پاکستانی۔۔۔ مضبوط اور مستحکم قوم

پاکستان بر صغیر کے مسلمانوں نے ایک نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا یعنی کہ برصغیر میں دو قومیں بستی ہیں۔ مسلمان اور ہندو لہٰذا دونوں کے الگ الگ ملک ہوں جہاں وہ اپنے اپنے نظریے کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ قائداعظم نے پاکستان کے حصول کی توجیہہ پیش کی کہ پاکستان کا مطالبہ محض ایک خطہ زمین کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ کا حصول تھا جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں اور یہی ہر پاکستانی کا عقیدہ بھی ہے اور یقین بھی کہ وہ ایک قوم ہیں کیونکہ وہ ایک مذہب کو ماننے والے ہیں اور یقیناً مذہب ہی قوموں کو یکجا رکھنے کی سب سے مضبوط ڈور ہوتی ہے۔ جغرافیائی اکائی کی اہمیت اپنی جگہ مسّلم ہے لیکن ہر جغرافیائی اکائی کا مذہب سے رشتہ بھی مسّلم ہے اور پاکستان کو تو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اسلام کے نام پر بننے والے مدینہ کے بعد دوسری ریاست تھی اب جو لوگ پاکستان کی بنیاد کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ تاریخ مسخ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

پرویز ہود بھائی پاکستان کا ایک جانا پہچانا نام ہے نیوکلیئر فزکس کے استاد ہیں اور ان کی ذہانت میں کوئی شک نہیں ملکی حالات اور سیاست پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ لیکن ۔۔۔ پاکستان کے بنیادی نظریے کے خلاف بات کرنا یقیناً ہر پاکستانی کے لیے تکلیف دہ اور قابل اعتراض ہے پرویز ہود بھائی کا ایک مضمونa nation? why Pakistan is not نیپال سے شائع ہونے والے ایک رسالے HIMAL میں شائع ہوا۔ مضمون کے مندرجات پر بات کرنے سے پہلے موصوف کی خدمت میں ایک گزارش ہے کہ جناب اس ملک کے لوگ ویسے ہی کافی مشکل اور بے یقینی کی فضا میں رہ رہے ہیں لہٰذا یہاں اور ایشوز اٹھانے سے ملک کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی اس وقت جو ملک و قوم کا خیر خواہ ہے وہ اس ملک کی مثبت رویوں کو اندرون ملک اور بیرون ملک اجاگر کرے۔ بیماری کی نشاندہی ضروری ہے لیکن یاد رکھیے غلط تشخیص جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

اس مضمون میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ وہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ پاکستان کی بنیاد مذہب ہرگز نہیں تھی اور نہ اب مذہب اس ملک کے لوگوں کو یکجا کر کے قوم کی شکل دے سکتا ہے جبکہ خود اسلام کا کہنا ہے کہ دنیا میں دو قومیں ہیں ایک مسلمان اور دوسری غیر مسلمان اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دور دراز کے اسلامی ممالک ایک اکائی بن جائیں ظاہر ہے ایسا جغرافیائی لحاظ سے ایک خطہ زمین پر ہی ممکن ہے۔ مضمون نگار کا نقطہ نظر ہے کہ پاکستان میں مختلف زبانوں اور مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں تو کیا ایسا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں؟ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے قبیلوں کو تحلیل کر کے ایک قبیلہ نہیں بنایا؟ اوس اوس، خزرج خزرج اور اشہل اشہل ہی رہے۔ بحیثیت مسلمان میں انہی حوالوں پر یقین رکھتی ہوں مضمون نگار نے جن مغربی مفکرین کے نظریات کے حوالے دیئے ہیں ان میں سے بھی کوئی بھی حوالہ لے لیجئے پاکستان قوم کی تعریف کے مطابق ایک قوم ہے۔ اگر میں ان theoratical باتوں پر اس قوم کے بحیثیت قوم عمل کو زیادہ اہمیت کے قابل سمجھتی ہوں۔ وہی قبائل جن کو ہم طالبان کہہ کر دہشت گرد قرار دے رہے ہیں اور مضمون نگار ان سے صلح کی ہر کوشش کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں اور طاقت کے استعمال کو ان کا واحد علاج قرار دیتے ہیں۔ جب ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے اشتعال انگیز زبان اور عمل اختیار کیا تو ان تمام قبائل بشمول طالبان نے یہی کہا کہہ اگر بھارت نے کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے پاکستان پر حملے کی حماقت کی تو ہم حکومت کے ساتھ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی حفاظت کریں گے۔ کیا یہ ایک قوم کی نشانی نہیں کہ جب کوئی غیر قوم اسکے مقابلے میں آکھڑی ہو تو ہزار اختلافات کے باوجود وہ ایک ہو جائے؟ مجھے یقین ہے مضمون نگار اس سب کچھ سے باخبر ہونگے اور ان حالات سے بھی جو پاکستان کو اپنی سرحدوں خصوصاً مشرقی سرحد پر درپیش رہتے ہیں پھر بھی وہ ان سے صرف نظر کر کے معترض ہیں کہ بھارت کے ساتھ ساٹھ سالہ تنازعے نے سوائے اس کے کچھ نہ کیا کہ پاکستان کو ایک مسلح ریاست بنا دیا جس نے پاکستان کو غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا یہ اعتراض ہمیں بھی ہے کہ بھارت کو اپنی نیت درست کر لینی چاہیئے تاکہ جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ ختم ہو اور عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جا سکے۔ مضمون صاف طور پر یہ تاثر دے رہا ہے کہ مضمون نگار کافی حد تک بھارت سے متاثر ہیں وہ بلوچستان میں بھارت کو مورد الزام ٹھرانے سے گریزاں ہیں ان کے حکومتی نظام سے بھی متاثر ہیں تو عرض یہ ہے اگر انکا نظام ِحکومت ملک کو قوم بنانے میں کامیاب ہے تو پھر بھارت میں دو درجن سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں کیوں چل رہی ہیں کشمیر کے مسلمان کیوں آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں نکسلائیٹ کو بھارت سرکار سے تو چھوڑیے اس ملک کے ساتھ جڑ کر رہنے سے ہی اختلاف ہے۔ اگر پاکستان کے چار صوبوں کو وہ چار الگ قومیتیں قرار دے رہے ہیں جن کا مذہب ایک ہے جہاں زبانیں مختلف ہونے کے باوجود ان کا رسم الخط ایک ہے ایک زبان کے الفاظ دوسری زبان میں بکثرت بولے اور سمجھے جاتے ہیں قومی زبان اردو تو خیر ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ جہاں علاقائی لباس صرف ڈیزائن میں معمولی ردوبدل کے ساتھ ایک ہیں جہاں طرز تعمیر میں کوئی ایک بھی نمایاں تبدیلی نہیں۔ جہاں نام ایک ہیں یہاں تک کہ اخلاقی قدریں مشترک ہیں وہ کیسے ایک قوم نہیں۔ قوم کی کونسی خاصیت جس پر پاکستانی قوم پورا نہیں اترتی۔ فرقوں کو جس طرح مضمون میں اچھالا گیا ہے تو پھر تو بھارت کبھی ایک قوم نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہاں جو چھوت چھات کا نظام ہے وہ اسی آئیڈیل ملک کی خاصیت ہے اور ہاں پھر امریکی کیسے ایک قوم ہیں دوسری یورپی اور مغربی قومیں کیسے ایک قوم ہیں کیا وہاں ایک ہی مسیحی فرقہ رہتا ہے اور کیا یہ ضروری نہیں کہ امریکی صدر پروٹیسٹنٹ ہو تو کیا دوسرے فرقوں کے پیروکاروں کو بطور احتجاج امریکہ چھوڑ دینا چاہیے۔ پاکستان میں روشن خیالی کی آڑ لے کر اس معاملے کو ہوا نہ دی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اور پاکستانی جس طرح اپنے آپکو بحیثیت قوم ثابت کر رہے ہیں اس کو نظر میں رکھنا چاہیے۔ طوفانوں، زلزلوں اور امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی مسلط کردہ آفات میں جس طرح یہ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے وہ اسے ایک قوم نہیں بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم قوم ثابت کرتا ہے۔ میرے خیال میں اگر کسی قوم میں اختلافی مسائل نہ ہو وہ انتہائی غیر قدرتی ہے اور مسلط کردہ ہم خیالی ہے اور ریاستی جبر بھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ پولیٹیکل سائنس کی رو میں اسے کیا کہا جائے گا لیکن زندہ دنیا میں یہی زندہ حقیقت ہے۔

ہاں آخر میں ایک گزارش ہے کہ اگر کسی کو پاکستان کے مسائل سے واقعی دلچسپی ہے تواس کے لیے اپنے پرنٹ میڈیا کو استعمال کرے ایک بیرونی میگزین کو جسے پاکستان میں چند گنے چنے لوگ پڑھتے ہیں استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی اور کیا ملک کے کافی سارے مثبت پہلوؤں پر بھی روشن خیال طبقہ بین الاقوامی پلیٹ فارم سے کبھی بات کرتا ہے؟
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552065 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.