1892ء کا سال تاریخ میں لاہور ہائیکورٹ
بار کے قیام کے حوالے سے بہت اہم جانا جاتا ہے جب برسیٹر سی۔ایچ شپتا نے
اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس عظیم ادارے اور درسگا ہ کی بنیاد رکھی۔ جبکہ
1893ء میں وہ اِس کے پہلے صدر منتخب ہوئے جبکہ عدالتِ عالیہ لاہور ہائی
کور ٹ لا ہور کا قیام 12مئی 1919 کو ہوا ۔ اگر ماضی کے جھروکوں میں جا کر
دیکھیں تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں مختلف سرداروں کی اپنی ا پنی
عدالتیں تھیں جہاں انصاف سردار کے مزاج اور موڈ کے مطابق ملتا تھا۔ زیادہ
تر مسائل کا حل بذریعہ پنچائیت اور سرداری نظام کے ذریعے ممکن بنایا جاتا
تھا۔ لاہور میں چیف کورٹ کا قیام 1866میں کیا گیا جبکہ 1853 میں دو قسم
کے کمشنری نظام واضع کئے گئے جو جوڈیشل کمشنری اور انتظامی کمشنری پر مشتمل
تھے۔ جس کے تحت انتظامی اور عدالتی اختیارات کی عمل داری کروائی گئی جو
اپیل کی سطح پر پہلی عدالت یا کمشنری تھی ۔ قیام پاکستان سے پہلے عدالتِ
عالیہ لاہور ہائی کورٹ کا قیام ہوچکا تھا اور بعد ازاں اس میں وہ تمام
ترامیم کی گئیں جووقت اور حالات کے پیشِ نظر ضروری تھیں۔ یہاں لاہور ہائی
کورٹ کی تاریخ کو بیان کرنے کا مقصد عدالت عالیہ کی اہمیت اور وقار کا بیان
مقصودہے اور اپنے نوجوان وکلاء ساتھیوں کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ وہ بلا
شبہ ایک ایسی تاریخی، علمی اور باوقار درسگاہ کا حصہ ہیں جس پر جتنا فخر
کیا جائے کم ہے۔ وقت ، حالات اور زمانے نے دیکھا کہ قانون کی دنیا کے ہر
بڑے نام کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ بار ایسویشن کا نام جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ
یہی وہ بارہے جس نے ماہان ،بلند اور قابل ِ فخر وکلاء کو جنم دیا جن کی
دھاک چہار دانگِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔
ظلم اور ظالم کے خلاف آواز ہو ، عدلیہ بحالی کی تحریک ہو، انصاف کے حصول
میں روکاوٹ ہو ، امریت کی فصیل کو گرانا ہو ، خلوص اور پیار نچھاور کرنا
ہو، بینچ اور بار کے درمیان توازن ہو، علمی استداد کار کو بڑھانے کے مواقع
ہوں، وکلاء کی فلاح ہ بہبود کے منصوبے ہوں یا اصولوں کی جنگ ہولاہور ہائی
کورٹ بار نے ہمیشہ اپنی ناقابلِ تسخیر تاریخی روایات کو برقرار رکھا اور
ملک کی دیگر بارز ایسویشیز کے لئے رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرلی جس کی
تقلید کرنا ہر بار اپنا فخر سمجھتی ہے۔ قانون کی حکمرانی سے لے کر قانون تک
رسائی کے تمام مراحل اور لاقانونیت کے خلاف حق گوئی اس بار کے مغزز اراکین
کا طرہ ِ امتیاز رہے ہیں۔ قارئین کے لئے یہ بات کوئی نئی بات نہیں کہ
تبدیلی کا نعرہ ہمیشہ لاہور ہائی کورٹ بار نے لگایا اور پھر ملک کی دیگر
بارز نے انہیں خطوط پر عمل پیرا ہوکر تبدیلی کے عمل کا آغاز کیا۔ یہاں یہ
بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ لاہور بار ایسویشن ملکی سطح پر ایک Motherبار کا
درجہ رکھتی ہے اور وکالت کے پیشے سے منسلک لوگوں اس بات پر فخر محسوس کرتے
ہیں کہ وہ اس بار کے ممبر ہیں۔
18مئی2016ء کا دن اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ایک دفعہ پھر لاہور ہائی کورٹ
بار نے اپنی مادرانہ روایات کے پیشِ نظر ایک نئی تاریخ رقم کی اور 3مارچ
2014 اسلام آباد دہشت گردی کے حملے میں شدید زخمی وکلاء رائے اظہر حسین (
راقم) تمغہء شجاعت اور جناب عاصم مختار چوہدری تمغہء شجاعت کو لاہور بار
میں مدعو کیا اور اس سلسلے میں کیانی حال میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا۔ جس
میں لاہورہائی کورٹ بار کے مغزز اراکین ِ بار کے علاوہ جناب وقاص ملک
سکریڑی اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے خصوصی شرکت کی ۔ تقریب میں اسلام آباد
دہشت گردی کے حادثے میں شہید ہونے والے وکلاء اور دیگر کے لئے دعا کروائی
گئی جبکہ دادِ شجاعت پانے والے دونوں وکلاء کو خطاب کی دعوت دی گئی جو بلا
شبہ کسی اعزاز اور میڈل سے کم نہیں۔جناب وقاص ملک سیکریٹری اسلام آباد ہائی
کورٹ بار نے تمام معزز اراکین لاہور ہائی کورٹ بار کا شکریہ ادا کیا اور
کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار اپنے متاثرین وکلاء
کے حقوق اوراُن کے حصول کی جنگ میں تنہا نہیں۔اور وہ اس بات پربھی فخر
محسوس کرتے ہیں کہ اُن سمیت اسلام آباد کے دیگر وکلاء بھی لاہور ہائی کورٹ
بار کے ممبر رہے ہیں۔
راجہ خرم شہزادایڈووکیٹ ، سلمان مقصود واڑئچ ایڈووکیٹ، میاں عمران مشتاق
ایڈووکیٹ ، مرزا ثاقب ایڈووکیٹ ، محمد اکرم بھٹی ایڈووکیٹ ، شہزاد عمران
رانا ایڈووکیٹ ، میاں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ، ملک عمر جان کھوکھرایڈووکیٹ ،
طلال مشتاق ایڈووکیٹ ، شیخ وسیم احمد ایڈووکیٹ، سلمان فاروق
ایڈووکیٹ،چوہدری عمران اختر ایڈووکیٹ اور دیگر کے ساتھ بار روم کی طرف جاتے
ہوئے برگد کے پیڑ نے استقبال کیا ۔ چشم ِ تصور نے کئی صدیوں کا فاصلہ صرف
ایک جست میں طے کر لیا۔ راجہ خرم شہزادایڈووکیٹ نے اپنائیت کے مخصوص انداز
میں تعارف کروایا اوریہ پیغام دیا کہ وکلاء ہر محاذ پرثابت قدم تھے اوررہیں
گے۔ راجہ خرم ایڈووکیٹ خود بڑا آدمی ہے سب کو اپنے آپ سے بڑا سمجھتا ہے اور
عزت کرتا ہے اس لئے ہردلعزیز ہے۔ برآمدے کی سڑھیاں چڑھتے ہوئے میں ایک ایسے
احساسِ فخر میں ڈوبا ہوا تھا جو صرف سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے الفاظ
میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جنا ب رانا ضیاء عبدالرحمن صدر لاہور ہائی کورٹ بار
ایسویشن نے اپنی تقریر میں فرمایاکہ بہادری ڈی این میں ہوتی ہے اِس کو
بنایا یا اپنایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی کسی بزدل انسان کو بہادری کی طرف
راغب کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح لاہور بار سے خطاب اور دعوت بھی ایک ایسا عمل
ہے جس کو خود سے نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے کسی ٹھوس دلیل اور وجہ کا ہونا
ضروری ہے۔ جناب انس غازی سکیٹر یری لاہور ہائی کورٹ بار کی خوشگوار و خوش
نما شخصیت ایک ایسے جھونکے کی مانند ہے جو روح میں تازگی اور فرحت پیدا
کرتا ہے۔نصیر احمدبھٹہ ایڈووکیٹ ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان لاہور ایک
ملنسار اور بُردبار شخصیت ہیں جن کے چہرے پرمسکراہٹ ایک نمایاں نشانی کے
طور پر ہر ملاقاتی کا استقبال کرتی ہے اورساتھی وکلاء کے لئے اُن کی
دردمندانہ سوچ کسی سے پوشیدہ نہیں وہ ایک حساس آدمی ہیں۔ رانا ظفر اقبال
ایڈووکیٹ ایک سادہ، پرُجوش، پرُ وقاراور محنتی وکیل ہیں اُن کا عزم اُن کے
چہرے سے جھلکتا ہے۔ میاں عرفان اکرام ایڈووکیٹ میرے پرانے رفیق اورہم جماعت
ہیں جو خوبصورتی اور وکالت کی دوڑ میں مجھ سے کہیں آگے ہیں۔ کیانی ہال میں
موجود مغزز وکلاء اور ممبران ِ لاہور ہائی کورٹ بارکے وہ ستارے ہیں جن کی
علمی اور عملی بصارت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے یہ وہ ستارے ہیں جن کی
روشنی سورج سے کہیں زیادہ ہے ۔
سانحہ اسلام آباد کہچری 2014 ایک ایسا ناقابلِ بیان واقعہ ہے جس نے ملکی
سطح پر وکلاء کی سیکورٹی کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا جو تادمِ تحریر
ان کے جوابات کے منتظر ہیں ۔ قانون کے محافظوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا
گیا ۔ فضاء ملک ایڈووکیٹ کو ٹکڑوں میں بدل دیا گیا۔ نظامِ عدل اور عدالتوں
کے وقار کو پائمال کیا گیا۔ بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔بربریت کی
وہ مثال قائم کی گئی جو صدیوں تک یاد رکھی جائے گی ۔ زخموں سے چور وکلاء
اور اس اندوہناک حادثے میں مستقل معذور ہو جانے والوں کے لئے کسی مرعات کا
حصول یا ان کی بحالی ایک ایسا سوال تھا جو نہ صرف حل طلب ہے بلکہ ایک ایسے
نظام کی عمل داری چاہتا ہے جو مستقل بنیادوں پر وکلاء اور ان کے متعلقین کے
مسائل کو حل کرے۔ دو سال سے زید کا عرصہ گذر جانے کے باوجود معذور وکلاء
اپنے حقوق کے حصول کے لئے کوشاں ہیں جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار
ایسویشن کا کردار نمایاں اور مثالی رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار نے اسلام
آباد بار کے معذور وکلاء کو بار میں بلا کر اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ وہ
اُن تمام سفارشات کو سراہتے ہیں جن کا ذکر جوڈیشل کمیشن کے سربراہ عزت مآب
مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی جج عدالت عالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ اسلام آباد
نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا جو عدالت ِ عظمیٰ سپریم کورٹ آف پاکستان میں
زیرِ سماعت سوؤ موٹو نمبر 3/2014کا حصہ ہے اور پبلک ریکارڈ ہے ۔ یہ رپورٹ
تاحال حکومت کی عدم توجہ کا شکار ہے ۔ اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ بار کی
طرح دیگر بارز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اب یہ انفرادی سے
زیادہ اجتماعی نوعیت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر دنیا کو انصاف دلانے والے خود
کو انصاف نہ دلا سکے تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ
اب انفرادی نہیں اجتماعی مفاد کی بات کرنا ہوگی کہ یہ ہمارے اور ہمارے بچوں
کی بقا کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان بار کونسل ایک مسیحا کا کردار
ادا کرسکتی ہے۔
درد اور ٹیس کا ادراک اور نزول انسانی جسموں پر ایک طرح سے ہوتا ہے ہم یہ
نہیں کہہ سکتے کہ امیر کا درد علاحدہ اور غریب کا غم علاحدہ ہوتا ہے ۔ گولی
کسی فلسفے کو نہیں بلکہ موت کو جنم دیتی ہے اور خودکش حملہ کسی مقصد کے
حصول کا حل نہیں بلکہ ایسی ہلاکت ہے جو کسی مذہب میں جائز نہیں؟ جب ہم
اجتماعیت کی بات کرتے ہیں تو درد کا حجم کم ہو جاتا ہے ایسے ہی جیسے کسی
سانح میں زخمی فرد سے گفتگو کی جائے تو وہ اپنے درد اور زخموں کو لے کر بہت
زیادہ تکلیف کا اظہار کرے گا مگر جب اُسے دیگر لوگوں کے حالات اور کرب
دکھائے جائیں تو وہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرے گااور اطمینان سے ہر
تکلیف کو برداشت کرلے گا۔ سو وکلاء جو اس ملک میں تبدیلی اور مثبت تغیر کا
باعث ہیں کو اب Collective Wisedomکا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ایک ایسے نظام
کو واضع کرنے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی جو کسی ناگہانی صورتحال میں اپنے
شہید ، زخمی اور معذور وکلاء ساتھیوں کے دکھوں کا مداوا کر سکیں۔ جہاں اس
تحریر کا مقصد لاہور ہائی کورٹ بار کا شکریہ ادا کرنا ہے وہاں اس امر کی
طرف دیگر بارز کی توجہ مبذول کروانا بھی ہے کہ وہ اپنا آئینی اور اخلاقی
فرض نبھائیں اور ہر سطح پر اپنے حقوق کے حصول کے لئے بات کریں۔ یہاں مسئلہ
اُن وکلاء کی دادرسی کا نہیں جو سانح اسلام آباد میں شہید ، زخمی یا مستقل
طور پر معذور کردیئے گئے سوال آنے والی اُن ناگہانی آفتوں سے بچاؤ کا ہے جن
کا خطرہ ہر وقت ملک وقوم کے سر پر منڈ لاتا رہتا ہے۔کل کے سورج کو اس بات
کا مکمل ادراک ہو کہ وہ جن پر عذاب کے در کھولے گا وہ بے یارومددگار نہیں
بلکہ ایک ایسے مربط نظام کا حصہ ہیں جو اس ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ
پر گامزن کرتے آئے ہیں اور کرتے ہیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسویشن ایک
ایسا باوقار ادارہ ہے جو اپنے ممبران کی سلامتی سے متعلق ہمیشہ سنجیدہ اور
کوشاں رہا ہے۔ جس کی دلیل وہ تمام قراردادیں ہیں جو ایوان ِ اقتدار اور
معزز چیف جسٹس صاحبان کو وقتاً فوقتاً بھیجی جاتی رہیں ہیں اور ان پر عمل
درآمد بھی کروایا گیا ہے ۔باقی رہے نام اﷲ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |