قدیم زمانے میں دو پتھروں کی رگڑ سے چنگاری
پیدا کی گئی پھر آگ کی دریافت ہوئی ۔جہاں آگ کا دخل ضروریات زندگی کے لئے
بہت اہمیت کی حامل ہے وہیں آگ کا تصور ہماری زندگی میں منفی انداز کو جنم
دیتا ہے مثلاً بحیثیت مسلمان ہمیں برائی سے دور رہنے کا جب بھی درس دیا
جاتا ہے تو جہنم کی خوفناک آگ کا تصور ہمارے ذہنوں میں قائم کیا جاتا ہے تا
کہ ہم برائیوں سے فاصلہ بنائے رکھیں اس سلسلے میں قران کی ہدایت ہے کہ :"
وَ بُرّزَتِ الْجَحِیمُ لِلْغَاوِینَ۔۔۔"اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے
کھول دی جائے گی"۔ مسلمانوں کے لئے اس آیت کا تصور ہی کافی ہے کیونکہ جہنم
کی آگ دُنیا کی آگ سے کہیں زیادہ خوفناک ہوگی اس آگ سے نجات کا واحد راستہ
حضور اکرم حضرت محمد ﷺکی اسوہ حسنہ اور اُن پر نازل کی گئی کتاب "قران
مجید"کی ہدایت ہے۔لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جیسے جہنم کی آگ کا خوف
دلوں سے نا پیدہوچکا ہے اسی لئے آگ سے بنے ابلیسوں کا راج ہوگیاہے یہ ہی
وجہ ہے کہ اﷲ ذوالجلال نے اپنے ہی کہے ہوئے قول کے مطابق دلوں میں مہر لگا
دی ہے جسکے نتیجے میں ہر جانب آگ ہی آگ نظر آرہی ہے ہمارے پیارے ملک
پاکستان کو آگ کا گولہ بنا دیا گیا ہے، پاکستان میں اب قتل جیسے مکروہ عمل
کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے یہ خبریں اب روز کا معمول بن چکی ہیں اور ان
خبروں سے ہمارے اندر نہ تو کوئی دکھ کا احساس ابھرتا ہے اور نہ ہی کسی کی
تکلیف کا، صرف منہ سے اُف کی آواز نکلتی پھر ختم ،جس کی اہم وجہ ،شاید نہیں
یقیناً قساوت قلبی او ر دوزخ کی آگ کا ڈرکا نہ ہوناہے اور انہی اسباب کے
تحت ہمارے دلوں میں واقعی مہر لگ چکی ہے۔آگ سے کھیلنا ہمارا مشغلہ بن چکا
ہے ہم نے آگ سے اپنے گھر کو محفوظ رکھنے کا حل پیسوں کی بہتات کو سمجھ لیا
ہے اسی لئے تو کبھی وکی لیکس تو کبھی پنامہ لیکس تو کبھی کسی سیکریٹری وزیر
خزانہ کے گھر سے برآمد ہونے والے کروڑوں روپے،ڈالرز اور سونا برآمد ہونے
کاقصہ، تو کبھی شرجیل میمن کے فارم ہاوس سے اربوں روپے برآمد ہونے کا قصہ،
تو کبھی ایان علی ،تو کبھی ڈاکٹر عاصم کے قصے زد و عام ہیں ، تمام افسانوی
داستانوں کو شرما دینے والے داستانوں کے پیچھے جو کردارکا ر فرما ہیں انکے
دلوں میں نہ تو اپنے ملک میں لگی آگ کی فکر ہے اور نہ ہی جہنم کی آگ کا ڈر
، اُنھیں تو بس اس بات کی فکر کھائی جاتی ہے کہ اپنے گھر کو دُنیا کی آگ سے
کیسے بچانا ہے اسی سوچ نے ملک کو کرپشن کی آگ میں جھونک دیا ،پاکستان کے
تمام سیاست دانوں نے اپنی سیاست کا جو انداز اختیار کر رکھا ہے اس سے یہ
بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ملک کو آگ کا پتلا بنایا جا رہا ہے ہمارے سیاست دان
پتھروں کو رگڑ کر چنگاری پیدا کرنے کی قدیم روایات پر ابتک قائم ہیں ایک
دوسرے پر آگ بگولا ہونا اپنے فرائض میں سب سے پہلا فرض سمجھتے ہیں گالم
گلوچ کی چنگاری سے پیدا ہونے والی آگ اشتعال انگیزی،تشدد، بربریت ،نا
انصافیوں،کو جنم دے رہی ہے ۔
پاکستان کی سیاست میں جھوٹ بولنا اوربہتان لگانے کو سیاست کی پہلی سیڑھی
سمجھا جاتا ہے لغت میں جھوٹ بولنا،بہتان لگانے کو ـ"آگ پھانکنا "کہا گیا ہے
تو کیوں نہ ہم لغت کی پیروی کرتے ہوئے سیاست کا نام بدل کر "آگ پھانکنا
"رکھدیں۔ ہماری اپوزیشن جماعتیں حکومتی ٹھاٹھ باٹ کو دیکھ کر آگ میں لو ٹتی
رہتی ہے جب برداشت سے باہر ہو جاتاہے تو وہ آگ پھونکنا شروع کر دیتی ہیں
میڈیا میں بیٹھے سیاسی تجزیہ نگاروں کے دہن سے اُگلتے انگارے دیکھ کر ہم
سوچتے ہیں کہ" آگ اور روئی کی کیا دوستی" جب کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو
ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ" آگ جانے لوہار جانے"ہم تو دھونکنے
والے عوام ہیں ہماری بلا جانے۔کچھ نادان دوست ان کے آگ اگلنے کو عافیت سمجھ
کر اپنے آپ کو دوزخ کی آگ میں جھونک دیتے ہیں ہمارا اُن کو مشورہ ہے بھائی
آگ نہ اُگل لعل اُگل اسی میں ہماری ،تمھاری اور آنے والوں کی عافیت ہے ۔
"آگ کھائے منہ جلے،،ادھار کھائے پیٹ جلے " اس مثل کا مطلب ہے کہ قرض لیکر
پیٹ بھرنے سے پیٹ سخت تکلیف میں مبتلا رہتا ہے لیکن ہمارے حکمران تو قرض
لینے کو فخر سمجھتے ہیں اُنکے پیٹ میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی، وزیر خزانہ
صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں فخر ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دے دیا جناب
کی خوشی کی انتہا ہونے کی وجہ اُن کے اپنے اور اکابرین کے شاہانہ اخراجات
کی روانی کی خلل کو دور کرنا تھا لیکن اس آگ کی ان کو کیا فکر جو عوام کے
پیٹ میں جلن اور تکلیف میں اضافہ کر رہی ہے۔
ہم صرف سیاست میں ہی آگ سے بنے ابلیسوں کو کیوں ڈھونڈیں یہ تو ہمارے ارد
گرد تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں گھر سے نکلتے ہی ہمیں آگ کے انگارے
کھانے والے کبھی وردی تو کبھی بِنَا وردی والوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
وکلاء ،ڈاکٹرز، استاتذہ ،اسکولوں،کالجوں،یونیوسیٹیوں،ہسپتالوں کی آگ برساتی
فیسوں کا اور دوائیوں کی ہوشرُبا قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،تاجران
پاکستان کے دلوں کو بھی پیسوں کی ہوس نے بے رحم انگاروں کی مانند بنا دیا
ہے انھیں بھی جہنم کی آگ کی فکر نہیں انکا بھی دیوتا پیسہ ہی ہوتا ہے
۔اُجلے لباس اور اُجلے چہروں میں ہر سو آگ کے انگارے نظر آتے ہیں میلے
کچیلے تو بس آگ کے ایندھن ہیں۔لیکن "
ا ب بھی کچھ لوگ حق پہ چلتے ہیں
آندھیوں میں جیسے چراغ جلتے ہیں
"ملک میں الزامات کا کلچر پنپ رہا ہے ،منفی سوچوں کی آگ بلند ہوتی جا رہی
ہے "جناب چیف جسٹس صاحب نے آگ سے راکھ صاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اور اپنے
ہاتھ کو جلنے سے بچاتے ہوئے درست سمت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ لیکن جناب مثل
مشہور ہے کہ"آگ لگے تو بجھے جل سے،جل میں لگی آگ کیسے بجھے" بچوں کی اصلاح
تو کی جاسکتی ہے لیکن عادی مجرموں کی اصلاح نا ممکن ہے جنھیں نہ ملک میں
لگی آگ کا ادراک ہو اور نہ ہی وہ دوزخ کی آگ سے ڈرتے ہوں ـ"کیونکہ ہم نے
اُنکے دلوں پہ مہر ثبت کر دی ہے"القران |