جو معاشرے گوناں گوں مسائل کا شکار ہوتے
ہیں ان معاشروں میں رہنے والے لوگ مختلف ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ہماری حکومت کا فرض ہے کہ معاشرے کے وہ گھمبیر،مسائل جو روز بروز بڑھتے ہی
جا رہے ہیں انہیں عوامی امنگوں کے مطابق حل کرکے معاشرے کے لوگوں کو فعال
بنائے تاکہ وہ ذہنی طور پر سکون حاصل کرکے معاشرے کا فعال رکن بن
سکیں۔ہمارا معاشرہ مختلف مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ اور اسکی تمام تر
ذمہ داری ہماری حکومت پر ہے جس نے عوام کو مختلف مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔
مہنگائی کا بڑھتا ہوا سیلاب ایک عام اور غریب آدمی کیلئے موت سے کم نہیں یہ
وہ مسلۂ ہے جو غریبوں اور محنت کشوں کیلئے تمام نفسیاتی مسائل کی جڑ ہے۔
ایسی صورت حال میں حکومت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے عوام کو اس غیر
یقینی صورت حال جو عوام کو ذہنی طور پر بیمار کرنے میں اہم کر دا ادا کر
رہی ہے جتنی جلد ہو سکے نکالے۔ ورنہ پورا معاشرہ ذہنی امراض کی آماجگاہ بن
جائیگا۔ حکومت کی نا اہلی نے پوری قوم کے بچے بچے کو بجلی فوبیا میں مبتلا
کر رکھا ہے۔ بیماری،بیروزگاری،گھریلوجھگڑے، جائیداد کے تنازعات،تعلیمی نا
انصافی، معاشرے میں پیسے کی غیر مساوی تقسیم، انصاف اور قانون کی راہ میں
حائل کرپشن ، معاشرے میں رونما ہونے والے دلدوز مناظر،انسانی ذہن پر
اثرانداز ہونے والے ناگہانی واقعات،بد امنی،بے سکونی،عدم تحفظ ، عدم
اطمینان،معاشی مسائل،فرقہ وارانہ فسادات ،ڈاکہ زنی، عورتوں کیساتھ ہونے
والی ذیادتیاں، عصمت دری، بد عنوانی، بلیک میلنگ،دھوکہ دہی، بے ایمانی،
حقوق کی پامالی، خود کش دھماکے، دہشت گردی ،آئے دن گلیوں اور بازاروں میں
ہونے والے قتل کے لرزہ خیز واقعات،ڈکیتی کی وارداتیں،پرس چھیننے اور موٹر
سائیکل چھیننے کی وارداتیں جب عام ہو جائیں تو اس معاشرے کے انسان
Depression(ذہنی دباؤ)Tension (ذہنی تناؤ،ذہنی کچھاؤ)
Anxiety(فکر،خوف،تشویش)جیسے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر دوسرا شخص ڈپریشن،ٹینشن اور خوف میں
مبتلا ہے۔تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حالت انتہائی خوفناک حد تک تشویش ناک ہے
اور ضرورت اس مر کی ہے کہ معاشرے میں امن و سکون اور معاشی وسماجی حالات کو
درست کرنے کیلئے ہمارے اکابرین معاشرے میں رہنے والے لوگوں کیلئے اپنا
کردار ادا کریں ورنہ سارا معاشرہ مختلف ذہنی امراض کی آماجگاہ بن جائیگاجو
ہمارے معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا۔ یہ خطرناک صورت حال ہمارے معاشرے
میں لوگوں کو ہیروئن، افیون، چرس، سگریٹ اور شراب نوشی کی طرف دھکیل رہی ہے
اور نشے کا عادی کر رہی ہے اور ایسے لوگوں کی تعدادانتہائی تیزی سے بڑھ رہی
ہے جس پر ہر سال اربوں روپیہ خرچ ہو جاتاہے۔
بعض اوقات ہم ذہن کی مختلف کیفیات کو آپس میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں جس سے مذید
پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور ہم ذہنی دباؤ، ذہنی خوف،اور ذہنی تناؤ اور
کھچاؤ کے فرق میں تمیز نہیں کر پاتے حالانکہ یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے
بالکل مختلف ہیں انکا جاننا ہمارے لئے انتہائی اہم اور ضروری ہے انکا تعلق
ہماری نفسیاتی الجھنوں سے ہے جو ذہنی امراض کے زمرے میں آتی ہیں۔ جب تک ہم
یا ہمارا معالج ان تینوں کے بارے میں مکمل طور پر جانکاری نہیں کر پائینگے
اور انمیں فرق محسوس نہیں کرینگے ہم امراض کی صحیح طور پر تشخیص نہ کر
پائینگے اور ان امراض کو آپس میں گڈ مڈ کرتے ہوئے مریض کیلئے مشکلات پیدا
کرنے کا باعث ہونگے۔آئیں دیکھیں کہ ان میں کیا فرق ہے۔
ڈپریشن(یعنی ذہنی دباؤ) جو نفسیاتی اور ذہنی مرض ہے جس میں اس سے متاثرہ
شخص بہت ذیادہ غمزدہ ہوتا ہے، احساس کمتری یا پھر احساس ندامت کا شکار ہو
جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کی سرگرمی میں حصہ لینے کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے،
اکیلے پن کا شکار ہو جاتا ہے ، ہر چیز سے احتراز برتتا ہے،کسی بھی کام کرنے
کو دل نہیں چاہتا، ارد گرد کی چیزیں اچھی نہیں لگتیں۔یہاں تک کہ دوستوں
عزیز و اقارب اور اپنے ہی بچوں سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔کام کرنے کی
استعداد اور صلاحیت صفر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اپنی ازدواجی زندگی کو صحیح طرح
سے لطف اندوز نہیں کر پاتا۔ یہانتک کہ بعض اوقات ایسے لوگوں کا رجحان خود
کشی کی طرف چلا جاتا ہے اور وہ اپنے آپکو ختم کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے
ہیں اور اپنے آپکو معاشرے کا کمترین حصہ تصور کرتے ہوئے بعض اوقات وہ خود
کشی بھی کر لیتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق ایسے لوگ جو ڈپریشن کا شکار ہوتے
ہیں وہ نہ صرف ذہنی ا مراض کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ انکی جسمانی صلاحیت
اور کھانے پینے کی صلاحیت بھی بہت حد تک کم ہوجاتی ہے اور وہ شکل سے بیمار
لگتے ہیں اور انکی حرکات و سکنات اور بولنے چالنے کا انداز بھی بہت مختلف
ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی باتوں میں مایوسی اور اکیلے پن کا اظہار ہوتا ہے
اور ہمارے جیسے ملک میں جہاں پر ہر شخص مختلف معاشرتی اور معاشی مسائل کا
شکار ہے کم از کم ہر دوسرا شخص اس ذہنی مرض کا شکار ہے ۔ اس مرض کے شکار
لوگوں پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں مگر جب تک معاشرے میں رونما
ہونے والے حالات کسی صحیح سمت کی طرف نہیں جاتے یہ مرض کم ہونے کی بجائے
بڑھتا چلا جائیگا۔یہ بیماری ہر عمر اور معاشرے میں رہنے والے مختلف لوگوں
کی زندگیوں پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔یہ مرض ہمارے معاشرے میں
عورتوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔کچھ ماہر ڈاکٹر اور نفسیات دان اسے
عورتوں کی ہارمون کی بیماری کہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کچھ ماہر نفسیات اسے
معاشرے میں عورتوں کی وابستہ امیدوں میں ناکامی کی وجوہات بھی بتاتے ہیں۔ہر
دو صورتوں میں اسکا تعلق عورتوں کی نفسیاتی الجھنوں اور معاشرتی نا ہمواری
سے ہے۔
گو کہ یہ مرض بچپن سے لیکر بڑھاپے کی عمر تک کے تمام اشخاص کو ہو سکتا ہے ۔عموماً
یہ مرض بیس سے تیس سال کی عمر کے لوگوں میں ذیادہ تر دیکھنے میں آیا ہے۔
عمر کے لحاظ سے اسکی علامات مختلف ہو سکتی ہیں۔ جسمیں بھوک کا نہ لگنا،
نیند کا نہ آنا، سر درد،پٹھوں کا کھچاؤ،افسردگی،اسکول جانے سے کترانا،اپنی
ملازمت سے گھبرانا،جسمانی طاقت میں کمی واقع ہو جانا، ذیادہ عمر کے لوگ
ذیادہ تر جذباتی مسائل کی بجائے جسمانی شکایات کرتے ہیں ماہر نفسیات یا
ڈاکٹر حضرات کو ایسے مریضوں کی فراہم کردہ غلط معلومات سے صحیح طور پر مرض
کی تشخیص کرنے میں مشکل درپیش ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ ماہر نفسیات یا پھر ڈاکٹر
کا فرض بنتا ہے کہ وہ مریض سے تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس سے انتہائی نرم
لہجے میں بات کرے اور مریض کو بغیر کسی محسوسات کے اسکی تحقیق کرکے مرض کو
جاننے کی کوشش کرے ورنہ مریض کیلئے یہ بات انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔جس سے
مریض عمر بھر کیلئے اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈپریشن کی بیماری موروثی بھی ہوتی ہے بعض
اوقات دوران مطالعہ ماہرین کو اس بات کی شہادتیں بھی ملی ہیں کہ ذہنی دباؤ
میں جینیاتی اثر کا بہت حد تک عمل دخل ہوتا ہے ۔ دماغ میں جینیاتی عمل کی
بے قاعدگی بھی دماغی عمل کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ
دماغ کے کیمیائی مادوں کی بے قاعدگی اور با قاعدگی انسان کی دماغی صلاحیت
اور کیفیت ، جذبات و احساسات کی سرگرمیوں میں اہم کردا کرتے ہیں۔ایسے
کیمیائی مادے جنمیں ڈوپامائن اور سروٹانن شامل ہیں اعصابی نظام میں پیغام
رسانی کے فرائض انجام دینے میں اپنا کردا کرتے ہیں۔ دماغ کے مختلف حصوں میں
بہنے والے ایسے کیمیائی مادے جو دماغ کے مختلف غدودوں سے خارج ہوتے ہیں اگر
وہ معمول سے کم ہوں تو مریض پر ڈپریشن کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔علم الحیات
کے مطابق ڈپریشن کی ایک وجہ لوگوں کے سوچنے اور رہنے سہنے کا انداز بھی ہو
سکتا ہے یا پھر کسی قسم کا نقصان یا اپنے کسی مقصد میں ناکا م ہوجانے کی
وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
ڈپریشن کے مرض کا علاج نفسیات اور اینٹی ڈپریشن ادویات سے کیا جاتا ہے ۔
موثر اور جدید ادویات اور علاج ہونے کے باوجود بعض اوقات ڈاکٹر اپنے مریض
کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور صحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے یہ
مرض لا علاج رہ جاتا ہے جس سے مریض کو بجائے فائدہ پہنچے کی نقصان ہوتاہے۔
نوجوانوں اور بچوں کی نسبت ڈپریشن کا علاج عمومی طور پر ذیادہ عمر کے لوگوں
میں ذیادہ موثر ہوتا ہے۔ ڈپریشن کے مرض کی ادویات کے اثرات دو سے تین ہفتے
کے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ڈاکٹر کسی بھی مریض کے بارے میں پیش گوئی کرنے سے
قاصر ہیں کہ کس مریض کو کونسی اینٹی ڈپریشن ادویات سے افاقہ ہو سکتا ہے اور
بعض اوقات یہ ادویات بار بار بدلنی پڑتی ہیں۔ اینٹی ڈپریشن ادویات کا ذیادہ
استعمال مریضوں میں
مضر اثرات پیدا کرتا ہے۔ ان ادویات کے استعما ل سے سر میں چکر آنا، نیند کا
غلبہ طاری ہونا اور ہر وقت غنودگی کا عالم رہنے جیسی علامات پائی جاتی ہیں
تاکہ مریض سکون سے رہے اور اسکے ارد گرد کے ماحول سے پیدا ہونے والے ان
حالات جن سے وہ ڈپریشن میں مبتلا ہوا ہے ان کو بھلایا جا سکے اور اعصاب کو
سکون حاصل ہو سکے۔ایسے مریض جنکا علاج ادویات اور نفسیاتی عمل سے ہونا نا
ممکن ہو جاتا ہے انکا علاج بذریعہ برقی رو کیا جاتا ہے جسے انگریزی
میں(electroconvulsive threapy (ETC) کہتے ہیں اس علاج میں مریض کے دماغ
میں انتہائی خفیف سابجلی کا کرنٹ چند سیکنڈ کیلئے دوڑایا جاتا ہے تاکہ دماغ
میں پیدا ہونے والی ڈپریشن کی کیفیت کو روکا جا سکے۔ یہ علاج انتہائی ماہر
ڈاکٹر سے کروانا چاہئے کیونکہ اسکی ذرا سی بے احتیاطی ایک انسان کو عمر بھر
کیلئے یادداشت کی کمزوری اور مختلف دماغی ا مراض میں مبتلا کر سکتی ہے جس
سے مریض کا دماغ درہم برہم ہو سکتا ہے۔اسلئے انتہائی اچھے معالج کا انتخاب
کیا جانا بہت ضروری ہے بعض معالج ایسے مریضوں پر مختلف قسم کے تجربات کرکے
انہیں عمر بھر کیلئے پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں ایسے لالچی ، بے رحم
اور نا تجربہ کار معالجوں سے احتراز کرنا چاہئے۔معالج جتنا ذیادہ تجربہ کار
ہوگا اور وہ معاشرے میں پیدا ہونے والے حالات سے آگاہی رکھتا ہوگا وہ اتنا
ہی ذیادہ اپنے پیشے میں مہارت رکھتا ہوگا اور لوگوں کے نفسیاتی مسائل کوحل
کرنے میں اتنا ہی مدد و معاون ثابت ہوگا۔
ذہنی تناؤ یا کچھاؤ(Tension / stress) دماغ کی ایسی حالت جس میں مریض کے
ذہن میں کسی بھی رو نما ہونے والے نا خوشگوار واقعے کی وجہ سے تناؤ یا
کھچاؤ پیدا ہو جائے اور اسکے اعصاب میں شدید اکڑاہٹ اور کچھاؤ ہو۔ وہ
افسردہ اور غمگین ہو جائے اور وہ اس کیفیت کو اس حد تک پنے اوپر طاری کرلے
کہ وہ اپنی خوشگوارزندگی کیلئے خطرہ یا اندیشہ محسوس کرتا ہو یہ کیفیت ذہنی
تناؤ کہلاتی ہے ۔ ذہنی تناؤ یا کھچاؤ کا مطلب مختلف لوگوں کیلئے مختلف ہوتا
ہے۔ کچھ لوگ ذہنی تناؤ کی حد بندی مختلف حالات میں ہونے والے مختلف واقعات
کی وجوہات سے کرتے ہیں یہ نا خوشگوار واقعات ایسے لوگوں کو ذہنی تناؤ یا
کھچاؤ میں مبتلا کر دیتے ہیں جس سے ان لوگوں پر منفی اثرات ہوتے ہیں اور وہ
اس ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے اعصابی تناؤ کا شکار رہنے لگتے ہیں جس سے
ایسے مریضوں کے سر ،آنکھوں اور جسم میں کھچاؤ اور تناؤ رہنا شروع ہو جاتا
ہے اور ان پر غصہ طاری رہتا ہے اور کسی سے بات کرتے ہوئے گھبراہٹ محسوس
کرتے ہیں ۔ ایسے مریضوں میں دل کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، اعصابی تناؤ بڑھ
جاتا ہے، کسی بھی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا،بھوک میں کمی واقع ہو جاتی ہے،
کسی سے بھی بات کرنے کو جی نہیں چاہتا، بے چینی اور بے کلی بڑھ جاتی ہے اور
ایسے مریضوں کے رویے اور لہجے میں بد دلی پائی جاتی ہے ۔ ذہنی طور پر ادھیڑ
پن کا شکار رہتے ہیں۔ علم الحیات کے ماہرین اس ذہنی تناؤ کو مریض کی ذہنی
کیفیت جس میں وہ مبتلا ہوتا ہے اور وہ بیان کرتا ہے اس کو مد نظر رکھ کر
اسکا علاج شروع کرتے ہیں۔ اب یہ مریض کی بیان کردہ حالت پر یا پھر اس ماہر
ڈاکٹر پر منحصر ہے کہ کیا وہ مریض کی ذہنی حالت کو صحیح طور پر تشخیص کر
پایا ہے اور ڈاکٹر یا ماہر نفسیات اس مرض کا علاج کیسے کرتا ہے۔ ذہنی تناؤ
مختلف لوگوں میں مختلف طرح کا پایا جاتا ہے۔ یہ مریض پر منحصر ہے کہ وہ کن
چیزوں سے ذہنی کھچاؤ کا شکار ہوتا ہے۔ آجکل ذہنی تناؤ عام لوگوں میں عمومی
طور پر پایا جاتا ہے۔ہم جب بہت ذیادہ مصروف ہوتے ہیں یا پھر ہم پر کسی کام
کا دباؤ ہو تو ہم میں سے بعض لوگ ذہنی تناؤ کا شکا ر ہوجاتے ہیں اور وہ
اعصابی کھچاؤ اور سر درد کی شکایت کرتے ہیں، یا پھر جب ہم کسی دوست یا اپنے
ساتھ کام کرنے والوں کیساتھ کام کے دوران یا پھر ویسے ہی گفتگو کر رہے ہوتے
ہیں اور کوئی بات نا پسند ہو تو بھی ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، بعض
اوقات کوئی بھی شخص کسی وجہ سے اپنی انا کے مجروح ہونے یا پھر اپنی بے عزتی
پر ذہنی تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے،کسی عزیز کی موت بھی انتہائی ذہنی کھچاؤ
کی وجہ بن سکتی ہے۔
ذہنی تناؤ کے منفی اور مثبت دونو ں اثرات ہو سکتے ہیں۔اصل میں یہ ہمیں وقت
سے پہلے خطرات سے آگاہی بھی دیتے ہیں اور مستقبل میں درپیش خطرات کی پیش
بینی کیلئے تیار کرتے ہیں۔ مختلف چیزوں کے خطرات ہمیں ان سے مقابلہ کرنے یا
پھر ان سے پرہیز کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ذہنی تناؤ بعض اوقات کسی خوف
کی وجہ سے ہمارے مشکل کاموں کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرنے کا باعث بھی
بنتے ہیں۔ذاتی تعلقات میں بعض اوقات ذہنی تناؤ ہمیں دوستوں ، عزیز و اقارب
اور ملنے جلنے والوں کیلئے ہمارے رویے میں تعاون،لچک یا پھر ہمارے رویوں کو
جارحانہ بھی بنا سکتا ہے اور یہ حالات پر منحصر ہے۔ اگر ذہنی تناؤ کا علاج
نہ کروایا جسکے تو یہ ہمیں کسی بھی نا گہانی خطرناک صورت حال سے دوچار کر
سکتا ہے۔ ذہنی دباؤ انتشار خون ،دل کے امراض اور معدے کے امراض اور دوسرے
مختلف امراض میں مبتلا کرکے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی
حالت میں فوراً کسی اچھے معالج اور ماہر نفسیات سے رابطہ کرکے اس مرض کا
علاج کروانا بہت ضروری ہے ورنہ اگر یہ بیماری اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو
جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ایسے حالات و وقعات جو کسی شخص کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کرتے ہیں وہ ذہنی
تناؤ کا ماخذ کہلاتے ہیں۔ ذہنی تناؤ اور کھچاؤ کی شدت اور اسکا دورانیہ
مختلف لوگوں میں مختلف ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ چند لمحات کا ہوتا ہے اور بعض
اوقات یہ لمبے عرصے پھر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی
اہم کام کیلئے جا رہے ہیں اور آپ ٹریفک کے ہجوم میں پھنس جاتے ہیں اور دیر
ہونے کا اندیشہ ہو تو یہ ایسی حالت میں یہ کھچاؤ وقتی طور پر ہوتا ہے اور
جب ٹریفک کے ہجوم سے نکل جائیں تو یہ کیفیت عام طور پر ختم ہو جاتی ہے اب
یہ آپکے کام پر منحصر ہے کہ آپ کے کام کی نوعیت کیا ہے اگر آپکا کوئی عزیز
و اقارب کسی بیماری کیوجہ سے ہسپتال میں داخل ہے اور آپ اسکے لئے دوائی یا
پھر خون کا بندو بست کرنے کیلئے جا رہے ہیں تو ایسی صورت حال میں یہ
انتہائی تشویشناک بھی ہو سکتی ہے۔ ہر مشکل اور ہر صعوبت جو کسی کو ذہنی
تناؤ میں مبتلا کردے شاید وہ دوسرے کیلئے ذہنی تناؤ یاکھچاؤ کا باعث نہ ہو۔
شاید اگر کسی کے والدین بیمار ہوں تو وہ اسکے لئے انتہائی ذہنی کھچاؤ کا
باعث ہو اور وہ گہرے کھچاؤ میں مبتلا ہو جائے مگر یہی حالت شاید کسی اور
کیلئے اتنی گہری یا شدید نہ وہ ۔ ذہنی تناؤ کی گہرائی اور شدت کا تعلق
انسان کی حساسیت اور تعلقات اور رشتوں سے ہے ۔ اسی طرح اگر ایک طالب علم
امتحان میں فیل ہو جاتا ہے تو وہ ذہنی تناؤ میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر اگر
یہ حالت کسی دوسرے طالب علم کے ساتھ ہو تو شاید وہ اسے ذیادہ اہمیت نہ دے
اور یہ چیز اسکے لئے کسی ذہنی کھچاؤ کا باعث نہ بنے۔ یہ انسان کی قوت
برداشت اور اسکے معاشی، سماجی اور معاشرتی حالات پر منحصر ہے ۔ قوت برداشت
جتنی ذیادہ ہوگی اعصاب اتنے ہی ذیادہ مضبوطی سے کام کرینگے۔جو لوگ اکیلے پن
کا شکار ہوجاتے ہیں ان پر بھی یہ کیفیت طاری ہو سکتی ہے۔
ذہنی تناؤ پیدا کرنے والے عوامل کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
تباہ کن حالات۔ انسانی زندگی میں ی بڑی بڑی تبدیلیاں۔روزمرہ درپیش آنے والے
ناقابل برداشت حالات۔بہت سے لوگوں کیلئے ماضی کی تلخ یادیں بھی بعض اوقات
سوہان روح بن جاتی ہیں اور وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ناگہانی مصیبت،خاندانوں میں ردو بدل ،انتہائی قریبی رشتے داروں اور پیاروں
کا آپس میں بچھڑجا نایا پھر کسی بھی وجہ سے ایکدوسرے سے دور ہو جانا،کسی
انتہائی قریبی عزیز کی موت،بعض اوقات اگر کسی شخص کی اہم عہدے پر اچھی
تنخواہ پر تعینانی یا پھر بڑے عہدے پر ترقی ہوجانا بھی ذہنی کھچاؤ اور تناؤ
کا باعث بن سکتاہے کہ وہ اس عہدے پر ترقی پانے کے بعد اپنے ساتھیوں کیساتھ
کام کرنے سے گھبراہٹ محسوس کرتا ہے اسکے ذہن پر یہ کھچاؤ ہوتا ہے کہ وہ
اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو کیسے کنٹرول کریگا۔ اسطرح وہ اسی تناؤ کی
کیفیت میں دن رات یہی سوچتا رہتا ہے اور وہ ذہنی طور پر بیمار ہوکر احساس
کمتری کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔روزمرہ کی زندگی میں بہت سے لوگ شور کیوجہ سے
ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں، کچھ لوگ کام کی ذیادتی کیوجہ سے ذہنی تناؤ میں
مبتلا رہتے ہیں، کچھ لوگ دولت حاصل کرنے کے چکر میں ذہنی کھچاؤ کا شکار
رہتے ہیں جن لوگوں کے پاس دولت ہوتی ہے وہ اسے دوگنا کرنے کے چکروں میں
ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں ۔ کچھ لوگ لمبی لائین میں لگنے سے ذہنی کھچاؤ
کا شکار رہتے ہیں۔ لوگوں کی یہ ذہنی کیفیت حالات پر منحصر ہے کہ انکے ارد
گرد کا ماحول کیسا ہے۔ کچھ لوگ انتہائی حساس ہوتے ہیں ، کچھ لوگ بے حسی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی بڑی باتوں کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور ذہنی تناؤ سے
آزاد اپنی ذندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ خاص طور پر ذہنی تناؤ کا شکار ہوکر خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور
انکے ذہن پر ایک بوجھ سا سوار رہنے لگتا ہے اور اکثر سوچوں کے تانے بانے
بنتے رہتے ہیں اور اکثر دانتوں سے اپنے ناخن کترتے رہتے ہیں یا پھر دیر دیر
تک ناک میں انگلی پھیرتے رہتے ہیں اور انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول میں
رہنے والے لوگوں کا خیال تک نہیں ہوتا۔بعض ذہنی تناؤ کے شکار لوگ اپنی
جسمانی اور کپڑوں کی صفائی کے بارے میں بہت ذیادہ حساس ہوتے ہیں یہاں تک کہ
اگر کسی سے ہاتھ ملا لیں تو فورا ً ہاتھوں کو دھوئے بغیر انہیں چین نہیں
آتا، ایسے لوگوں کے ہاتھ پاؤں اکثر ٹھنڈے رہتے ہیں۔ جسمانی حالت تندرست
نہیں ہوتی، منہ خشک رہتا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے۔ ایسے لوگ دوسروں سے
اپنے بارے میں خواہ مخواہ ہمدردانہ رویے کی توقع رکھتے ہیں اور اپنے آپکو
بہت ذیادہ قابل رحم سمجھتے ہیں۔ ذہنی کھچاؤ کیوجہ سے دماغ کا درمیانی حصہ
جو دماغ میں موجود غدودوں سے اخراج ہونے والے مادوں اور ہارمونز کو کنٹرول
کرتا ہے وہ متاثر ہوتا ہے اور اسطرح جسم میں کاربو ہائیڈریٹس اور روغنیات (چربی)
کے عمل کو متاثر کرکے انسانوں میں مختلف قسم کی بیماریاں مثلاً زیابیطیس،
فشار خون، پٹھوں کا کمزور ہو جانا، جسم میں لا غر پن ہوجانا ، اکثر درد سر
رہنا، نگاہ کا کمزور ہو جانا، عورتوں کی بچے دانی میں رسولیوں کا پیدا ہو
جانا، دماغ میں اکثر درد رہنا یا پھر دماغ میں رسولی کا بن جانا اورمعدے کے
امراض جن میں السر کا ہو جانا وغیرہ پیدا کرتا ہے۔
کچھ لوگوں پر یہ کیفیت وقتی طور پر طاری ہوتی ہے جسے وہ از خود سنبھال لیتے
ہیں۔ بعض اوقات دوستوں ،عزیزوں اور ملنے جلنے والوں کی مدد سے بھی ذہنی
تناؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خوش رکھنے ، انہیں خوشگوار باتیں
کرکے انکا دھیان تبدیل کرنے سے ، انہیں کھیل کود میں مصروف رکھنے سے، فلم
بینی اور ایسے ڈرامے دیکھنے سے جن میں ہر طرح سے مزاح اور خوشی کا پہلو
نمایاں ہو، کتابیں پڑھنے سے، صبح کی سیر کے وقت پھولوں کو دیکھنے سے اور
اسی طرح بہت سی خوشگوار موڈ پیدا کرنے والی باتوں سے ایسے مریضوں کی مدد کی
جاسکتی ہے جس سے کافی حد تک افاقہ ہوتا ہے۔
بائیو فیڈ بیک ایک ایسی تیکنیک ہے جو ایسے مریضوں کو رضا کارانہ طور پر
ذہنی انتشار ، کھچاؤ اور ذہنی تناؤ سے باہر لانے کیلئے اہم کردار ادا کرتی
ہے ۔ ایسے مریضوں کیلئے بلڈ پریشر، جسمانی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا،
پٹھوں اور عضلات کا تناؤ، دل کی دھڑکن عمومی طور پر رضاکارانہ طور پر ان پر
قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ فیڈ بیک تیکنیک میں اسطرح کے مریضوں کو ایک
ایسی مشین کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے جو ایک خاص درجے پر پہنچ کر ڈیجیٹل
سکرین پر ہر منٹ کے بعد ایک خفیف سا شور کر کے اپنی طرف راغب کرواتی ہے۔
دوسرے لوگ اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اسے سیکھتے ہیں اور
اسطرح وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرنا سیکھ جاتے ہیں اسکے علاوہ اور بہت سی
تیکنیک ہیں جن کے ذریعے مریض کو ذہنی کھچاؤ سے سکون ملتا ہے مثال کے طور پر
خاص قسم کا میوزک سننے سے، نفسیاتی علاج، عمل تنفس کے ذریعے ایک خاص طریقے
سے سانس لینے سے ، خاموش ہوکر ایک پر سکون کمرے میں بیٹھ کر آنکھیں بند
کرکے آہستہ آہستہ سانس لینے سے جسم کے پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑنے سے ، مراقبہ
کرنے اور یوگا کرنے سے بھی اسطرح کے مریضوں کو سکون ملتا ہے۔ ایسے لوگ جو
سیر کرتے ہیں ،ورزشیں کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر اور ماہر نفسیات ایسے مریضو کیلئے
دن میں تین سے چار مرتبہ ورزش اور سیر کے علاوہ یوگا اور خیالات کو یکجاہ
کرکے آہستہ آہستہ سانس لینے کی تلقین بھی کرتے ہیں جس سے یہ مریض کافی
افاقہ محسوس کرتے ہیں اور وہ اس حالت سے آہستہ آہستہ باہر آجاتے ہیں۔
فکر،تشویش،پریشانی، خوفAnxiety ) ( ایسی دماغی حالت جس میں کوئی شخص ہر وقت
اضطرابی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے اورایسے لوگوں پر ایک انجانا سا خوف مسلط
رہتا ہے۔ ایسی پریشانی اور خوف کی کیفیت انسان پر اسوقت طاری ہوتی ہے جب وہ
اسکے لئے پہلے سے تیار نہ ہو یا پھر اسے یقین نہ ہو کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے
اور یہ انکے لئے خطرناک ہو یا پھر وہ ایسی صورت حال سے دوچار ہونے کیلئے
انتہائی خوف ذدہ ہوں۔مثال کے طور پر ایک طالب علم امتحان کے نتیجے سے
خوفزدہ ہوتا ہے کہ نہ جانے نتیجہ کیسا آئے اور وہ کہیں فیل ہی نہ ہو جائے
یا پھر اسکے ذہن پر سفر کرتے ہوئے یہ خوف طاری ہو کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو
جائے اور وہ دوران سفر فکر اور تشویش میں مبتلا رہتا ہے۔ بچوں میں یہ کیفیت
اسوقت پائی جاتی ہے جب وہ کوئی ایسا غلط کام کر لیں جس کے باعث وہ اپنے
والدین سے خوف ذدہ ہوں کہ اب انہیں مار پڑے گی ۔ اسی طرح کچھ ملازمین کے
دماغ پر اپنے افسر کا خوف طاری ہوتا ہے کہ کہیں مجھے ملازمت سے فارغ نہ کر
دیا جائے۔ کسی بڑے حادثے یا ناگہانی صورت حال سے دوچار ہونا مثلاً زلزلے کا
خوف،سڑک پر چلتے ہوئے کسی گاڑی وغیرہ سے ٹکراجانے کا خوف، کسی طرف سے اچانک
گولی کے لگنے کا خوف یا پھر کوئی بم دھماکے کا خوف، دماغ پر کسی خود کش
حملے کا خوف سوار ہونا اور ہر ایک وہ شخص جو اسطرح کے حملہ کرنے والوں کا
ہم شکل ہو اس سے خوف کھانا، بچوں کا اسکول میں اپنے استاد سے خوف کھانا اور
خواب میں ڈر جانا اسی طرح ایسے لوگ جن پر اسطرح کا خوف طاری رہتا ہے وہ
خواب میں چیخیں مار کر اٹھ جاتے ہیں اور کافی دیر تک اسی کیفیت میں مبتلا
رہتے ہیں۔ چہرے پر خوف کے آثار طاری ہوتے ہیں اور پسینے میں شرابور ہو جاتے
ہیں۔
اسکے علاوہ اسطرح کی اور بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جو اسطرح کے لوگوں کو
خوف میں مبتلا رکھتی ہیں۔یہ صورتحال ایسے لوگوں کو ہر وقت پریشان کئے رکھتی
ہے اور یہ انسانی دماغ اور جسم کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ ایسی حالت میں
انسان گھبرا کر ایک دم خوفز دہ ہو جاتا ہے۔کم از کم تمام ہی انسان ایسی
کیفیت سے دوچار ہو سکتے ہیں مگر انکی شدت میں فرق ہو سکتا ہے کچھ لوگ وقتتی
طور پر ایسی حالت میں مبتلا ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ مستقل اس کیفیت سے دوچار
رہتے ہیں ایسی حالت میں کسی ماہر نفسیات یا پھر ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کرنا
بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ خوف کی اس حالت سے مریض کو باہر
نکالنے کیلئے ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ مریض مطمعن ہو اور وہ اس کیفیت
سے باہر آسکے۔ ایسے مریضوں کو ہمدردی کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ خوف کی
علامات ہر شخص میں مختلف پائی جاتی ہیں اور یہ مختلف لوگوں پر مختلف طرح سے
اثر انداز ہوتی ہیں یہ ضروری نہیں کہ اگر ایک شخص کسی چیز سے خوفزدہ ہے تو
دوسرا بھی خوفزدہ ہو۔ خوف اور تشویش کیلئے کسی عمر کی قید نہیں لگائی جا
سکتی یہ مختلف معاشروں میں مختلف طرح سے اثر پزیر ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے
میں جہاں پر قدم قدم پر مختلف طرح کے خوف لوگوں کے دماغ پر سوار ہیں ایک
اندازے کے مطابق 80% لوگ کم یا ذیادہ ایسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ جس
معاشرے میں ہر وقت خود کش دھماکوں اور بم دھماکوں کے خوف سے انسان گھر سے
باہر نہیں نکل سکتے ، مائیں اپنے بچوں کو اس خوف سے اسکول یا پھر بازار میں
نہیں بھجتیں کہ نہ جانے اگر بچہ باہر چلا بھی جائے تو وہ واپس بھی لوٹ کر
آئیگا یا نہیں ایسے معاشرے میں بہت ذیادہ آبادی اس ذہنی بیماری سے دوچار
ہوتی ہے۔ذہنی امراض اور نفسیات کے ماہر ڈاکٹر تشویش اور خوف کی مختلف
حالتیں بیان کرتے ہیں جنمیں دماغ کا متاثر ہونا،ہول اٹھنا،دماغ پر خوف کا
سوار ہونا، کسی کام کا مجبوری کے عالم میں نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا اور خوف
میں مبتلارہنا، ہوائی جہاز یا پھر الیکٹرانک سیڑھیوں پر چڑھنے یا اترنے سے
خوف ذدہ ہونا، ٹرین پر سفر کرتے وقت خوفزدہ ہونا ، پہلے سے اپنے ذہن پر خوف
طاری کر لینا کہ اگر یہ کام کیا تو کچھ ہو نہ جائے وغیرہ وغیرہ۔عام حالات
میں روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے حالات مثال کے طور پر مالی حالات کا
خوف،کاروبار میں گھاٹے کا خوف،اپنی اور اپنے بچوں کی بیماری کا خوف۔ خواہ
مخواہ خوف کو اپنے اوپر سوار کرکے یہ تصور کر لینا کہ کوئی مجھے مار ڈالے
گا یا پھر پیسہ ہونے کے با وجود یہ خوف سوار ہونا کہ کوئی اسے چھین نہ لے۔
بعض اوقات کام کے دوران زرا سی آہٹ یا پھر دروازے کے اچانک کھٹکنے سے
خوفزدہ ہو جانا،جن لوگوں کے ذہن پر زلزلے کا خوف سوار ہو تا ہے وہ ذرا سی
آواز پر خوفزدہ ہو جاتے ہیں ، جنگی حالات کا لوگوں کے ذہنوں پر اثر ہونا
اور ان پر اس بات کا خوف سوار رہنا کہ کہیں سے کوئی گولا یا پھر راکٹ یا
میزائیل ہی نہ آن گرے۔ اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا خوف جس کا حملہ بعض اوقات
انتہائی شدید ہوتا ہے اور مریض اپنے پیاروں سے گلے مل کر چیخیں مار مار کر
روتا ہے۔بار بار انہیں چومتا ہے انہیں چھوڑتا نہیں اور لپٹ کر اپنے خوف کا
اظہار کرتا ہے۔ ذیادہ تر 55 سے 66 فیصد عورتیں ایسی صورت حال سے متاثر ہوتی
ہیں اور یہ کیفیت ان پر بعض اوقات ایک لمبے عرصے پر بھی محیط ہو سکتی ہے۔
تشویشناک اور خوفناک ذہنی صورت حال میں ایسے شخص کی نیند اڑ جاتی ہے،خوف کے
جھٹکوں کے باعث اسے قے لگ جاتے ہیں اور متلی ہوتی ہے ، سانس تیز ہو جاتی
ہے، پیشانی اور جسم پر پسینہ بہت ذیادہ آتا ہے، جسم ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، بلڈ
پریشر کم ہو جاتا ہے،سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، دل کی دھڑکن قابو میں
نہیں رہتی، خوف سے جسم میں کپکپاہٹ شروع جاتی ہے، بعض اوقات گھبراہٹ میں
چیخیں مار مار کر روتا ہے۔کچھ لوگوں کی یہ حالت ان پر کوئی صعوبت یا پھر
کسی قسم کی بھی مشکل کے بعد ہوتی ہے مثال کے طور پر اگر کسی لڑکی کے ساتھ
زنا بالجبر ہو جائے تو وہ بعد میں خوف کے عالم میں اپنی بے بسی کے عالم کو
یاد کرکے چیخیں مارتی ہے اور ہر شخص سے خوف زدہ ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ایسے
ملتی جلتی اشکال کے لوگوں کو دیکھ کر انتہائی خوف کے عالم میں چیختی ہے اور
مختلف قسم کے جملے جو اسکے خوف کی علامت ہوتے ہیں ادا کرتی ہے۔ ایسی حالت
بعض اوقات انسان کو ہیجانی کیفیت سے بھی دوچار کر دیتی ہے اور وہ اپنے ہاتھ
پاؤں جھٹکتا ہے یا پھر بے بسی کے عالم میں اپنے آپکو زخمی بھی کر سکتا ہے۔
خوف کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مطالعے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ
جہاں یہ ذہنی بیماری خاندانی حالات اور دشواری کیوجہ سے پیدا ہوتی ہے وہیں
اسمیں جسمانی طور پر جینیات کا عمل دخل بھی بہت حد تک ہوتا ہے جو والدین سے
بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ جین اس شخص کو خوف میں ہر
وقت مبتلا رکھیں مگر یہ موجودہ جین اس خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ خوف کا تعلق
دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت سے ہے۔ دماغ میں موجود ایسے غدود جو مختلف قسم
کی رطوبتیں خارج کرتے رہتے ہیں جو اعصابی نظام میں پیغام رسانی کے فرائض سر
انجام دیتے ہیں انمیں دماغ کے خلیوں میں پایا جانے والا وہ پیغام رساں مادہ
جسے گاما امینو بٹریائیکا کہتے ہیں اگر وہ غیر معتدل ہو جائے تو انسان پر
خوف کی سی کیفیت طاری رہنے لگتی ہے ۔ ماہر نفسیات خوف کی کیفیت کے بارے میں
کہتے ہیں کہ یہ انسان کے اندر کی کیفیت ہوتی ہے جو اسکے اند ر تصادم برپا
کردیتی ہے اور اسطرح اس پر خوف غالب آجاتا ہے۔نفسیاتی عنصر جس میں انسان کے
محسوس کرنے کی صلاحیت خوف کی حد تک بڑھ جاتی ہے ایسی صورت حال میں دماغی
مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ماہر نفسیات اور ڈاکٹر حضرات ایسے مرض میں مبتلا لوگوں کا علاج نفسیاتی
طریقوں سے یا پھر ایسی ادویات جو ایسے مریضوں کو ذہنی سکون پہنچائیں کرتے
ہیں ۔ ایسی ادویات جو مریض کے خوف کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں ان میں
مسکن ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے۔ Benzodiazepines مریض کے پیغام
رسانی کے نظام میں پائے جانے والا gamma-amino butysica acid مادہ ایسے
مریضوں میں موجود خوف کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس مادے کا
اخراج جتنی بے قاعدگی سے ہوگا مریض اتنا ہی زیادہ خوف زدہ ہوگا ۔ماہر
نفسیات ایسے مریضوں کا علاج اپنے رویے اور مریض سے باتوں کے ذریعے کرتے ہیں
۔ بعض اوقات ماہر نفسیات ایسے مریضوں کو انکے خوف کی حالت سے نکالنے کیلئے
انکے سامنے مدلل طریقے استعمال کرتے ہیں اور مریض کو باتوں باتوں میں
سمجھاتے ہیں کہ خوف کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص کے دل میں
سانپ کا خوف بیٹھا ہوا ہے تو ایسے مریض کے سامنے سانپ رکھ دیا جاتا ہے اور
سانپ کے بارے میں گفتگو کرکے اسے اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ سانپ سے
ڈرنے کی ضرورت نہیں یا پھر جو بچے سانپ سے خوفزدہ ہوتے ہیں انکے سامنے
پلاسٹک یا پھر ربڑ کا سانپ رکھ دیا جاتا ہے تاکہ یہ بچے خوفزدہ نہ ہوں اسی
طرح ایسی عورتیں جو چھپکلی اور لال بیگ سے خوف ذدہ ہوتی ہیں انکے سامنے بھی
نقلی چھپکلی اور لال بیگ رکھ دیا جاتا ہے اور ایسے مریضوں کو قائل کیا جاتا
ہے کہ یہ چیزیں خطرناک نہیں ہیں۔ماہر نفسیات کوشش کرتے ہیں مریض کی ذہنی
کیفیت کو نفسیات کے ذریعے کنٹرول کیا جائے اسطرح نفسیاتی علاج ادویات کی
نسبت ذیادہ اثر انداز اور دیرپا ہوتا ہے۔ آجکل آڈیو اور ویڈیو کا دور ہے
ماہر نفسیات ایسے مریضوں کو مختلف قسم کی فلمیں دکھا کر بھی انکا نفسیاتی
علاج کرتے ہیں۔ جب تک معاشر ہ نا ہمواری اور مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہے
اس میں بسنے والے لوگ ایسے گھمبیر مسائل میں گھرے رہینگے اور اسکے لئے
ضروری ہے کہ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کو ذہنی طور پر صحتمند رکھنے کیلئے
انکے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ وہ ذہنی طور پر پرسکون رہیں اور معاشرے
کیلئے فعال کردار ادا کرکے اسکے لئے مفید ثابت ہو سکیں ورنہ ہمارا معاشرہ
مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہو کر زہنی طور پر اپاہج ہو جائیگا اور آنے
والے وقت میں ایسے بیمار اور اپاہج لوگ ہمارے معاشرے کیلئے بوجھ ہونگے۔ |