ٹریفک پولیس کے بے معنی تجربات

جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے۔ وہاں دوسرے مسائل کے ساتھ ٹریفک کے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ آج سے 50 سال پہلے اگر کوئی سڑک بنی ہو تو ظاہر ہے اسی وقت کے ٹریفک کے حساب سے بنائی گئی ہوگی ۔ یا زیادہ سے زیادہ آئندہ 10 سالوں کو مدنظر رکھ کر۔ اگر 50 سال سے پرانی سڑکوں پر آج کا ٹریفک کنٹرول کیا جائے تو یہ ایک معجزہ ہی ہوسکتا ہے۔

ملک بھر کے اکثر علاقوں میں پرانے سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ روڈ کی بلیک ٹاپنگ تو ہوتی رہتی ہے لیکن اس کی توسیع یا متوازی دوسری شاہراہ کا کبھی نہیں سوچا گیا۔ اب جیسا کہ 5 کروڑ کی آبادی 25 کروڑ کی قریب ہو گئی ہے تو ظاہر ہے جو سڑک دن 100 گاڑیوں کے گزرنے کے لیے بنایا گیا تھا اسی پر 500 گاڑیاں گزریں گے۔ 500 گاڑیوں کی گزرنے سے کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ سڑک جلد ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوگی۔ ٹریفک جام رہے گا۔ وقت کا ضیاع ہوگا۔ گاڑیاں جلدی خراب ہوں گی۔ حادثات بڑھیں گے۔ ٹریفک کے ان مسائل پر قابو پانے کے لیے بجائے اس کے کہ سڑکوں کی توسیع کے ساتھ ساتھ متوازی و متبادل نئی شاہراہیں بنائی جائے، ہماری حکومتیں اور بالخصوص ٹریفک پولیس ٹریفک فلو کے ساتھ کھیل کر اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

سوات جو کہ ایک ریاست رہا ہے اور پاکستان میں ضم ہونے کے تقریبا 50برس گزر چکے ہیں، یہاں پر ریاستی دور کے سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اگر ریاستی دور پر نظر دوڑائی جائے تو پبلک ٹرانسپورٹ سمیت پورے ریاست میں گاڑیوں کی تعداد 200 سے بھی کم تھی۔ ان گاڑیوں کے لیے بنائے گئے شاہراہیں آج بھی موجود ہے اور علاقے کے موجودہ ٹریفک کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ سوات کی مرکزی شہرسے باہر اگرچہ بائی پاس روڈتعمیر کیا جا چکا ہے لیکن روزانہ 3000 سے زائد گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے یہ ناکافی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ تقریبا ہر دس میں سے ایک گھرانہ ذاتی گاڑی کا مالک ہے۔ آمد و رفت کے شہر کی اندرونی راستوں پر مختلف تجربات کیے جاچکے ہیں۔ کبھی مختلف سڑکوں کو یک رویہ کیا جاتا ہے۔ کبھی مخصوص روٹس پر ہتھ ریڑھی کی انٹری کی پابندی لگائی جاتی ہے۔ لیکن یہ تجربات ہمیشہ بے فائدہ ہوچکے ہیں۔

ٹریفک جام کی وجہ سے وقت بچانے کے لیے موٹر سائیکل اور سائیکل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے کم عمر اور جاتجربہ کار بچے بھی عام شاہراہوں پر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن کی غلط ڈرائیو کی وجہ سے ایک تو حادثات میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے، جبکہ دوسرا ٹریفک جام مسئلہ بھی مزید بڑھ گیا ہے۔ نو عمر ڈرائیورز کو روڈ پر آنے سے روکھنے کے لیے ٹریفک پولیس نے مختلف حربے استعمال کیے لیکن کچھ نہ بن پڑا۔ بغیر لائسنس کا چالان، کاغذ نہ ہونے کا چالان، ہیلمٹ کا چالان۔ غرض ہر طرف سے کوشش کے بعد ناکامی ہوگئی۔

حال ہی میں ایک نیا تجربہ کیا جارہاہے۔ ہیلمٹ نہ ہونے پر ایپیڈیویٹ بنوایا جاتا ہے، اسے DCO سے دستخط کر وا کر پیش کیا جاتا ہے تب کہیں جاکر مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ رجسٹریشن، لائسنس اور ہیلمٹ موٹر سائیکل کے لیے لازمی ہیں۔ اس سے چوری کی گاڑیوں، کم عمر دڑائیورز اور حادثات میں شدید نقصان کا امکان کم سے کم ہو جائے گا۔ یہ ایک احسن اقدام ہے۔ لیکن بعض حالات میں یہ مزید مسائل بھی پیدا کر دیتا ہے۔ اگر کسی کا مریض سیریس حالات میں ہسپتال میں پڑا ہواور اسے فورا پہنچنا ہو تو ایسے میں نہ اسے ہیلمٹ یاد ہوتا ہے ، نہ لائسنس اور نہ ہی رجسٹریشن۔ ایسی حالت میں اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو ایپیڈیویٹ بنوانا اور DCO سے دستخط کروانے میں کم سے کم ایک دن لگتا ہے۔ بعض اوقات دو سے تین دن بھی لگ جاتے ہیں۔ تب تک اس کا مریض دوسرے جہاں تک پہنچ چکا ہوگا۔

بے شک ہیلمٹ، لائسنس وغیرہ لازم ہو لیکن متبادل طریقہ وضع کرکے قانون سازی کی جائے تاکہ معاملہ اسی وقت حل ہوجائے اور مزید پریشانیوں کا باعث نہ بنے۔
 
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76267 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.