کی روشنی دنیا میں پھیلی -

مختار مسعود “آواز دوست“ میں لکھتے ہیں “افریقہ کے جنگلوں میں ایک شخص زندگی کے معنی تلاش کر رہا تھا - مغربی ساحل کے وسطی جنگل میں اس کی کشتی ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں پانی نایاب تھا ور مگر مچھ اتنی کثیر تعداد میں تھے کہ کشتی ان سے ٹکرائے بغیر آگے جا ہی نہیں سکتی تھی - تند خو اور خونخوار مگر مچھوں میں گھرا ہوا فلسفی غور کر رہا تھا کہ زندگی کو ایک حقیر مجبوری سے ایک بیش بہا قوت میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے - اسی سوچ میں اچانک اس کے احساس کو ایک واضح شکل مل گئی - وہ یہ کہ زندگی ایک عطیہ ہے جس کا کم از کم حق ادا کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ دوسروں کو اس میں حصہ دار بنایا جائے - “ جناب رئیس احمد مرحوم نے اپنے کتابت کے ہنر کو اس رسالے کی صورت میں ایک بیش بہا زندگی اور قوت میں تبدیل کر دیا تھا -

اللہ تعالی کے حضور میں بصد خوب خلوص دعا گو ہوں کہ مرحوم کی روح کو اپنی برکتوں کے جلو میں رکھے -ان کے لواحقین کے لئے بھی اچھی خواہشات اور نیک تمناؤں کی دعا ہے - آمین -- یا رب العالمین
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 332485 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More