تعلیم وتربیت وہ وسیلہ ہے جس سے انسان مہذب بنتا ہے، اسی
لئے بزرگوں نے تعلیم کا اصل مقصد سیرت کی تعمیر اور شخصیت کی تکمیل قرار
دیا ہے، تعلیم کا رواج اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ یہاں کی تہذیب، سب سے پہلے
انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے نظام تعلیم کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے
استعمال کیا، حالانکہ ان سے پہلے یہاں مسلمان حکمراں رہے لیکن انہوں نے
تعلیم پر کبھی بری نظر نہیں ڈالی، اسی رواداری اور وسعتِ قلب کا نتیجہ ہے
کہ یہاں کی قدیم تہذیب اور اس کے ساتھ دوسری زبانوں کو پنپنے کے مواقع بھی
میسر آیا۔
عمومی طور پہ دیکھا جائے تو دن بہ دن تعلیمی معیار پست ہوتا جارہا ہے
،سرکاری اسکول ہوں یا پرائیویٹ یا اعلی تعلیمی مراکز سب مادیت پرستی کے
شکار ہیں،اکثر اسکول سالانہ نصاب کو جیسے تیسے ختم کرنے پر کار بند
ہیں،ٹیوشن کے نام پر صرف ان طلبا کی کھیپ تیار کی جارہی ہے جو مارکس حاصل
کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں ،نصاب کا حال انتہائی پیچیدہ اور عملی زندگی سے
میل نہیں کھاتا،پندرہ سالہ تعلیمی دور کا عملی زندگی میں صحیح اورحقیقی
مصرف تلاش کرنے میں اکثر نوجوان کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں،مشکل سے بیس فیصد
نصابی تعلیم کا عملی زندگی میں استعمال کر پاتے ہیں،مغربی طرز تعلیم کے کچھ
روشن پہلو ضرورہیں لیکن ان میں اور مغربی طرز تربیت میں فرق کرنا بے حد
ضروری ہے ،نفسانفسی کے اس دور میں صرف معقول تربیت ہی ہے جوایسی تعلیم کے
لاشے میں جان ڈال سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کو تعلیم کا صحیح مصرف عطاکر
سکتی ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد پوری دنیا کی طرح ہمارے یہاں بھی تعلیم کا شہرہ تو بہت
ہوا لیکن اس کو خاطر خواہ فروغ حاصل نہیں ہوسکا اور اسی لئے ہمارے یہاں
ناخواندہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ، آج جو حلقے پرانے وقار کی
واپسی کے خواہاں ہیں اور ملک کی تعمیر وترقی کی باتیں کرتے ہیں ان کے لئے
بہتر یہ ہے کہ وہ سیاست سے بلند ہوکر عام لوگوں میں تعلیم کے چلن کے لئے
کام کریں، ایسے پروگرام ترتیب دیں جس سے ناخواندہ افراد استفادہ کرکے علم
کی روشنی سے بہرہ ور ہوسکیں۔ بحیثیت انسان ہر پڑھے لکھے شخص کی ذمہ داری ہے
کہ وہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے کچھ وقت دے۔
دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جو انسان کو علم کے حصول کی تلقین نہ کرتا
ہو، اسلام نے تو تعلیم کو مزید اہمیت دے کر ہر مرد وعورت پر علم حاصل کرنا
فرض قرار دے دیا ہے، یہاں تک کہ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا
ہے ، جس کے ذریعہ ہمارے گھر اور معاشرے میں علم کا اجالا پھیل سکتا ہے
کیونکہ نئی پیڑھی کی پہلی تربیت گاہ اگر کوئی ہوسکتی ہے تو وہ ماں کی گود
ہے، بچہ اپنی ماں کی ایک ایک ادا سے عمل کے طور طریقے سے سیکھتا ہے، اگر
ماں پڑھی لکھی ہے تو وہ اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرسکتی ہے، ان میں تعلیم
کا ذوق وشوق شروع سے پیدا کرتی ہے، جن گھروں میں مائیں ناخواندہ ہیں تو
وہاں اولاد کی تعلیم مشکل ہوجاتی ہے ، اسی لئے ایک لڑکی کو تعلیم دینا پورے
خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے کے مترادف ہے۔
لڑکیاں نسلوں کو سدھارنے کا کام کرتی ہیں ۔وہ پڑھیں گی تبھی آنے والی
پیڑھیوں میں تعلیم کا شوق پیدا ہوگا لیکن آج پڑھنے کے بجائے رٹنے پر زیادہ
زور دیا جا رہا ہے اس لئے معیاری تعلیم ملک کے سامنے بڑا چیلنج ہے ۔ لڑکیوں
کی تعلیم میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں ۔ کہیں بیت الخلا نہیں تو کہیں پینے کا
پانی ، کسی سماجی رسم و رواج آڑے آتے ہیں تو کہیں وسائل کی کمی ۔لڑکوں کو
لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے تو کہیں کم عمر میں شادی کردی جاتی ہے ۔ غیر
محفوظ ماحول بھی بڑی رکاوٹ ہے خوشی کے ماحول میں بچوں کا تعلیم میں دل لگتا
ہے ۔ والدین ، سرپرستوں اور سماج کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری
لینی ہوگی جس میں لڑکیاں خوشی کے ساتھ اسکو ل جانے میں خود کو محفوظ سمجھیں
۔ والدین کی بیداری سے ہی معیاری تعلیم کا راستہ ہموار ہوگا ۔ بچے ملک کا
مستقبل ہیں تو لڑکیاں غرور۔وہ آگے بڑھ سکتی ہیں اگر انہیں معیاری تعلیم
حاصل ہو آج لڑکیاں کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں ہیں وہ پڑھیں گی تو ضرور
آگے بڑھیں گی اور اپنے خوابوں کے آسمان کو چھو سکیں گی۔
تعلیم کے فروغ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ گھروں کا ماحول بہتر ہو، پڑھائی
اور لکھائی کی اس میں چرچا ہو، بچوں کی تربیت والدین کے پیش نظر رہے کیونکہ
غیر تعلیمی اور ناآسودہ ماحول میں زندگی گزارنے والے بچے عام طور پر علم کے
حصول میں پیچھے رہتے ہیں، ان میں مقابلے کی صلاحیت کم سے کم ہوجاتی ہے۔
تجارت وکاروبار کے میدان میں نئی نسل کی پیش رفت جاری رہنا چاہئے لیکن اس
سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ بچوں کو مقابلوں کے امتحانات کے لئے تیار کرایا
جائے، ان کی صلاحیتوں کو صحیح سمت عطا کرکے، سرکاری نظم ونسق کے اعلی عہدوں
تک پہنچانے کے قابل بنایا جائے کیونکہ جس قوم کے لوگ انتظامیہ میں معقول
نمائندگی سے محروم رہتے ہیں وہ قوم اپنا واقعی حق بھی حاصل نہیں کرپاتی۔
مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانہ میں صحیح تعلیم کے راز کو جان لیا تھا ،
اسی لئے ان میں نامورمفکر، سائنس دان، موجد اور قائد پیدا ہوتے رہے، میرے
خیال میں صحیح تعلیم کی تین کڑیاں ہیں ایک علم، دوسرے عمل تیسرے اخلاق، اسی
طرح صحیح تعلیم کے تین مددگار ہیں ایک روشن ذہن ، دوسرے درد مند دل اور
تیسرے سودمند طریقہ، صحیح تعلیم کے تین مقاصد ہیں ایک فرد کی اصلاح، دوسرے
سماج کا سدھار اور تیسرے قوم کی فلاح وبہبود۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا نے مسلمانوں کی تعلیم کے تئیں گہری توجہ اور شغف
کو اپنایا تو وہ بھی آگے بڑھتے گئے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے
میدان میں اجتماعی طو رپر اپنے پرکھوں کے اصولوں کو اپنا کر کھویا ہو اوقار
ومرتبہ پھر حاصل کرلیں کیونکہ
جہا ں تک دیکھئے تعلیم کی فرمانروائی ہے
جو سچ پوچھو تو نیچے علم اوپر خدائی ہے
حصول تعلیم کے مختلف نافع و شافع مقاصد میں ایک مقصد علمی و عقلی بحث و
مباحثہ بھی ہے تاکہ اﷲ کی خوشنودی کی خاطر شر کو خیر میں تبدیل کرنے کے دور
رس نتائج پر پہنچا جائے کیونکہ ہدایتوں کے مختلف سر چشمے جو رحمت خداوندی
کا مظہر ہیں وہ تمام کے تمام اس قدر مفصل و مبین نہیں فراہم کیے گیے ہیں کہ
انسان بلا تگ و دو سب کچھ آسانی سے سمجھ لے، اور اہل عقل و دانش کی اہمیت
جو قرآن کریم سے خود ثابت ہے وہ باقی ہی نہ رہے، اور افکار و تدبر میں عرق
ریزی کے اور راہِ خدا میں جد و جہد کے راستے ہی باقی نہ رہیں۔
علمی و عقلی بحث و مباحثہ کے بغیر نہ تفسیر و تفہیم ممکن ہے اور نہ ہی
استنباط و اجتہاد،اس لئے حصول علم کا ایک مستحسن مقصد ضروری علمی و عقلی
بحث و مباحثہ کرنا ہے، خاص کر ان امور میں جسکی ضرورت نظام فطرت کے نفاذ،
دین فطرت کی تو سیع و عروج اور قوم و ملت اور انسانیت کی بھلائی کے لئے از
حد ضروری ہیں، خاص کر ایسے تیز رفتار مادی دور میں جہاں روحانیت اور مادیت
میں نہ صرف یہ کہ توازن محال ہے بلکہ ان دونوں میں سے کسی میں بھی حد درجہ
کمیت یا حد درجہ زیادیت جہاں انفرادی و اجتماعی ایمانی قوت کو زیر و زبر
کرنے کا باعث ہو سکتی ہے وہیں دین فطرت کے استحکام و تو سیع میں رکاوٹوں کا
باعث بھی ہوسکتی ہے ،ان نکات پر توجہ دینا از حد ضروری ہے۔ |