یہ پڑھے لکھے پنجاب کا سکول ہے۔
یہ ایک پاکستانی دیہاتی سکول کا منظر ہے۔
پہاڑی نالے کے کنارے نسبتاً اونچی لیکن ہموار زمین پر دور دور تک ننھے منے،
چھوٹے بڑے، گورے چٹے بچے قطار در قطار بیٹھے ہیں ۔ سیاہ لباس میں ملبوس یہ
ہیرے اپنے اپنے گھروں سے بوریوں کے ٹکڑے ساتھ لے کر آئے ہیں۔ جنھیں بوری کا
ٹکڑا میسر نہ تھا وہ ’’ اپنے اپنے ‘‘ پتھر پر جلوہ افروز ہیں۔یہ لوگ گذشتہ
روز چھٹی سے قبل پتھروں پرنشان لگا کر جھاڑیوں میں چھپا گئے تھے، اس خدشے
کے پیش نظر کہ اگلے روز کوئی اور ان کی ’’سیٹ‘‘ پر قبضہ نہ کر لے ۔ سکول
میں کلاسیں شروع ہوچکی ہیں ۔ بچے حسب معمول اپنے اپنے بوسیدہ تھیلے کھول کر
بیٹھ چکے ہیں۔ شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بچے ایک دوسرے کے کان
کھینچ رہے ہیں ۔ کچھ کرکٹ کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض منچلے ماسٹر جی
کی کرسی کے پائے کے ساتھ چمٹے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ابھی اونگھ رہے ہیں،
چند لمحے اور گزرے تو یہ بچے سو جائیں گے۔ کچھ ایسے ہیں جو دوسروں کے
کندھوں پر چڑھ کر نعرے لگانے میں مشغول ہیں۔
دس بجنے میں کچھ منٹ باقی ہیں ۔ اچانک کلاس پر سناٹا طاری ہو جاتا ہے ۔
ادھیڑ عمر کے ماسٹر جی ہاتھ میں ’’ مولابخش‘‘ تھامے کرسی کی جانب بڑھتے
ہیں۔ ان کے چہرے سے تھکاوٹ کے آثار ہویدا ہیں ۔یوں لگتا ہے پوری رات ہمالیہ
پہاڑ کے دامن سے نہر نکالنے کے لیے کھدائی کرتے رہے ہیں ۔’’ کدال اور بیلچے
’’کی مشقت نے ماسٹر جی کو جیسے ادھ موا کر رکھا ہے۔ وہ بمشکل اپنا بھاری
بھرکم جثہ ٹوٹی کرسی پر ڈالتے ہیں ۔ کلاس میں برپا شور تھم چکا ہے ۔اب کھسر
پھسر ہو رہی ہے، بستے کھلنا شروع ہو چکے ہیں۔
ماسٹر جی نے نیم وا آنکھوں سے دائیں بائیں دیکھا۔ ایک لمبی جمائی لی اور
اپنے نیم گنجے سر کو کھجاتے ہوئے پہلی قطار میں بیٹھے ایک بچے کو للکارا:
’’ اوئے غفورے ! اٹھ اور بچوں کو پہلی کہانی پڑھا۔‘‘
غفورا والدین نے جس کا نام یقینا عبدالغفور رکھا تھا اپنی پھٹی پرانی کتاب
تھامے کھڑا ہوا۔ ماسٹر جی نے اسے للکارا: ’’ اوئے ! سیدھا کھڑا نہیں ہو
سکتا…… گوڈی کرتا رہا ہے کیا ہڈ حرام ؟‘‘
غفورا ‘تن کر کھڑا ہو گیا اور پھیپھڑوں کو پوری طرح پھُلا کر چیخا:
’’وارث کا سکول‘‘
’’یہ وارث کا سکول ہے، اس میں آٹھ کمرے ہیں ، اس میں کھیلنے کے لیے ایک بہت
بڑا میدان ہے، پینے کا صاف پانی اور بیٹھنے کے لیے کرسیاں ہیں۔‘‘
عبدالغفور چیخ چیخ کر بول رہا ہے اور بچے بھی چیخ چیخ کر دہرا رہے ہیں۔
اچانک دوسری قطار میں کچھ ہل چل پیدا ہوئی۔ ایک بچہ کانپتا ہانپتا کھڑا
ہوتا ہے۔ وہ ماسٹر جی سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔
بڑی مشکل سے اس کی زبان سے نکلا:
’’ ماسٹر جی ! یہ وارث کا سکول بہت اچھا ہے جی …… ہمارا سکول کیوں اچھا
نہیں ہے؟ یہاں کرسیاں ، کمرے …… ‘‘
’’ بیٹھ اوئے …… بیٹھ رول نمبر ۱۵ …… تمھیں ہزار بار کہا ہے زیادہ سیانے نہ
بنا کرو …… وہ وارث کا سکول ہے۔‘‘ اور ’’ یہ لاوارثوں کا …… ‘‘ ماسٹر جی
کھسیانے سے ہو گئے۔
’’ نکالو ! تختیاں ……‘‘ ماسٹر جی ایک وقفے کے بعد پھر بولتے ہیں ۔
کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ تختیاں نکل آتی ہیں۔ کلاس میں کافی دیر تک سناٹا رہتا
ہے۔ ماسٹر جی کلاس پر ایک طاہرانہ نگاہ ڈالتے ہیں اور اپنی ٹانگیں پھیلا
دیتے ہیں ۔اب وہ نیم دراز ہیں، عینک ناک کی نوک پر ہے ۔ ’’ لکھو ……‘‘ وہ
بچوں سے کہتے ہیں اور بچوں کے ہاتھ مشین کی طرح رواں ہو جاتے ہیں ۔سیدھے
الٹے حروف تختیوں پر منتقل ہو رہے ہیں۔چند منٹ خاموشی رہتی ہے ایسی خاموشی
کہ قلم چلنے کی آواز تک سنائی نہیں دیتی، یہ روز کا معمول ہے۔بچے لکھ رہے
ہیں اور ماسٹر جی پوری یکسوئی کے ساتھ کرسی پر اپنی نیند پوری کر رہے
ہیں۔اب خاموشی ٹوٹ رہی ہے۔ ماسٹر جی کے خراٹے ابھرنے لگے ہیں۔ادھر کلاس روم
میں بھی شور اٹھتا ہے:
’’ماسٹر جی! اکرم ڈوبا لگا رہاہے جی ‘‘
’’ماسٹر جی! اسلم دوات توڑ گیا ہے جی ‘‘
’’ماسٹر جی ! ماسٹر جی! کرامت بریکیں لگاتا ہے جی۔‘‘
’’ ماسٹر جی ! پانی پینا ہے جی۔‘‘
ماسٹر جی ! ، ماسٹر جی …… ی ……ی ……ی ‘‘
’’ بند کرو اپنی تھوتھنیاں ‘‘ ماسٹر جی ہڑ بڑاکر اٹھ بیٹھتے ہیں۔
’’ ادھر آ…… آدھر آتو رول نمبر ۱۳…… تو بہت شرارتی ہے …… پکڑو ،کان……‘‘
ماسٹر جی رو ل نمبر ۱۳ کو مرغا بنا دیتے ہیں اور اس ننھی سی جان پر لاٹھی
برسا دیتے ہیں جس نے شاید ہی شور کیا ہو ،لیکن ماسٹر جی دوسرے بچوں پر رعب
ڈالنے کے لیے کسی ایک بچے کی مرمت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ۔مرمت بھی ایسے
جیسے بوری سے گرد جھاڑتے ہیں۔
’’ اوئے اسلم کے بچے ! اٹھ اور پہاڑے پڑھا۔‘‘ ماسٹر جی ایک اور طالب علم کو
حکم دیتے ہیں۔
اسلم اپنی قمیص کے بازو سے ناک صاف کرتے ہوئے اٹھتا ہے۔ رول نمبر ۱۳ پر ایک
نظر ڈالتا ہے اور پھر چیخ اٹھتا ہے:
’’اک دونی دونی ، دو دونی چار۔‘‘
جس زو ر سے اسلم پڑھتا ہے، اس سے دو گنے زور سے بچے جواب دیتے ہیں۔اسی
اثناء میں تھکاوٹ سے چور چور ماسٹرجی پھر گہری نیند سوجاتے ہیں ۔
اسلم رٹے رٹائے پہاڑے پڑھا کر بیٹھ چکا ہے …… اب کلاس میں شور نہیں۔ جو
درگت رول نمبر ۱۳ کی بنی تھی اس نے سب کو چپ رہنے پر مجبور کر دیا ہے جیسے
کلاس کو سانپ سونگھ گیا ہو۔
’’ ماسٹر جی نصیب اﷲ مکا مارتا ہے جی ‘‘ اچانک زور دار آواز بلند ہوتی ہے ۔
’’کون مارتا ہے ایں ؟ …… کون مارتاہے ؟‘‘ ماسٹر جی ہڑ بڑا کر اٹھتے ہیں
جیسے انھیں کرنٹ لگ گیاہو۔ انھوں نے ایک لمبی جمائی لیتے ہوئے سکون سے گردن
ٹیک دی۔ چند ثانیے تھوڑا سیدھے ہوکر بیٹھے اور نیم وا آنکھوں سے کلاس کو
دیکھا۔
’’ اوئے کیا نام ہے تمھارا …… فضل داد کے بیٹے۔‘‘ ماسٹر جی ایک لڑکے کو
پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
’’اختر علی ہے جی میرا نام ۔‘‘ بچہ ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوتا ہے۔
’’ ادھر آؤ ۔‘‘ وہ ڈرتا ڈرتا قریب آتا ہے۔
’’ جاؤ باہر …… رفیق پردیسی کا ہوٹل ہے ناں۔‘‘
’’ جی ہے جی ‘‘ اختر کی جان میں جان آتی ہے۔
’’ وہاں سے دو کپ چائے لے آؤ ۔‘‘
لڑکا جانے لگتا ہے تو ماسٹر جی پکارتے ہیں۔
’’ سنو اوئے …… اوئے فضل داد کے لڑکے …… کیا نام ہے تمھارا …… چینی کم ،
پتی تیز …… اسے کہنا دو چار جلیبیاں بھی دے دے…… اور سنو! راستے میں
جلیبیاں چاٹنی نہیں …… سن لیا تم نے……‘‘
’’ جی سن لیا جی ‘‘ اختر یہ کہتا ہوا باہر نکل جاتا ہے۔
اب ماسٹر جی کلاس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
’’اوئے خلیل صاحب کے بچے ! کیا نام ہے …… ہاں رول نمبر ۱۸ ادھر آؤ …… لڑکا
ہانپتاکانپتا ماسٹر جی کی کرسی کے پاس آتا ہے ۔
’’ وہ میری چیز کدھر ہے جو کل مانگی تھی۔‘‘ ماسٹر جی للکارے۔
’’ وہ جی …… ماں کہہ رہی تھی کہ کل مرغی نے انڈہ دیا ہی نہیں، جی مرغی کچھ
بیمار شمار ہو گئی ہے جی ……‘‘
’’ مرغی کے بچے!اسے ٹیکہ لگوا لیتے ناں ایں …… جاؤ چھٹی کرو اور مرغی کو
ٹیکہ لگواؤ …… پرسوں ضرور انڈے لے کر آنا ۔‘‘
’’ٹھیک ہے جی‘‘ اور رول نمبر ۱۸ بستہ اٹھا کر مرغی کے علاج کے لیے چلا جاتا
ہے۔اس کے چہرے سے یوں لگ رہا ہے جیسے اس نے کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔
’’ نکالو اردو کی کتاب ‘‘ ماسٹر جی نے انگڑائی لیتے ہوئے ڈنڈا زمین پر
پٹخا۔
’’ حروف کیسے جڑتے ہیں؟‘‘
’’پڑھیں …… بک ……ری……بکری۔‘‘
بچے بھی پڑھتے ہیں …… بک ……ری……بکری۔‘‘
’’بے الف با …… بے الف با ……بابا …… الف مد آ …… بابا آ…… چے الف چا،چے الف
چا……چاچا……۔‘‘
ماسٹر جی چند جملے ہی پڑھا پائے تھے کہ چائے اور جلیبیوں کی مہک نے انھیں
وقفہ کرنے پر مجبورکر دیا ۔ان کے منہ میں پانی بھر آیا، چنانچہ باقی پڑھائی
انھوں نے رول نمبر گیارہ کے ذمے کرتے ہوئے چیخ کر کہا ’’ اوئے سیدھے بیٹھو
‘‘ اور بچے بوری کے ٹکڑوں پر کھسکنے لگے۔ بچے حسرت بھری نظروں سے ماسٹر جی
کو دیکھ رہے ہیں جوجلیبیاں منہ میں ٹھونسے چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں۔ چائے
ختم کرنے کے بعد ایک لمبی ڈکار ان کے حلق سے نکلی، ’’ہب ہب ہب ……آ…… آ‘‘
وہ ڈکارمارتے جارہے ہیں اور سگریٹ کادھواں ان کے نتھنوں سے ابل رہا ہے۔
ابھی کئی ڈکاریں اور سگریٹ کا دھواں نکلنا باقی ہے کہ چھٹی کی گھنٹی بج
اٹھتی ہے۔ ماسٹر جی اپنا جسم کرسی سے بمشکل اٹھاتے ہیں ، تھکے ہارے یوں کلا
س سے رخصت ہوتے ہیں جیسے گذشتہ سات اور آنے والی بیس انسانی نسلوں پر احسان
کر دیا ہو …… ’’ ٹن ٹن ٹن ‘‘
(اس کے ساتھ ہی تیزی سے پردہ گرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ پردہ حکمرانوں کی عقل
پر گرتاہے) |