چین میں بیویوں کی کمی ممکن

چین کی آبادی اور فیملی پلاننگ کمیشن کی نئی رپورٹ کے مطابق چین میں سنہ 2020 تک شادی کے لائق مردوں کی آبادی بیاہ کے لائق عورتوں سے تین کروڑ زیادہ ہوگی، جس کی وجہ سے مردوں کو بیوی دھونڈنے میں مشکل ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق اس جنسی عدم توازن کی وجہ سے ملک میں معاشرتی عدم استحکام کی صورت پیش آسکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 2005 میں سو لڑکیوں کے مقابلے میں ایک سو اٹھارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے۔ اس مسئلے کی جو وجوہات بیان کی جارہی ہیں کہ ان میں ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی اور لڑکوں کی پیدائش کی روایتی ترجیح شامل ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ لڑکی کی پیدائش روکنے کے لیے جنین کی اسقاط حمل ایک عام واقع ہے کیونکہ شادی شدہ جوڑے، خاص طور سے وہ جو دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں، لڑکے کی پیدائش چاہتے ہیں تاکہ بڑھاپے میں وہ ان کی دیکھ بھال کر سکیں۔

اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ لڑکیوں کی پیدائش کی خبریں درج بھی نہیں کرائی جاتیں۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 سے سنہ 2005 کے درمیان ہر سو لڑکیوں کی پیدائش کے مقابلے میں لڑکوں کی پیدائش کا تناسب ایک سو دس سے بڑھ کر ایک سو اٹھارہ ہو گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2005 میں چین کے کچھ جنوبی علاقوں میں ہر سو لڑکیوں کی پیدائش کے مقابلے میں ایک سو تیس لڑکے پیدا ہوئے تھے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں سنہ 2020 تک ملک بھر میں مردوں کی آبادی عورتوں سے تین کروڑ زیادہ ہو جا ئےگی جس کی وجہ سے کم تعلیم یافتہ اور تھوڑی آمدنی والے مردوں کو بیوی دھونڈنے میں مشکل پیش آنے کا امکان ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کے باعث معاشرتی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنسی عدم توازن کے بڑھتے رجحان کو قابو میں لانے کے لیے’ بیٹی قبول کرو‘ تحریک چلانی پڑے گی۔

رپورٹ کے مطابق امکان سے کہ چین کی آبادی سنہ 2033 تک ایک ارب تیس کروڑ سے ڈیرھ کروڑ کے قریب ہو جائےگی۔

سنہ 2040 تک ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد بھی آج کی 14 کروڑ تیس لاکھ سے بڑھ کر 43 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے مطابق ساٹھ سال سے زیادہ عمر کےافراد کی تعداد کُل آبادی کی تیس فیصد ہوجائےگی۔

رپورٹ کے مطابق چین کو اپنی سوشل سکیورٹی اور ریٹائرمنٹ کے نظام، فیملی پلاننگ پالیسی اور تعلیم اور صحت سے متعلق خدمات کی اصلاح کرنی پڑے گی۔

چین کی ’ایک بچہ‘ پالیسی کی وجہ سے دوسری سنگین مشکلات بھی پیش آئیں گی کیو نکہ اکلوتے بچو کی ایک بڑی تعداد کو اپنے والدین کے علاوہ، دادا دادی اور نانا نانی کی بھی بڑھاپے میں دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔

 

YOU MAY ALSO LIKE: