شہداءِ کشمیر کے بچوں پر شریعت کی آڑ میں ظلم

 سید قطب شہیدؒ نے بہت پہلے عرب حکمرانوں کے متعلق یہ لکھا تھا کہ جب انھیں اپنا اقتدار اسلامی شریعت کے سائے میں محفوظ نظر آئے گا تو یہ لوگ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر شریعت نافذ کریں گے اور آج یہ اسلام پسندوں سے اسی لئے نبردآزما ہیں کہ انھیں نفاذ اسلام میں اپنا اقتدار ڈھتا ہوا نظر آتا ہے (مفہوم)ان کی نگاہ میں یہ مرض صرف حکمرانوں میں تھا مگر ہمیں تلخ حالات نے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ہم بچشم سر یہ دیکھ رہے ہیں کہ عوام الناس حکمرانوں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں عربوں کے اس قول کے عین مطابق ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں پر پوری دنیا میں من و عن عمل ہو رہا ہے ۔حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اورحالات کے مطابق قوانین بناتے اور توڑتے رہتے ہیں اور یہی کچھ اب عوام بھی کرتی ہے ۔کشمیر میں عسکری تحریک کا آغاز 1990ء میں ہوا ۔ہر طرف گولیوں کی گن گرج ،مار دھاڑ،تشدد،بیگار،کریک ڈاؤن ،چھاپے،ریپ اور انسانوں کی گمشدگی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں دس ہزار انسان لاپتہ ، ایک لاکھ شہداء اوران کے پسماندگان میں لاکھوں یتیم بیٹے اور بیٹیاں اس مظلوم قوم کی جھولی میں ڈالے گئے ،جن کا نہ کوئی پرسان حال ہے نہ ہی کوئی مدد گار ۔ذاتی طور پر جس کے قریبی ورثاء نے دیکھ بھال کی تو کی نہیں تو کتنے گھرانے اور معصومین قوم کی بے اعتنائی اور مظالم سے تنگ آکر غلط راستوں پر چل پڑے ۔

حیرت یہ کہ ان یتیموں کی دیکھ بھال ،ہمدردی،توجہ اور ڈھارس بندھانے کے برعکس شرمناک رویہ اپنا یا جا تا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس پر بعض اوقات شریعت کی مہر لگا کر اپنے نفس کو خوش کرنے کا سامان پیدا کیا جاتا ہے ۔28برس کی تحریک نے ہمارا دامن صدمات سے بھر دیا ہے اور ان کا فی الحال نہ کوئی علاج نظر آتا ہے اور نہ ہی مرہم ۔کشمیر میں عسکری تحریک کے شروع ہوتے ہی یتیموں ،بیواؤں اور لا پتہ افراد کی ایک فوج ہمارے حصے میں آئی اور یہ ہر عسکری تحریک کا خاصا ہوتاہے پر المیہ یہ کہ نوجوان بیواؤں اور ان کے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔اکثر نوجوان لڑکیوں کو کربناک ماحول سے دوچار ہونا پڑا ۔شوہروں کی محرومی کے چند ایک مہینوں بعد گھر کا ماحول یکسر بدل گیا ،ہر سو اجنبیت سی محسوس ہونے لگی ،جہاں سسر اور دیور کی آنکھوں میں پہلی سی اپنائیت مفقود ہو گئی وہی ساس نے ڈائین کا روپ دھار لیا ۔یتیم بچے بکھر گئے ،معمولی سی ٹافی سے محرومی کے بعد لباس اور تعلیمی مراحل عبور کرنا ہمالیہ پر چڑھنا محسوس ہوا ،صفر آمدنی والی نوجوان ماں کہاں جائے ؟کس سے مانگے؟کون دے گا؟تحریک والوں کا پتہ بے پتہ ہوگیا!حریت کے پاس بجٹ نہیں !جہادیوں کو جان کے لالے پڑے ہیں ؟دینی تنظیموں کے ہاں کوئی ’’مد‘‘ہی موجود نہیں ؟ہمسایہ دولتمندوں کے ہاں پیسہ نہیں ! غریبوں کے پاس کھانا نہیں ہے!لے دے کے حکومت رہتی ہے جس پر تمام جہادی ،دینی اور حریت تنظیموں نے طاغوت کا ٹھپہ لگا دیا ہے اس کی طرف رُخ پھیرنا حتیٰ کہ اپنا ’’حق‘‘وصولنا بھی ایسا گناہ گویا ’’اکبر الکبائر‘‘۔تمام تر راستے بند ہونے کے بعد انسان کی فطرت خفیہ راستے تلاش کرتی ہے یہ دیکھے بغیر کہ یہ خفیہ اور انسانی نگاہوں سے ُاوجھل راستہ ’’اچھا ہے یا برا۔

چند روز قبل ایک نوجوان کو ایک صاحب ثروت شخص نے پچاس ہزار روپیہ دیدئے تاکہ صدقے کی اس چھوٹی سی رقم کو چند غریبوں میں تقسیم کر دیں ۔وہ نوجوان ایک بستی میں غریبوں کو تلاشنے لگا تو معلوم ہوا کہ یہاں جہادی تحریک سے وابستہ بعض شہداء کی بیوائیں بہت غریب ہیں ۔وہ ان سے ملا تو معلوم ہوا کہ تین بیوائیں برقعہ پہن کر باضابطہ بھیک مانگنے جاتی ہیں ! باتوں باتوں میں ایک بیوہ نے شرماتے ہوئے تلخ جملہ بول کر نوجوان کو ششدر کردیا جب اُس نے باربار پوچھا کہ جب آپ کی آمدنی کچھ بھی نہیں ہے تو گذر بسر کیسے ممکن ہوپاتا ہے ؟دیر تک سوال کو ٹالنے کے بعد ایک بیوہ بولی بھائی صاحب ’’معلوم ہے کہ جو ہم کرتے ہیں اُس سے قبر تو جلتی ہے پر ہمارے بچے تو پلتے ہیں ناں‘‘یہ نوجوان میرے پاس یہ دکھڑا لے کر پہنچا اور اُس کی آنکھوں میں آنسوں چھلک رہے تھے ۔میں چونکہ ان جیسے واقعات سنتے سنتے اﷲ بچائے گویا سنگدل ہو چکا ہوں سیاہ کار چند ایک آہیں بھر کر نوجوان کو رُخصت دیا ہی تھا کہ میرے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ،میں نے سلام کیا تو دوسری طرف آوازایک نوجوان لڑکی کی تھی،اُس نے پوچھا آپ الطاف ندوی ہیں ؟میں نے کہا جی فرمائیے کیا حکم ہے اُ س نے مغموم لہجے میں کہا کیا آپ کے پاس بات کرنے کے لئے وقت ہے ؟میں نے جواباََکہا کیوں نہیں آپ فرمائے !اُس نے کہا ندوی صاحب ’’کیا اسلامی شریعت ایک لڑکی یا لڑکے کو باپ کی شہادت یا انتقال ہوتے ہی دادا کی میراث سے محروم کردیتا ہے؟‘‘میں چونک گیا میرا تجربہ ہے کہ ان سوالات کے پیچھے ایک دردناک داستان ہوتی ہے ۔میں نے نام پتہ پوچھنے کے بعد ’’ہاں یا ناں‘‘میں جواب دینے کے بالکل برعکس یہ جاننے کی کوشش کی اصل مسئلہ کیا ہے ۔
’’ہاں‘‘ میں جواب دیکر میں جان چھڑا سکتا تھا مگر مجھے معلوم ہے کہ دو اچھے بول بھی صدقہ ہے اور میرا’’ برحق ہاں‘‘ کسی مظلوم بیٹی یا بہن کے لئے ’’ایٹم بم ‘‘ثابت ہو سکتا ہے ۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ شریعت اسلامی کے نام پر نہ دینے کے ڈرامہ باز دادا جان دینے کے سینکڑوں راستوں سے جان بوجھ کر آنکھیں پھیر کر نوجوان بہو اور یتیم پوتے کی ساری ملکیت اور مال اپنی لاڈلیوں اور پیاروں کی جیب میں ڈال کر شریعت کی تحریف کر تے ہو ئے علماءِ دین کو بھی جان بوجھ کر بدنام کرتے ہیں ۔میں پوری کہانی سن کر حیرت میں ڈوب گیا کہ آخر ’’بے چارے اسلام ‘‘کا ہم نالائق کوئی بھلا کرنے کے بجائے اس کی بدنامی کا باعث کیوں بن رہے ہیں ؟معلوم ہوا کہ دادا جان کا ایک ہی بیٹا تھا جو 1990ء میں آزاد کشمیر چلا گیا واپسی پر انڈین آرمی سے جھڑپ ہوئی تو آج تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ شہید ہوا ہے کہ لاپتہ ہے!پورے اٹھائیس برس دھکے کھاتے کھاتے انتیس سالہ بیٹی کو دادا جان نے یہ حکم سنا دیا بیٹی تمہاری نوجوان والدہ دوسری شادی کر چکی ہے تم بھی ہمارا پیچھا چھوڑ کر کہیں اور چلی جا ؤ!رہی بات میرے مال کی وہ میں اس لئے نہیں دے سکتاہوں کہ تم کو اسلام نہیں دیتا ہے لہذا میں ہی غضبِ خدا وندی کو دعوت دیکر آپ کو دینے کا گناہ کیوں کروں؟

بیٹیاں ویسے بھی بے زبان ہوتی ہیں ،عمر بھر ماں سکھاتی رہتی ہے کہ باپ کے سامنے منہ کھولنا تودرکنار آنکھ بھر کر دیکھنا بھی مردانگی ہے اور تم کو ایسی جرأت زیب نہیں ،رہے داداجان وہ تو ایسی مقدس ہستی ہے جس کے پیر چومنے سے سات آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں لہذا خبردار کبھی کڑواہٹ نہیں ۔بیٹی نے جب اُس شریعت کی بات سنی جس کے قیام کے لئے اُس کے اباجان اپنی جان تک دے چکے ہیں تووہ خاموش ہوگئی ۔خاموش نہ ہوتی تو اردگرد مذہبی مافیا(جس کو میں جان بوجھ کر مذہبی مافیا لکھ رہا ہوں)’’حکمِ کفر‘‘ کی توپ داغ کر ’’باز آنے تک سوشل بائیکاٹ‘‘بھی کراسکتے تھے اس لئے کہ ان عیار اور بدمعاشوں نے باضابطہ داداجان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہو ئے بے چاری کا ناک میں دم کر رکھا ہے ۔اس فتویٰ کے پس میں حیرت انگیز حد تک وہ’’مالِ رشوت‘‘بھی شامل ہے جو اس مذہبی مافیا کو دادا جان نے زمین کا ایک ٹکڑا’’ برائے درس گاہ ‘‘دینے کا وعدہ بھی کر لیا ہے۔اس صورتحال سے میں چکرا گیا میں نے ٹیلی فون پرسوال پوچھنے والی بہن کی ہمت بندھاتے ہوئے عرض کیا آپ گبھراؤ نہیں اﷲ تعالیٰ آپ کے لئے اپنے رزق کے دروازے کھول دے گا ،مگر سچائی یہی ہے کہ یہ اس سوال کا نہ جواب ہے اور نہ ہی ان مسائل کا کوئی حل بلکہ یہ مسائل سے بھاگنے کی ایک ناکام کوشش ہے ۔

کیا سچ میں اُس اسلام نے پوتی یا پوتے کو دادا کی وراثت سے مکمل طور پرمحروم کردیا ہے جس نے مدینہ طیبہ میں نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں مواخاۃ کی ایسی مثال قائم کردی کہ نہ پہلے اس کی کوئی نظیر میسر تھی اور نہ ہی مستقبل میں ایسی پاکیزہ رشتہ قائم ہونے کی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے ؟چودہ سو برس کی اسلامی تاریخ میں جب بھی کسی مسلمان خطے پرکوئی آفت آئی اور وہاں کے مقیمین کو دوسرے برادرہمسایہ ملک میں ہجرت کرنی پڑی تو کیا وہاں اپنے سینے کھولنے والے انصار یوں کے ہاں شریعت اسلامی نے مددو نصر ت پر ابھارنے کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ جنت اور رضائے الٰہی کی بشارت نہیں سنائی حالانکہ مابین کوئی نسبی رشتہ نہیں ہوتا ہے ؟آج بھی پاکستان ،ایران،ترکی ،مختلف عرب ممالک میں پھیلے ہوئے لاکھوں مسلمان مہاجرین ہجرت کسی نسبی رشتے یا تعلق کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں اور انصار یوں کا رول نبھانے والے وہاں کے اصلی باشندے بھی اپنے دل کسی رشتہ داری نہیں بلکہ ’’محبتِ دین ‘‘کی بنیاد پر کھولتے ہیں ۔جن مسلمانوں کی تاریخ ایسی روشن اور بارونق ہو کیا وہ شریعتِ اسلامی کی آڑ میں اپنے حقیقی رشتہ داروں کو اپنی دولت سے مکمل طور پر محروم کر سکتے ہیں؟

اسلام نے وراثت کی تقسیم میں نزدیکی رشتہ داروں کو ملحوظ رکھتے ہو ئے انھیں وفات شدہ شخص کے مال میں شریک تو کیا ہے پر دور کے رشتہ داروں کو محروم بھی نہیں کیا ہے فرق بس اتنا ہے کہ قریب ترین کو زیادہ جبکہ بعید کو کم شراکت پر وارث بنا دیا ہے ۔یتیم پوتایا پوتی اپنے باپ کو کھونے کی وجہ سے براہ راست دادا سے وراثت حاصل نہیں کر سکتی ہے مگر کیا داداکو اسلام نے نہ دینے کا پابند کیا ہے حالانکہ اسلام نے اس کے لئے دو راستے اور بھی کھلے رکھے ہیں ایک یہ کہ دادا پوتے یا پوتی کو ’’ہبہ‘‘کر کے جتنا چاہیے مال دے سکتا ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت یا روکاوٹ نہیں ہے ۔اس کے علاوہ داداپوتے یا پوتی کے حق میں چھٹے حصے میں وصیت بھی کر سکتا ہے۔ان دونوں صورتوں میں شریعت اسلامی دادا کو نہیں روکتی ہے بلکہ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ بخیلی اور تنگ دلی سے منع کرتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ کو سخاوت بہت پسند ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں ، اﷲ عزوجل ارشادفرماتا ہے:تم میرے راستے میں خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا پھر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اﷲ رب العزت کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، اس کو دن رات کا (مسلسل)خرچ بھی خالی نہیں کرسکتا ، کیا تم نے دیکھا نہیں، اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کتنا خرچ کیا ہے، جب سے اس نے آسمان وزمین کو پیدا فرمایا ہے۔ تخلیقِ سموات والارض کے وقت سے لے کر اس کا (مسلسل )خرچ اس کے دست مبارک میں سے ایک ذرہ کے برابر بھی کم نہیں کرسکا۔اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں سلب کر لینے کا اختیار ہے ، وہ جسے چاہتا ہے اوج ورفعت سے ہمکنار کرتا ہے اورجسے چاہتا ہے (ذلت و)پستی میں دھکیل دیتا ہے۔(بخاری، مسلم، السنن الکبریٰ، ترمذی)حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :بے شک اﷲ تعالیٰ بڑا سخی ہے اورسخاوت کو پسند فرماتا ہے اوروہ اعلیٰ اخلاق سے محبت کرتا ہے اوربرے اخلاق کو ناپسند کرتا ہے۔ (الجامع الصغیر )عمر وبن شعیب رحمۃاﷲ علیہ اپنے والد گرامی سے اوروہ اپنے جدامجد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اوراستفسار کیا، میں اپنے حوض میں مشکیزوں سے پانی بھر بھر کر ڈالتا ہوں میں اسے اپنے اہل خانہ کے لیے بھرتا ہوں، لیکن جب کسی اورکااونٹ وہاں وار د ہوجاتا ہے ، تو میں اسے بھی پانی پلادیتا ہوں، کیا اس (عمل)میں میرے لیے اجروثواب ہے، جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ہر گرم جگر والے (کی خدمت)میں اجر وثواب ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، الترغیب والترہیب)

یتیم پوتا یا پوتی وراثت سے براہ راست محرومی کے باوجود دادا کے جگر گوشے ہو تے ہیں آپﷺ کی اپنے پوتوں سے محبت کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی ہے ۔کیا یا حیرت کا مقام نہیں ہے کہ دادا کو اسلام نے اپنے پوتے کو نوازنے کے درجنوں راستے کھلے رکھ کر ایک راستے کو ’بند‘ کر کے اس کے ذہن و ضمیر پر سارا بوجھ ڈال دیا ہے ؟یہ کون سی تک بندی ہے کہ دادا یہ دعویٰ کرے کہ مال و دولت کیا میں تو اپنے وجود تک کو پوتے پر قربان کرنے کو تیار ہوں پر مال نہیں اس لئے کہ شریعت نے میرے ہاتھ باندھ رکھے ہیں !کیا سچ میں دادا صاحب اپنے دعوے میں سچا ہے یا یہ صرف اسلام کے تقسیم وراثت کو بہانہ بنا کر یااس کی آڑ میں انھیں درجنوں دینے کے طریقوں سے ہاتھ روک کر پوتوں کو باپ کی محرومی کے بعداور زیادہ ستم زدہ بنانے کی حماقت کا علانیہ ارتکاب ہے ؟ آخر یتیم بچوں کو دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ نوازنے کی تلقین کرنے والا اسلام دادا کا ہاتھ کس طرح باندھ رہا ہے ؟کہیں یہ دادا حضرات کی تنگ دلی ،بخیلی اور بے مروتی کی بدترین مثال اور رجحان نہیں ہے حالانکہ آپﷺ خود یتیم تھے اور یتیموں کی دلداری کی باربار تلقین فرمائی ۔

مفتی محمد مجیب الرحمان صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت جعفرؓ کے انتقال کے بعد آپ مسلسل ان کے گھر جاتے تھے، ان کے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے، جب بھی ان کی والدہ ان کی یتیمی اور ضروریات کا ذکر فرماتیں توآپ ؐ انہیں تسلی دیتے کہ ان پر کچھ خوف نہ کریں دنیا وآخرت میں ان کا ولی میں ہوں(مسند احمد) مسجد نبوی کی تعمیر کا مرحلہ در پیش ہوا تو اس کے لئے یتیموں ہی کی زمین منتخب ہوئی، آپؐ نے یتیموں کی اس پیشکش کو کہ (وہ زمین مفت میں مسجد کے لئے دیں گے) ٹھکرادیا، اس زمین کی قیمت ادا کئی گئی (بخاری) تاکہ یتیموں کے مال سے ناجائز طور پر پرورش پانے والا معاشرہ اس کو نظیر نہ بنائے، اس کے ذریعہ اپنے لئے گنجائش وسہولت کی راہیں نہ پیدا کرلیں۔نیز ایک دفعہ آپؐ اپنے نواسوںؓ کو نئے کپڑے پہنا کر عید کی نماز کے لئے جارہے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ مٹی میں گرا ہوا رورہا ہے، آپؐ نے اس بچے سے پوچھا کیا ہوا ،کیوں رورہے ہو؟ بچے نے جواب دیا آج میرا کوئی باپ نہیں جو مجھے نہلاتا، مجھے نئے کپڑے پہناتا، مجھے خوشبو لگاتا، اسی لئے میں رورہا ہوں، اپنے آپ پر ماتم کررہا ہوں، آپؐ نے عید گاہ کے بجائے گھر کا رْخ کیا، اس بچے کو ساتھ لیا حضرت فاطمہ ؓسے کہا کہ اس لڑ کے کو نہلادو، میرے بیٹے حسنؓ کے نئے کپڑے اتار کراس لڑکے کو پہنادو، جس کا کوئی نہیں اس کا تو محمد ﷺہے۔
بے باپ بچوں کا چونکہ معاشرہ میں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، کوئی ان کی تکالیف کا مداوا نہیں کرتا، کوئی ان کی ضروریات کا لحاظ نہیں کرتا، کوئی ان بچوں کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش نہیں آتا، کوئی ان کے نازو نخرے برداشت نہیں کرتا، اسی لئے آپ نے امت کی توجہ مبذول فرمائی کہ جو شخص یتیم کے سر پرصرف اﷲ کے لئے ہاتھ پھیرے، ہر ہر بال کے عوض جس پر اس کا ہاتھ گذراہے اس کو نیکی ملے گی، (مسند احمد) ۔ظاہر ہے سر پر ہاتھ پھیرنے سے اس کی نہ تو کوئی دنیاوی ضروریات پوری ہوئی، نہ ہی اس کی کسی خواہش کی تکمیل ہوئی، بلکہ اس کے ذریعہ اس کو معاشرہ میں اجنبیت کا احساس نہ ہوا، اس کے ذریعہ اسے یہ احساس ہو کہ اگر چہ اس کے والد نہ رہے لیکن اب بھی اﷲ کے لئے اس سے محبت کرنے والے موجود ہیں، جس طرح اس میں یتیم کے لئے انسیت ہے، اسی طرح اس میں ہاتھ پھیرنے والے کے لئے بھی بڑی فضیلت ہے کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی، غور طلب امر یہ ہے کہ صرف ہاتھ پھیرنے والاہی اتنی نیکیوں کا مستحق ہے تو اس کے ساتھ مزید حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرنے والا کس قدر نیکیوں کو پائے گا یہ تصور سے بالا تر ہے۔ آپؐ نے اس کے ذریعہ قساوت قلبی کا علاج بتایا، ایک صحابیؓآپؐ کی خدمت میں حاضر ہو ااور سنگدلی کی شکایت کرنے لگا آپؐ نے فرمایا اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو، تمہاری ضرورت پوری ہو، تو تم یتیم پر رحم کرو، اس کے سر پر ہاتھ پھیرو، اپنے رزق سے اسے کھلاو، تمہارا دل نرم ہوگا، تمہاری ضرورت پوری ہوگی(مسند احمد) ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی اور حریت تنظیمیں اس بدترین رجحان کے خاتمے کے لئے جگہ جگہ اجتماعات منعقد کر کے مسلمانان کشمیر میں اس بات کی وضاحت کریں کہ بلاشبہ پوتا براہ راست محروم ضرور ہوتا ہے پر دوسرے کئی معروف شرعی راستوں سے اجتناب کرکے دین پر پوتے کومکمل طور محروم کرنے کی تہمت لگانا ناقابل برداشت جرم ہے جو کم سے کم دادا جیسے قریب ترین رشتہ دار کو زیب نہیں دیتا ہے ۔
 

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93724 views writer
journalist
political analyst
.. View More