گندم اُگانے والا کسان خسارے میں کیوں ؟

پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ملکوں میں ہوتا ہے جو اپنی ضرورت کی تمام گندم اُگاتاہے بلکہ پیداوار بہتر ہونے کی صورت میں ایکسپورٹ بھی کرتا ہے ، پاکستانی گندم کوالٹی اور غذائیت کے حساب سے بھی بہتر مانی جاتی ہے ، مگر گندم اُگانے والا کسان خسارے میں جا رہا ہے، گندم کی خریدو فروخت کرنے والا مڈل مین خوب منافع کماتا ہے ، گندم سے آٹا بنانے والی فلور مل بھی کبھی نقصان میں نہیں جاتی،اور گندم ایکسپورٹ کرنے کے دوران ، بیوروکریسی میں موجود بابو بھی اپنی جیبیں خوب گرم کرتے ہیں ، مگر کتنی عجیب بات ہے ناموافق حالات میں اورکڑکتی دھوپ میں گندم اُگانے والا اور کاٹنے والاکسان نقصان میں رہتا ہے ، آخر اسکی وجہ کیا ہے ، وہ کون سے عوامل ہیں جنکی وجہ سے کسان خسارے سے باہر نہیں نکل رہا ،وجوہات جاننے کے لیے ہمھیں گندم اُگانے والے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھنا ہو گا ،چین میں اوسطا ہر سال 130 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوتی ہے ، انڈیا اوسطا ہر سال 88ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کر کے دوسرے نمبر پر ہے ،روس ہر سال61 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کر کے تیسرے نمبر پر ہے ، امریکہ 55ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کر کے چوتھے نمبر پر ،کنیڈا27.5 ملین میٹریک ٹن گندم پیدا کر کے پانچویں نمبر ، یوکرائن 27 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کر کے چھٹے نمبر پر ، آسڑیلیا 26ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کر کے ساتویں نمبر پر ، اور پاکستان25 ملین ٹن سالانہ گندم پیدا کرکے آٹھویں نمبر پر ہے نویں نمبر پر ترکی تقرییا 20 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کرتا ہے ،

انڈین پنجاب ہمارا پڑوس میں ہے ، زمین اور درجہ حرارت تقریبا ایک جیسا، مگر پڑوسی انڈین پنجاب میں گندم کی اوسط فی ایکڑ پیداوار 65 سے 75 من فی ایکڑ ہے ،وہاں گندم کی کاشت اب جدید طریقوں سے کی جا رہی ہے انکا محکمہ زراعت کسانوں کی زمینوں کی مٹی کا تجزیہ کر کے اور زمینی پانی چیک کر کے اُس کے مطابق انکی رہنمائی کرتا ہے ، اسکے علاوہ جدید کاشت کاری کے لیے اچھا بیج ،جدید طریقے سے بیجائی ،کم پانی ،کم کھاد ، کم زرعی ادویات،کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے ، قدرتی کھاد بنانے کے لیے کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے ، بجلی ،کھاد اور ادویات پر خصوصی سبسٹدی دی جا رہی ہے جس سے انڈین پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان کے مقابلے میں دوگنی ہو چکی ہے ۔

جبکہ پاکستان میں ابھی تک زیادہ تر کسان روائتی طریقے سے گندم کی کاشت کر رہے ہیں،گو کہ اب محکمہ زراعت تھوڑی بہت توجہ جدید کاشت کاری کی طرف دے رہا ہے ، مگر فلحال اسکا عام کسان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، اور کسانوں کی رہنمائی نہ ہونے کے برابر ہے ، پاکستانی کسان گندم اُگانے کے لیے ، ہر ایکڑ میں ایک بوری ڈی اے پی کھاد استعمال کرتاہے ، دو بوری فی ایکڑ یوریا کھادڈالی جاتی ہے ، گندم کی فصل کے دوران 2 سے 3 ہزار فی ایکڑ ادویات کا خرچہ ہے ،گندم اُگانے کے لیے ٹریکٹر سے ہل چلوانے کا خرچہ فی ایکڑتقریبا 3 ہزار ،گندم کی بجائی کے لیے45 کلو بیج فی ایکڑ ، جسکا خرچہ 2500 روپے ہے ، گندم کی کٹائی کا خرچہ تقریبا 4000 روپے فی ایکڑ،پھر اسکو بیچنے کے لیے باردانے کی خریداری ، کھیت سے منڈی تک لیکر جانے کا خرچہ ، اسکے بعد بیچارہ کسان منہ اُٹھا اٹھا کر کبھی گندم پر آنے والے خرچے کو دیکھتا ہے اور کبھی اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو، اس سال گندم کی قیمت 1300 فی من رکھی گئی ہے ، اگر 1300 کے حساب سے آپ 30 من گندم کی اوسط پیدوار سے ضرب دیں تو ایک ایکڑ کی گندم کی قیمت بنتی ہے 39000 روپے بنتی ہے ،جبکہ بیچارے کسان کے خرچہ ، تقریبا 30 سے 35 ہزار ، ہو رہا ہے ، جسکاہ سادہ سے مطلب یہ ہے کہ کسان کو چھ ماہ کی محنت کے بعد 4 سے پانچ ہزار روپیہ بچت ہے ، بلکہ بعض صورتوں میں بیچارہ کسان ، الٹا نقصان کر بیٹھتا ہے ، لیکن اگر گندم کی فی ایکڑ پیدوار انڈین پنجاب جتنی ہو تو کسان کو 50000 روپے فی ایکڑ بچت ہو ،

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے ہم ابھی تک گندم کی فی ایکڑ پیدا وار 25 سے 35من فی ایکڑ لے رہے ہیں، اور اگر دیکھا جاے تو یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے جو کسان کے نقصان کا باعث بنتی ہے ،کیونکہ جب دوسرے ملکوں کے کسان 30 ہزار فی ایکڑ خرچہ کر کے 90 ہزار سے ایک لاکھ کی فصل لیتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا کسان 30 ہزار فی ایکڑ خرچہ کر کے 40 ہزار کی فصل لیتا ہے دوسرے معنوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی کسان پچاس سے ساٹھ ہزار وپے فی ایکڑ پیدوار کم ہونے کی وجہ سے اپنا نقصان کرتا ہے ، ۔ہمارا کسان پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہے ، دیہات میں بڑے بڑے کسان پانی چوری کر لیتے ہیں چھوٹا کسان پانی کے لیے ترستا رہتا ہے ، نہری پانی کی عدم دستیابی پر کسان پانی حاصل کرنے کے لیے ٹیوب کا سہارا لیتا ہے جو اکثر ڈیزل پر چلتے ہیں ،کیونکہ بجلی دیہات میں کم ہی آتی ہے، جس سے کسان کو انتہائی مہنگے ڈیزل کا خرچہ برداشت کر نا پڑتا ہے ،زرعی ادویات اکثر دو نمبر ملتی ہیں ، جس سے ادویات کیڑے مارنے کے بجاے اُلٹا نقصان کرتی ہیں کسان چھ ماہ گندم کی فیصل پر محنت کرتا ہے ، بارش کی دعائیں مانگتا ہے اور آخر میں بیچارہ کم پیدوار کی وجہ سے مایوس ہوتا ہے،

حکومتی توجہ زراعت پر کم اور دوسرے کاموں پر زیادہ ہے ، شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ابھی تک جعلی کیڑے مار ادویات بازار میں سرعام بکتی ہیں، جو سرا سر کسانوں سے دشمنی کے مترادف ہے یہ ہی نہیں اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈی اے پی کھاد اور یوریا کھاد بھی دو نمبر ملتی ہے ،جو بیچارے کسان کی کمر توڑ دیتی ہے ، ایک اور مسلہ جو کسانوں کو اکثر درپیش آتا ہے وہ کھاد کو غائب کرکے کی منافع خوری کرنا والا کارٹل بھی ہے ، جو کھاد کو مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں جسکی وجہ سے 15سو روپے والی یوریا کھاد کی بوری بلیک میں مہنگی کر کے فروخت کی جاتی ہے کسان بیچارے فصل کو نقصان سے بیچانے کے لیے مہنگی کھاد خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،اس طرح کی صورتحال کے بعد کسان کاشت کاری چھوڑ کر مختلف دوسرے کاموں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، فلحال کسان اگر آلو لگاتا ہے تو نقصان ، چاول لگاے تو نقصان ، گندم لگاے تو نقصان ، اسکے بعد کسان کہاں جائیں،کوئی دور ہوتا تھا کہ زراعت کی وزارت کسانوں کے لیے ہوتی تھی ، اب مگر صورتحال دوسری ہے ، کسان مفلوک الحال ہو رہا ہے ،

حکومت کو چاہیے کہ زراعت کی طرف خصوصی توجہ دی جاے ، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے محکمہ زراعت کے افسروں کو پابند بنایا جاے کہ وہ کسانوں کی رہنمائی کے لیے ہفتے میں کم از کم دو دن اپنے علاقے کے دیہات کو دورہ کیا کریں ، کسانوں کو جدید طریقے کی کاشت کاری سکھانے کے لیے جدید زرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاے ،اور گاوں گاوں کسانوں کی تربیت کا انتظام کیا جاے ، تاکہ پاکستان میں کاشت کاری جدید طریقے سے کی جاے ،اور فی ایکڑ پیدوار بہتر ہو سکے، کیونکہ جب تک جدید طریقے سے کاشت کاری کی تربیت کسانوں کو نہیں دی جاے گئی، اور فی ایکڑ فصل کم ہو گی تو کسان اور پاکستان دونوں ہی نقصان میں رہیں گے ،
 

Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 24548 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.