مجرم کون؟

حسب معمول بیگم نے میرے سامنے ناشتہ رکھاتومیں ناشتہ کرنے کے ساتھ اخباربھی دیکھنے لگا،تاکہ دونوں کام ایک ہی وقت میں ہوجائیں۔باقی تفصیلات میں آفس سے واپسی پرپڑھتاتھا۔ایک اچٹتی نگاہ میں ہرخبرپرڈالتے ہوئے آگے بڑھ ہی رہاتھاکہ ایک جگہ کونے میں لگی ایک تصویرنے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔وہ تصویرمجھے کسی جانے پہچانے شخص کی لگی ۔میں نے اس تصویرکوپہچاننے کیلئے غورکیاتومجھے سمجھ نہ آئی کہ میں نے اسکوکہادیکھاہے ۔میں وقت کی قلت کے باوجوداس تصویرکے ساتھ لگی خبراوراس کی تفصیل کوپڑھنے لگاجیسے جیسے میں پڑھتاگیامیرے رونگٹے کھڑے ہوتے گئے۔

باقیوں کیلئے تویہ ایک معمول کی خبر تھی۔جس میں ایک نشئی کی لاش دکھائی گئی تھی ۔جس نے بینک سے نکلتے ہوئے ایک آدمی کے ہاتھ میں موجودبیگ چھینے کی کوشش کی تھی،وہ اس کوشش میں توکامیاب نہ ہوسکاالبتہ بینک کے گیٹ پرموجودگارڈکی اندھی گولی کانشانہ بن گیا۔ مگریہ خبرمیرے لئے بہت اہم تھی جیسے جیسے میں خبرپڑھتاجارہاتھاغم تکلیف اوردکھ سے میرے چہرے کارنگ بدلتاجارہاتھا۔خبرپڑھتے پڑھتے نہ جانے میں کب ماضی میں کھوگیا۔مجھے پتہ ہی نہ چلا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

توکل کہاں تھا؟منیرکے کلاس میں داخل ہوتے ہیں سرانجم نے اس کوآڑے ہاتھوں لیا۔سروہ میں ․․․ہاں ہاں گھڑلے کوئی نہ کوئی بہانہ ،بہانہ گھڑناتوتیرے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔سرنے اس کوبات پوری ہی نہ کرنے دی اوراس پربرس پڑے۔اچھاچل سناکوئی نہ کوئی بہانہ ،توبھی کیایادکرے گاکس سخی سے پالاپڑاتھا۔ہاں بھئی! سب اپنی اپنی کتابیں بندکردواوراس کابہانہ سنو!سرنے پہلے منیر کواورپھرسب لڑکوں کی طرف متوجہ ہوکرکہا۔سب لڑکے ہنس پڑے ۔سرکااندازاتنااستہزائیہ تھااوراوپرسے ساتھیوں کی ہنسی کہ منیر نے شرمندگی سے سرجھکالیااوراس کی آنکھوں سے دوقطرے ٹپک پڑے جن کواس نے بھرپورطریقے سے چھپانے کی کوشش کی مگروہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکااوروہ پلکوں کی باڑتوڑتے ہوئے نیچے آرہے۔اب توسرکواورموقع مل گیا۔ہاں جناب اب عورتوں کی طرح رونابھی شروع کردیا۔عورتوں کی بھی یہی عادت ہوتی ہے جب کوئی بات ان کوکی جائے اوران کے پاس اس کاکوئی معقول جواب نہ ہوتووہ بھی روناشروع کردیتی ہیں۔

بس منیر کوچپ لگ گئی۔اس سے کوئی بات ہی نہ ہوسکی وہ چپ کھڑارہ گیا۔کافی دیرتک سراس پرغصہ کرتے رہے اورپھرسبق کی طرف متوجہ ہوگئے۔اس بات کی پرواہ کیے بغیرکہ ان کے کہے گئے جملوں نے منیر کے دل پاش پاش کردیاہے۔

منیر بھئی کیاحال ہے؟آج کچھ زیادہ ہی پریشان لگ رہے ہو؟خیرتوہے؟سرکی بات کابرامان لیاکیا؟تفریح کے وقت میں منیرکوڈھونڈتاہواگراؤنڈمیں گیاتووہ مجھے ایک طرف بیٹھامل گیا۔میں نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بلاتمہیدبات کی توایک دم اس نے نظریں اٹھاکرمیری طرف دیکھاتواس آنسوؤں سے لبریزآنکھیں بہہ پڑی اوروہ پھوٹ پھوٹ کررودیا۔

میں نے بھی اس کورونے دیا۔کافی دیررونے کے بعدجب اسکوحوصلہ ہوا،وہ بولاتوایسے لگاکہ جیسے اس کی آوازکہیں کنویں سے آرہی ہے۔یارعقیل میرے دکھ کوکوئی سمجھتاہی نہیں۔پتہ نہیں کیاوجہ ہے؟ سرمیری بات پرغورکرتے ہی نہیں۔ شایداسلئے کہ میں ایک غریب سٹوڈنٹ ہوں۔تمہیں تومعلوم ہی ہے کہ میرے والدصاحب چاول چھولے کی ریڑھی لگاتے ہیں۔جس سے ہماری گزربسرہورہی ہے۔میری امی اوربہنیں روزانہ سحری کے وقت اٹھ کرسامان تیارکرتی ہیں اورنمازکے وقت ابواٹھ جاتے ہیں۔ نمازپڑھ کروہ ریڑھی لے کرچلے جاتے ہیں۔اس کے بعدہم سب بہن بھائی سکول کی راہ لیتے ہیں۔

کل ابوجب اٹھے توان کے گردوں میں سخت تکلیف تھی۔جس کی وجہ سے ان ہلابھی نہیں جارہاتھا۔میری والدہ پریشان ہوگئیں۔اب سامان ساراتیارتھا۔اگراس کوبیچانہ جاتاتووہ خراب ہوجاتا۔جس سے ہمارابہت سارانقصان ہوجاتا۔شایداس نقصان کاہم پوراایک مہینہ پیٹ کاٹ کربھی ازالہ نہ کرسکتے۔میری والدہ نے مجھے کہابیٹاآج سکول کی چھٹی کرلوکل چلے جانا!آج تم اپنے ابوکی جگہ ریڑھی لگالو۔امی کی بات سن کرمیں چپ ہوگیا،حالانکہ امی کومعلوم تھاکہ اس نے چھٹی بھی نہیں لی ،مگرامی بھی مجبورتھیں۔ ان کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہ گئی اورمیں نے ہاں کہہ دی اوراسی وقت کتابیں رکھ کربہنوں کے ساتھ باقی کام نمٹایا۔میری امی ابو کی خدمت اورتیمارداری میں لگ گئیں۔میری کوشش تھی کہ میں جلدی فارغ ہوجاؤں گا۔کم ازکم سرانجم کے پیریڈتک پہنچ جاؤں گا،مگرایسانہ ہوسکا،چاول بکتے بکتے دوپہرہوگئی اورپھرمیں بہت زیادہ تھک گیا۔ظہرکے بعدمیں گھرپہنچا،نمازپڑھی ،کھاناکھایااورسوگیا۔عصرکے وقت اٹھا،اتنے میں ابوکی طبیعت بھی الحمدﷲ کافی سنبھل چکی تھی۔میں گھرکی ضروریات کی چیزیں لے آیا۔اس کام سے فارغ ہوکرمیں نے سوچاکہ چلوشام کوسرانجم کومل آؤں گا،تاکہ ان کوصورت حال بتادوں، مگران کاگھردورہونے کی وجہ سے میں نہ جاسکا۔

منیر روتے ہوئے مجھے تفصیل بتانے لگا۔میں اس کی باتوں میں محوہوچکاتھامجھے پتہ ہی نہ چلاکہ کب میری آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے اورہاں عقیل !ایک بات اورہے میں کل سے سکول بھی نہیں آؤں گا۔میں توپڑھنے آتاہوں کہ اس علم کوسیکھ کرمجھے عزت ملے گی،میں دوسروں کی عزت کیاکروں گا، مگرجس علم کے پڑھنے کے باوجودسرکومیری مجبوری کااحساس نہیں ہوا،تومیرے خیال میں اس علم کوپڑھ کرمجھے کیاعزت ملے گی۔آج منیرکافی دلبرداشتہ تھا،مگراس حدتک وہ اداس ہوگایہ میرے تصورمیں ہی نہ تھا۔ہرچندمیں نے اس کوبہت سمجھانے کی کوشش کی مگروہ تیارنہ ہوا۔آخروہی ہواجس کاڈرتھا،اگلے دن وہ پھرسکول نہ آیا۔مجھے فکرہوئی، مگرمیں نے یہ سوچ کراپنے آپ کوتسلی دی کہ چھٹی کے وقت جاکراس کاپتہ کرلوں گا۔

سرانجم جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئے توفوراانہوں نے منیرکی سیٹ کی طرف دیکھامگروہ خالی تھی توان کے ہونٹوں پرایک معنی خیزسی مسکراہٹ دوڑگئی۔آج منیرپھرنہیں آیامیں کہتاتھانا کہ وہ بہانے بازہے۔ہردوسرے دن کسی نہ کسی بہانے سے چھٹی مارلیتاہے۔ایسے لڑکے نہیں کامیاب ہوسکتے سرکومنیرسے خداواسطے کابیرتھا۔اس کواکثرلتاڑتے رہتے تھے۔ سربہت کچھ کہتے رہے مگرمیرادماغ تومنیرکے الفاظ میں بھٹک رہاتھاکہ جس علم کے پڑھنے کے دوران عزت نہ ملے، جس کے پڑھانے والوں کی زبان سے عزت کے الفاظ ہی نہ نکلیں، اس علم کاکیافائدہ ؟مجھے منیرکی سوچ پربھی تعجب تھاکہ ایک کی وجہ سے سب کے بارے میں یہ فیصلہ کردیا۔

چھٹی کے وقت میں سیدھامنیرکے گھرگیامگراس کی والدہ نے بتایاکہ آج اس کے والدکی پھرطبیعت خراب تھی،اسلئے امتیازریڑھی لے کرگیاہے۔مجھے معلوم تھاکہ اس کے والدکہاں ریڑھی لگاتے تھے۔ میں سیدھاوہاں پہنچاوہ کافی مصروف تھا۔میں اس کے فارغ ہونے کاانتظارکرنے لگا۔تھوڑی دیرکے بعدوہ میری طرف متوجہ ہوا۔میں نے اس کوکہاکہ کل تم نے سکول آناہے،مگروہ اکڑگیااورکہنے لگاکہ اب آسمان توزمین پرآسکتاہے مگرمیں سکول نہیں آسکتا۔تم خودسوچوجس علم کے ذریعے ہمیں کسی سے بات کرنے کاطریقہ ہی نہ آئے اس کوسیکھنے کاکیافائدہ؟بس بہت ہوگیااب میں مزیدذلت نہیں برداشت کرسکتا۔کافی سمجھانے کے بعدبھی جب وہ قائل نہ ہواتومیں مایوس ساہوکروہاں سے اٹھ آیا،مگرایک امیدتھی کہ پھرکسی وقت مل کرسمجھاؤں گا،مگرمیری یہ سوچ بے کارثابت ہوئی، جب بارہااس کوسمجھانے کے باوجودبھی وہ نہ سمجھا،پھرمیں نے بھی اس کوسمجھاناچھوڑدیاکہ خودہی ٹھوکرکھاکرآجائے گا۔

کچھ ہی عرصہ بعد خبرملی کہ اس کے والدکاانتقال ہوگیاہے،یہ خبرسن کرمجھے بہت دکھ ہوا۔ادھرہمارے سالانہ امتحانات آگئے میں کئی ماہ تک اس کی طرف جاہی نہ سکا۔امتحانوں سے فراغت کے بعدمیں اس کوملنے اورتعزیت کیلئے گیاتووہاں جاکرپتہ چلاکہ اس کی والدہ عدت گزارنے کے بعداپنے میکے واپس چلی گئیں تھیں۔ان کامیکہ مجھے معلوم نہ تھا۔بس پھرایساتعلیم میں مصروف ہواکہ سب کچھ ہی بھول بھال گیا۔پھرایک دن ایسی خبرملی جس نے میرے دماغ کوہلاکررکھ دیاکہ منیرنشہ کرنے لگاہے۔اس دن مجھے اتنادکھ ہواجس کی انتہانہیں ۔

اورآج اخباراس کی یہ تصویرمیرامنہ چڑارہی تھی اورمجھے ایسے لگ رہاتھاکہ منیرمجھ سے سوال کررہاہے کہ عقیل․․․!بتاؤاس میں میراقصورہے یانام نہادتعلیم دینے والوں کا․․․؟بولو!میرے پاس اس کاکوئی جواب نہ تھامیں نے شرم سے سرجھکالیا․․․مگربازگشت پھربھی مجھے سنائی دے رہی تھی بولو․․․بولو!مجرم کون تھامیں یاوہ․․․․․․․․؟

Mufti Muhammad Moaviya Ismail
About the Author: Mufti Muhammad Moaviya Ismail Read More Articles by Mufti Muhammad Moaviya Ismail: 7 Articles with 13015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.