خوشیوں کے تہوار

خوشیاں منانا ہر کسی کا حق ہے...محبت بڑھتی ہے تو معاشرہ امن کا گہوارا بنتا ہے...ہم روایتی لوگ ہیں...پاکستان ایک حسین ملک ہے جہاں ماضی کی کئی تہذیبوں کے آثار آج بھی موجود ہیں...جن کا ماضی تابناک ہوتا ہے...ان کو حال بہتر بنانے اور مستقبل کو مزید بہتر بنانے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی...خوشیوں کے تہوار امن کی خبر دیتے ہیں..بسنت خوشی کا تہوار ہے..پنجاب کا تہوارہے..لیکن پھرتمام تررعنائیوں کے باعث یہ دنیا کے مختلف ممالک میں باقاعدگی سے منایا جانے لگا...پاکستان ان میں سے ایک تھا...بسنت ویسے تو پاکستان کے تمام شھروں میں منائی جاتی.لیکن لاہور کی بسنت اپنی مثال آپ تھی...تاریخی عمارتوں کے اوپر رنگ برنگی پتنگیں اڑتیں تو سحر انگیز نظارہ دیکھنے کو ملتا...بو کاٹا کی آوازیں...روایتی لوک موسیقی کے ساتھ ساتھ انگریزی میوزک کی دھنیں اور بسنتی کپڑوں میں ملبوس منچلے...ایک جشن کا سماں ہوتا تھا ہر طرف...
پھر کیمیکل ڈور آگئ...بچوں کر گلے دھاتی ڈور سے کٹنے لگے...جشن سوگ میں بدلنے لگا..اور جب کام زیادہ خراب ہوا تو حکومت نے بسنت منانے پہ پابندی عائد کردی..اور اب یہ جشن منانے پہ پابندی ہے...
اب مسئلہ یہ ہے؟؟؟
کہ ایک بحث کا آغاز ہوگیا ہے
بسنت پہ پابندی ہونی چاھیے کہ نہیں..؟؟؟
جواب بہت آسان اور سادہ ہے کہ
نہیں....
لیکن گلے بھی نہیں کٹنے چاھیں...

حکومت کو بسنت منانے پہ پابندی لگانے کی بجائے دھاتی تار کے استعمال پہ پابندی لگانی چاھیے...انسان بجلی کا کرنٹ لگنے سے بھی مر جاتا ہے..لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بجلی کا کنکشن کاٹ دیا جائے ..بلکہ ننگی تاروں کو ڈھانپنا مسئلہ کا حل ہے...

آئے روز گاڑیوں کے حادثات ہوتے ہیں...کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں..لیکن سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد پھر بھی بڑھتی چلی جارھی ہے...ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے دوبارہ گھوڑوں اور خچروں پہ سفر شروع کردیا ہو...
قانون بنانا
اس پر عملدرامد کرانا حکومت کا کام ہے...
لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے....ہم چند لوگوں کی غلطی کی سزا سب کو دیتے ہیں...لیکن چند غلط لوگوں کو سزا نہیں دیتے...پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں خوشی کے تہواروں پہ بھی پابندی لگانا پڑتی ہے...اور پاکستان جیسے ملک میں ایسے تہواروں کو منانے کی کتنی ضرورت ہے .یہ بھلا کون نہیں جانتا...انتہا پسندی کے اس دور میں محبتیں پہیلانے کی کتنی ضرورت ہے ..کیا حکمران نہیں جانتے؟؟؟
بھلا وہ کیوں نہیں جانتے؟؟؟
ریاستیں ٹھوس فیصلے کرتی ہیں...قانون پہ عملدرامد کرانا ریاست کا کام ہے...لیکن کیا کیا جائے کہ ہر کوئی اپنا بوجھ دوسرے کے کندھے پر رکھ کہ خود بری الذمہ ہو جاتا ہے
ایسا پہلے بھی ہوتا آیا ہے...اور ایسا اب بھی ہو رھا ہے اور شاید ایسا آئندہ بھی ہوگا....سنجیدہ کو ششیں کون کرے گا؟؟؟ بسنت پہ پابندی کب ختم ہوگی؟؟؟
جب ریاست ذمہ دار ہوگی..ریاست کب ذمہ دار ہوگی ..جب حکمران ا پنی ذمہ داری نیک نیتی سے ادا کریں گے...ایسا کب ہوگا ..خدا جانے...!!!!
ہم تو صرف اتنا کہیں گے کہ بسنت منانے کی آزادی ہونی چاھیے..لیکن دھاتی تار سے گلے بھی نہیں کٹنے چاھیں..
محبتیں عام ہوں گی تو معاشرہ امن کا گہوراہ بنے گا...
جس کی اس وقت ضرورت ہے.....خوشیاں منانا ہر کسی کا حق ہے...محبت بڑھتی ہے تو معاشرہ امن کا گہوارا بنتا ہے...ہم روایتی لوگ ہیں...پاکستان ایک حسین ملک ہے جہاں ماضی کی کئی تہذیبوں کے آثار آج بھی موجود ہیں...جن کا ماضی تابناک ہوتا ہے...ان کو حال بہتر بنانے اور مستقبل کو مزید بہتر بنانے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی...خوشیوں کے تہوار امن کی خبر دیتے ہیں..بسنت خوشی کا تہوار ہے..پنجاب کا تہوارہے..لیکن پھرتمام تررعنائیوں کے باعث یہ دنیا کے مختلف ممالک میں باقاعدگی سے منایا جانے لگا...پاکستان ان میں سے ایک تھا...بسنت ویسے تو پاکستان کے تمام شھروں میں منائی جاتی.لیکن لاہور کی بسنت اپنی مثال آپ تھی...تاریخی عمارتوں کے اوپر رنگ برنگی پتنگیں اڑتیں تو سحر انگیز نظارہ دیکھنے کو ملتا...بو کاٹا کی آوازیں...روایتی لوک موسیقی کے ساتھ ساتھ انگریزی میوزک کی دھنیں اور بسنتی کپڑوں میں ملبوس منچلے...ایک جشن کا سماں ہوتا تھا ہر طرف...
پھر کیمیکل ڈور آگئ...بچوں کر گلے دھاتی ڈور سے کٹنے لگے...جشن سوگ میں بدلنے لگا..اور جب کام زیادہ خراب ہوا تو حکومت نے بسنت منانے پہ پابندی عائد کردی..اور اب یہ جشن منانے پہ پابندی ہے...
اب مسئلہ یہ ہے؟؟؟
کہ ایک بحث کا آغاز ہوگیا ہے
بسنت پہ پابندی ہونی چاھیے کہ نہیں..؟؟؟
جواب بہت آسان اور سادہ ہے کہ
نہیں....
لیکن گلے بھی نہیں کٹنے چاھیں...
حکومت کو بسنت منانے پہ پابندی لگانے کی بجائے دھاتی تار کے استعمال پہ پابندی لگانی چاھیے...انسان بجلی کا کرنٹ لگنے سے بھی مر جاتا ہے..لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بجلی کا کنکشن کاٹ دیا جائے ..بلکہ ننگی تاروں کو ڈھانپنا مسئلہ کا حل ہے...
آئے روز گاڑیوں کے حادثات ہوتے ہیں...کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں..لیکن سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد پھر بھی بڑھتی چلی جارھی ہے...ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے دوبارہ گھوڑوں اور خچروں پہ سفر شروع کردیا ہو...
قانون بنانا
اس پر عملدرامد کرانا حکومت کا کام ہے...
لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے....ہم چند لوگوں کی غلطی کی سزا سب کو دیتے ہیں...لیکن چند غلط لوگوں کو سزا نہیں دیتے...پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں خوشی کے تہواروں پہ بھی پابندی لگانا پڑتی ہے...اور پاکستان جیسے ملک میں ایسے تہواروں کو منانے کی کتنی ضرورت ہے .یہ بھلا کون نہیں جانتا...انتہا پسندی کے اس دور میں محبتیں پہیلانے کی کتنی ضرورت ہے ..کیا حکمران نہیں جانتے؟؟؟
بھلا وہ کیوں نہیں جانتے؟؟؟
ریاستیں ٹھوس فیصلے کرتی ہیں...قانون پہ عملدرامد کرانا ریاست کا کام ہے...لیکن کیا کیا جائے کہ ہر کوئی اپنا بوجھ دوسرے کے کندھے پر رکھ کہ خود بری الذمہ ہو جاتا ہے
ایسا پہلے بھی ہوتا آیا ہے...اور ایسا اب بھی ہو رھا ہے اور شاید ایسا آئندہ بھی ہوگا....سنجیدہ کو ششیں کون کرے گا؟؟؟ بسنت پہ پابندی کب ختم ہوگی؟؟؟
جب ریاست ذمہ دار ہوگی..ریاست کب ذمہ دار ہوگی ..جب حکمران ا پنی ذمہ داری نیک نیتی سے ادا کریں گے...ایسا کب ہوگا ..خدا جانے...!!!!
ہم تو صرف اتنا کہیں گے کہ بسنت منانے کی آزادی ہونی چاھیے..لیکن دھاتی تار سے گلے بھی نہیں کٹنے چاھیں..
محبتیں عام ہوں گی تو معاشرہ امن کا گہوراہ بنے گا...
جس کی اس وقت ضرورت ہے.....
 
Anmol Rashid
About the Author: Anmol Rashid Read More Articles by Anmol Rashid: 4 Articles with 2761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.