اداکارہ میرا اور انگلش ٹیچر!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
اداکارہ میرا کی انگلش کا مسئلہ بھی
حل ہونے کو ہے۔ کوٹ مٹھن کے ایک ٹیچر نے ، جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں،
نہایت دردِ دل کا اظہار کرتے ہوئے میرا کو انگلش پڑھانے کی حامی بھری ہے،
ان کا کہنا ہے کہ’’․․․ میرا کی ٹوٹی پھوٹی انگلش سے پاکستان کی ہر جگہ سبکی
ہوتی ہے، اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اداکارہ میرا کی انگلش درست کی
جائے، میں اس سلسلے میں میرا کو لاہور جا کر انگلش کا تلفظ ٹھیک کرواؤں گا،
اور ٹیوشن فیس بھی نہیں لوں گا․․‘‘۔ آئے روزٹی وی چینلز موصوفہ کی انگلش
ناظرین و سامعین کو سناتے اور مذاق اڑانے کا اہتمام کرتے تھے، بات کو بار
بار دہرایا جاتا، سیاق وسباق سے ہٹ کر سوال کیا جاتا اور مضحکہ اڑانے کا
بندوبست کیا جاتا۔ اگرچہ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک چینل کو بتایا بھی کہ وہ
مصروفیت کی وجہ سے تعلیم پر توجہ مرکوز نہیں رکھ سکیں،ا س لئے ان کی انگلش
کمزور ہے، مگر انہیں چِڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ شاید
اب میرا کی سنی گئی ہے اور انہیں گھر بیٹھے ٹیوٹر میسرآگیا۔
اپنے ہاں انگلش کی کہانی عجیب ہے، جسے دو جملے بولنے آتے ہیں وہ دیگر تمام
لوگوں سے ارفع گِنا جاتا ہے، اس کی شخصیت اور قابلیت کی دھاک بیٹھ جاتی ہے،
اسے اہمیت دی جاتی ہے ۔ تقریبات میں کسی وی آئی پی کے آنے پر ایسے لوگوں کو
کمپیئرنگ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، کسی بریفنگ وغیرہ کا موقع ہو تو انہی
کو آگے کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انگریزی کبھی لازمی مضمون کی حیثیت سے
پڑھائی جاتی تھی، وہ بھی چھٹی کلاس سے، جب بچے ہر قسم کے ماحول کو سمجھنے
لگتے تھے، مگر اب انگلش میڈیم کا دور آگیا ہے، قوم کو انگلش کی افادیت
بتائی جاتی ہے کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے، اب عالمی برادری کے بغیر
زندگی گزارنا محال ہے، اسی لئے ابتدا سے ہی بچوں کو انگریزی پڑھائی جائے،
وہ بھی مضمون نہیں، بلکہ ذریعہ تعلیم ہی انگریزی ہو۔ زمینی حقیقت جو بھی ہو
اپنے معاشرے میں انگلش میڈیم سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں، جن لوگوں کو خود
انگریزی کا تلفظ اور لہجہ درست انداز سے ادا کرنا نہیں آتا وہ بھی انگلش
میڈیم میں ٹیچر ہیں۔ دوسری بڑی مشکل یہ ہے کہ جب یہ آدھے تیتر آدھے بٹیر
بچے گھر پہنچتے ہیں تو ان کے والدین بعض اوقات تو اردو سے بھی نابلد ہوتے
ہیں، چہ جائیکہ وہ اپنے بچوں کی انگلش میڈیم کتابوں اور سکول کے کام کا
جائزہ لے سکیں، یوں بچے سکول کا کام گھر میں مناسب طریقے سے نہیں کرسکتے۔
چونکہ پاکستان میں انگریزی درست لہجے سے بہت ہی کم اداروں میں پڑھائی جاتی
ہے، اس لئے عوام کو انگلش میڈیم بنانے کا حتمی فیصلہ زیادہ سود مند نہیں ہو
رہا۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں بچے سکول کے قریب بھی
نہیں پھٹکے، انہیں آسانی دینے کی بجائے مشکل میں ڈالنا کوئی دانشمندی کی
بات نہیں، مگر اپنے حکمراں زمینی حقائق اور عوام کی رائے جاننے کی کب کوشش
کرتے ہیں، وہ کب پوچھتے ہیں کہ انہیں ہسپتال، سکول، سڑک چاہیے، یا حکمرانوں
کے میگا پراجیکٹس؟
بات چلی تھی میرا سے، اور پہنچ گئی میگاپراجیکٹس تک۔ اب بال میرا کی کورٹ
میں ہے،وہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع کے دور دراز علاقہ کے ایک ٹیچر
کی پیشکش قبول کرتی ہیں یا نہیں؟ معاملہ صرف میرا تک ہی محدود نہیں، بے
شمار اہم لوگ ایسے ہیں جو انگریزی سے کنی کتراتے ہیں، دور کیوں جائیے، اپنے
حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ہی دیکھ لیجئے، سوائے ان کے جو حقیقی معانوں
میں انگلش میڈیم سکولوں سے فارغ التحصیل ہیں، یا جنہوں نے بیرون ملک سے
اپنی تعلیم مکمل کی ہے، باقی ممبران اسمبلی اور دیگر اہم لوگوں کی انگریزی
کا یہی عالم ہے۔ میرا کے لئے تو یہ ابھی آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ ٹیچر خود
گھر آکر پڑھائیں گے، انہیں کہیں جاکر کسی استاد کی خدمات حاصل نہیں کرنی
پڑیں گی، اس کے ساتھ ہی دوسری اہم خبر یہ بھی ہے کہ وہ ٹیوشن فیس بھی نہیں
لیں گے۔ یہاں ایک اور خیال بھی آتا ہے کہ آخر پسماندہ علاقہ کے ایک ٹیچر کو
کیا سوجھی ہے کہ وہ لاہور بھی جائے گا، وہاں رہے گا، خود خرچہ کرے گا اور
میرا کو مفت پڑھائے گا، کہیں دال میں کالا تو نہیں، کہیں ٹیچر صاحب سنجیدگی
کا لبادہ اوڑھ کر بات آگے تو نہیں بڑھانا چاہتے ؟ کوئی شادی وادی کا خواب
تو آنکھوں میں نہیں سجائے پھر رہے؟ اب میرا کا فرض ہے کہ وہ مفت ٹیوشن پڑھ
کر اپنی انگریزی بہتر کرنے سے قبل خوب تحقیق کرلیں کہ ٹیچر صاحب کے اصل
عزائم کیا ہیں؟ |
|