جہیز ۔ سماجی و معاشرتی لعنت

 کریم صاحب کا انتقال ہوا تو اس کے ساتھ ہی معاشرے کی المناک داستان جو اپنے دامن میں کئی عبرت انگیز پہلو سموئے ہوئے تھے اختتام پذیر ہوگئی ۔ عام لوگوں کے نزدیک دنیا سے کروڑوں افراد کی طرح ایک عام انسان اٹھ گیا تھا لیکن میں جانتا تھا کہ وہ اپنے دامن میں معاشرے کی کئی تلخیاں اور کئی محرومیاں سمیٹ کر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ہیں ۔ وہ ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازم تھے اور 10سال سے ایسی پوسٹ پر تھے جہاں اوپر کی کمائی کے امکانات کافی روشن تھے مگر اب 2سال سے ایسی ملازمت پر تعینات تھے جہاں ناجائز آمدنی کا نام و نشان نہ تھا ۔ان کے چار بچے تھے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا ۔ لڑکیاں بڑی تھیں سب سے بڑی لڑکی کی شادی ہوئی تو انہوں نے جیسے تیسے کردی اور جہیز بھی کوئی خاص نہیں تھا لیکن جب دوسری لڑکیوں کی شادی کا وقت آیا تو نہ جانے کیوں ان پر زیادہ جہیز دینے کا بھوت سوار ہوگیا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ شادی غیروں میں ہو رہی تھی اور لڑکا بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا ۔ کریم صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ لڑکے والوں نے جہیز میں فلاں فلاں چیز کا مطالبہ کیا ہے معلوم نہیں کہ انہوں نے ان چیزوں کا مطالبہ پورا کیا یا نہیں بہر حال شادی ہو گئی ۔ پھر دوسری بیٹی کی شادی کا مسئلہ آیا تو ا س بار انہوں نے ایک اونچے خاندان کی طرف رجوع کیا اور ان کی امارت کے شایان شان جہیز دینے کی تیاریاں شروع کردیں یہ شادی انتہائی دھوم دھام سے ہوئی اور جن لوگوں نے جہیز دیکھا ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔شادی کے چند ماہ بعد کریم صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ اپنی عمر سے 10برس بوڑھے دکھائی دے رہے تھے کمر جھک چکی تھی بال سفید ہو چکے تھے چہرے کی لالی رخصت ہوگئی اور اس کی جگہ زردی نمایاں ہو گئی تھی لباس میں بھی وہ پہلے سی نفاست نہ رہی پوچھنے پر بتایا کہ وہ بری طرح قرضے میں جکڑے ہوئے ہیں قرض لے کر انہوں نے جہیز دیا تھا لیکن چند لمحوں کی عزت افزائی اور لوگوں کی تعریف اب ماضی کی دھول بن گئی اب تو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ قرض کا بوجھ کیسے اترے گا جبکہ ابھی ایک بچہ زیر تعلیم تھا اور ابھی ایک لڑکی کی شادی بھی کرنا تھی یہ تفکرات ان کی صحت کو گھن کی طرح لگ گئے تھے اور پچھتاوے کا احساس آگ کی طرح ان کے وجود کو اندر سے جھلساتا رہا بالا خر وہ اسی آگ میں جل گئے اور وہ بچوں پر قرض کا کوہ گراں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کے لواحقین اس گناہ کا کفارہ کب تک ادا کرتے رہیں گے کوئی شخص اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔

لیکن کیا کریم صاحب واحد شخص ہیں جو جہیز کی بھینٹ چڑھ گئے ہرگز نہیں ہمارے معاشرے میں روزانہ اس معاشرتی لعنت کے ڈسے ہوئے نہ جانے کتنے افراد کی موت واقع ہو چکی ہے یہ اور بات ہے کہ لوگ ان کے بارے میں لا علم رہتے ہیں یا نہیں جانتے کہ انہوں نے اپنی زندگی کیوں ہاری ہے ۔بیٹی کو اتنی قیمتی اشیاء سے رخصت کرنے کے بعد وہ تمام عمر اس کا کفارہ ادا کرتے رہتے ہیں ۔ ایک لڑکی کو اچھا جہیز دیں تو پھر ان پر واجب ہو جاتا ہے کہ دوسری لڑکیوں کو بھی برابر کا جہیز دیا جائے اس طرح والدین اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر ایک ایسی ذمہ داری مسلط کر لیتے ہیں جس کو پورا کرتے وقت اپنی عزت تک داؤ پر لگانا پڑتی ہے یو ں صرف نمود و نمائش کی خاطر اپنی زندگی بھر کے آرام و آسائش کی قربانی دینا پڑتی ہے ۔ پاکستان میں اس وقت جہیز ایک بہت بری سماجی لعنت ہے جس سے زندگی کا ہر طبقہ دوچار ہے لیکن سب سے زیادہ ضرب متوسط طبقے پر پڑتی ہے جسے عام زندگی میں بھی سفید پوشی کا بھرم رکھنا پڑتا ہے اور شادی جیسے موقع پر بھی اپنی ناک اونچی رکھنی پڑتی ہے ۔ جہیز کی لعنت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی ماں اس کے جہیز کے بارے میں سوچنے لگتی ہے اور اس کے لیے بیش قیمت اشیا ء جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ماں کو جو چیز اچھی لگتی ہے وہ اس خزانے میں جمع کرلیتی ہے اگر بات صرف اشیائے ضروریہ تک محدود ہو تو کوئی تشویشناک بات نہیں لیکن جب ٹی وی ‘ کار ‘ سکوٹر ‘ فریج ‘ فرنیچر اور اس قسم کی اشیا ء کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے تو پھر نوبت قرض لینے تک جا پہنچتی ہے کیونکہ ان اشیائے تعیش کا خریدنا عام شخص کے بس کی بات نہیں ۔

جس طرح ایک برائی دوسری برائی کو جنم دیتی ہے اس طرح جہیز کے بطن سے کئی ایسی برائیاں جنم لیتی ہیں جن سے معاشرہ جہنم بن جاتا ہے مثلارشوت ‘ سمگلنگ ‘ناجائز منافع خوری اور اس قسم کی دوسری سماجی لعنتوں کو فروغ ملتا ہے لڑکیوں کا باپ ہونے کی حیثیت سے ہر شخص زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ بیٹی کی شادی کا جہیز شایان شان طریقے سے تیا ر کیا جاسکے لہذا ایک معاشرتی برائی کا جواز تلاش کرلیا جاتا ہے ۔جہیز کی لعنت کی موجودگی میں ہزاروں خواتین جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں یا نادار ہیں اپنی زندگی کے ساتھی سے محروم ہوجاتی ہیں ان کی زندگی گھٹے ہوئے جذبات و احساسات کا مرقد بن جاتی ہیں ۔والدین اپنی بیٹی اور اپنی خوشیوں کا خون بہتا دیکھتے ہیں لیکن خود کو مجبور پاکر اپنی قسمت کو برا بھلا کہنے لگتے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ زندگی سے بغاوت کرتے ہیں اور ان کی ہنستی کھیلتی زندگی جرائم کی نذر ہوجاتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح جہیز جیسی سماجی برائی کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے تاکہ غریب ہو یا امیر اپنی بیٹی کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھیں اور اس کی پیدائش پر ناگواری کا اظہار نہ کریں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اپنے نقطہ نظر میں انقلابی تبدیلیاں لائیں اور اس برائی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے میں ہر ممکن کردار ادا کریں ۔
Fardeen Ali Sagar
About the Author: Fardeen Ali Sagar Read More Articles by Fardeen Ali Sagar: 2 Articles with 1861 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.