یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

جمعرات کی صبح حسب معمول آفتاب کی کرنیں چارسو پھیل رہیں تھیں پرندوں کی چہچہاہٹ نیلگوں آسماں پر سنہر ی کرنوں کی جلوہ گری ہوتے ہی تلاش معاش میں نکلنے والے بندگان خدا اپنے مولائے بزرگ وبرتر کے حضور تسبیح ومناجات کے بعد گھروں سے کوچ کرنا شروع ہو چکے تھے جمعہ خان بھی کلی نوحصار کے کچے گھر میں اپنے آنگن کی رونق نوخیز معصوم کلیوں کے ساتھ ناشتہ میں مشغول اس بات سے بے خبروبے نیاز کے آج اس کی عمر بھر کی کمائی لٹنے والی ہے جمعہ خان ناشتہ کے بعد بچوں کے نان ونفقہ کی تگ ودو میں دکان کی جانب نکل چکا تھا ۔ ابھی سور ج کی تپش آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلارہی تھی کہ ایک فون کال نے جمعہ خان کے سر پر قیامت ڈھادی اُسے یوں لگا کہ جیسے آسمان گر پڑا یا زمین پھٹ گئی فون پر اطلاع دینے والا بتا رہا تھا کہ تیرے گلشن میں خزاں امڈآئی ہے تیری چار لاڈلی شہزادیوں کو انکی ممتا نے پانی کی ٹینکی میں ڈبو کر معصوم کلیوں کو مسل دیا ہے جمعہ خان فوراََ گھر کی طرف بھاگا اور اپنے تباہ حال گلستان کو دیکھا تو اس کی بیٹیاں اس جہاں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ چکی تھیں ۔کہا جاتا ہے کہ ماں قدرت کا حسین ترین تحفہ ہے ماں کے بغیر گھر ویران سنسان بیابان اور قبرستان کی مانند ہے کسی عظیم انسان کا قول ہے کہ جب پروردگار روزقیامت مجھ سے حساب مانگے گا اور میری دنیاوی لغزشوں خطاؤں پر باز پرس کر ے گا تو میں اپنی ماں کے قدموں کے نیچے چلا جاؤں گا کیونکہ میر ی ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔ حقیقت تو یہی ہے مگر کبھی کبھی ایسے ایسے سانحات بھی ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں جن کے سامنے انسانی برداشت بے بس نظرا ٓتی ہے ۔ کوئٹہ کا یہ علاقہ کلی نوحصار جہاں چار معصوم بچیاں کیہ، پروانہ ، فرزانہ اور یاسمین ، جو اپنی سگی ماں کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلی گئیں ان ناسمجھ اور ناتواں بچیوں کا کیا قصور تھا ۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی مائیں تنگی رزق کے باعث اپنی اولاد کے ساتھ ہی کسی نہر دریا میں کو دگئیں یا کسی ٹرین کے نیچے آکر لقمہ اجل بن گئیں ۔ مگر ہم نے ہمیشہ کو سا صرف ماں کو کہ وہ بزدل تھی کمزور تھی مگر میراآج موضوع یہ نہیں ماں کبھی بزدل نہیں ہوتی ۔ ابتدائی معلومات کے مطابق جمعہ خان کا ہنستا بستا گھر تنگی ء وسائل اور آئے روز کے جھگڑوں کی وجہ سے عفریت کدہ بنتا جارہا تھا ااسی ذہنی ناہم آہنگی اور چپقلش نے جمعہ خا ن کی اہلیہ کو ذہنی مریضہ بنا دیا جس کے بھیانک نتیجے نے کرہ ارض پر ہر دردل رکھنے والے کو رنجیدہ اور غمگین کیا ۔ اﷲ کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔ اپنی اولاد کو رزق کی فکر میں قتل نہ کرو اس کا ذمہ بے شک میں نے لے رکھا ہے ۔ میں اس بات سے یقیناََ اتفاق کر تا ہوں اﷲ کے فرمان پر میرا کامل و اکمل ایمان ہے مگر کچھ معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ۔ سعادت حسن منٹو پرہمیشہ تنقید ہوئی کہ وہ کھلا اور ننگا سچ لکھتا رہا مگر میرا وہ کل بھی پسندیدہ تھا اور آج بھی ہے منٹو نے اس زمانہ میں کہا تھا کہ یہ معاشر ہ یعنی یہ برصغیر کا معاشرہ عور ت کو تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا مگر کو ٹھا چلانے کی اجازت دے دیتا ہے ۔ اسی طرح ہمارے معاشر ے میں یہ بھی ایک روایت ہے ہمسائے کے بچے تین دن سے بھوکے ہوں کبھی اہل محلہ کو پرواہ نہیں ہو گی مگر ہمسائے کی بیٹی کے کردار کی فکر تما م بناوٹی شرفا کو ضرور ہو گی ۔ہم تما شہ دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں عصمتوں کی نیلامی کا بھوکوں کی آہ بکا مظلوموں کی سسکیوں کا اور ہم یہ تما شا اس وقت تک دیکھتے ہیں جب تک مظلوم کی سانسیں سلامت رہتی ہیں جیسے اس کی سانس کی ڈوری ٹوٹی ہم سب سے بڑے انصاف پسند اور وکیل بن کر سامنے آجاتے ہیں ایک ایسی ریاست ایک ایسا ملک جو اسلا م کے نام پر بنا ہو اور وہاں بھوک افلاس کے ڈر سے لوگ اپنی اولادیں قتل کر رہے ہوں جہاں 70 فیصد لوگ سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھائیں اور انہیں دوائیں نہ ملیں نوجوان ڈگریاں گلے میں لٹکا کر نوکریاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے پھانسی کے پھندے پر جھول جائیں بوڑھے والدین کا عمربھر کا اثاثہ پل بھر میں بیروزگاری کے خوف سے خا ک میں مل جائے اور ایک ایسے ہی ملک کے سب سے پسماندہ صوبے میں جمعہ خان کی بیٹیوں کی موت کے اگلے ہی دن نیب کاروائی کرکے سیکرٹری خزانہ کے گھر سے جب67 کروڑ روپے ڈالرز سونے کے زیورات برآمدکر لے اور پیسہ بھی یوں نکلا۔ سنا ہی تھا دیکھا نہیں کہ پانی کی طرح پیسہ ہی پیسہ پانی کی ٹینکی گاڑیاں الماریوں کچن واش رومزپاکستانی و غیرملکی کرنسی سے بھرے 12 تھیلے 4 کروڑ سے زائد کے زیورات برآمد ہوں اور نیب والے بھی گنتے گنتے تھک جائیں رقم گننے کیلئے مشینیں منگوانا پڑیں تو جمعہ خان اپنی چار بیٹیوں کا قاتل کس کو کہے گا ۔ بلوچی بھائیوں کا ہمیشہ پنجاب سے یہ گلہ رہا کہ پنجاب غنڈہ گردی کر کے چھوٹے صوبوں خصوصاََ بلوچستان کے حقوق غضسب کر جاتا ہے اس بات میں کس حد تک صداقت ہے میراخیال بلوچ عوام اپنے اصل راہزنوں کو بے نقاب ہو تا دیکھ چکے ہیں اور اس سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی سے یاد آیا ایک اسلم رئیسانی بھی ہوا کرتے تھے جن کے گھر میں 100 لاشیں پڑیں تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں برقعہ پوش ہزارہ کی مائیں نوحہ کناں تھیں اور صوبے کا کپتان لا پتہ تھا بلوچستان میں جانور اور انسان ایک گھاٹ پر پانی پیتے رہے ہاریوں مزارعوں کے بچے جاگیرداروں کے حقے گرم کرتے رہے اور یہ کرپٹ سیاستدان بیوروکریٹس بلوچستا ن کو پسماندگی کی طرف دھکیلتے رہے ۔ نیب جسے کبھی عیب بھی کہا جاتا تھا ایک نیب میاں نواز شریف نے بھی بنا یا تھا جس کا مقصد سیاسی مخالفین کو کھڈے لائن لگا نا تھا اسی طرح موجودہ نیب فوجی حکمران جنرل مشرف کا تخلیق کردہ ہے جو عہدرفتہ میں تو صر ف ضمیر ناں بیچنے والوں کیلئے ایک ڈراوے کے طور پر متعارف کروایا تھا مگر عصر حاضر میں کسی حدتک احتساب کی ذمہ داری نبھار ہا ہے ۔ بلو چستان کے بعد سندھ کے عوام بھی ہمیشہ پنجاب سے نالاں رہے مگر قربان جاؤں سابق مشیر پٹرولیم سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر عاصم پر جس نے بڑے بڑے ناموں کو دھو ل چٹا دی اور قومی خزانے کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکہ 462 ارب روپے کا چو نالگا دیا۔ بے حسی کی انتہا دیکھئے گیلانی دور حکومت میں جب کسان کھاد کیلئے تر س رہا تھا تب وزیر موصوف نے گیس کی مصنوعی قلت پیدا کرکے یوریاکھاد کے دام آسمان تک پہنچا دیئے اور پھر نوٹوں کی ایسی بوریاں بھریں کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے میرا سندھ کے عوام سے ایک سوال ہے کہ یہ کب تک بی بی اور بھٹو کے نام پر بے وقوف بنتے رہیں گے ان زرداروں کے مزارعے بنیں رہیں گے ۔ان مخدوموں تالپوروں کے اللے تللے دیکھتے رہیں گے تھر میں ہر سال کتنے لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں یہ کونسا پتھر کا زمانہ ہے جس میں تھر کے لوگ آج بھی پانی نہ ملنے اور غذائی ضروریات پوری نہ ہونے سے مررہے ہیں اور ان کا قاتل کون ہے یقینناََ سندھ کی عوام اپنی قاتل خو د ہے یہ خو داپنے لئے گڑھا کھودتے ہیں ان کرپٹ نااہل اور نالائق لوگوں کو آگے لے کے آتے ہیں یہ لوگ کب تک یونہی مرتے رہیں گے اور حکمران تھر کی غذائی قلت پوری کرنے کیلئے اجلاس میں ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر مرغوں چر غوں پر ہاتھ صاف کر کے مجبوروں کا تمسخر اڑاتے رہیں گے ۔غریب مزدور کسان عام آدمی دو وقت کی روٹی پوری کرنے کیلئے ذلیل ورسوا ہو تا رہے گا والدین اولادیں بیچنے پر مجبور ہوتے رہیں گے اور یہ پتلی تما شا اس وقت تک ایسے ہی چلتا رہے گا جب تک عوام اندھی تقلید کی سیاہ پٹی آنکھوں سے اتار کر اپنے روشن اور بہتر مستقبل کا فیصلہ خود نہیں کرتی ۔ نہیں تو بقول جالب ہم بھی اسی قبیلے کے لوگ ہونگے جن سے روشنیاں اور اجالے رخصت ہو گئے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں ناں نکلا کر

Munna Hannan
About the Author: Munna Hannan Read More Articles by Munna Hannan: 11 Articles with 8659 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.