اپنے وقت کے بہت بڑے اسکالر کا
رتبہ پانے والا وہ فرد بچپن میں انتہائی کند ذہن تھا،پڑھتا تو کچھ یاد نہ
کر سکتا اور سنتا تو سمجھ نہ آتا، لہٰذا یہ سوچ کر چپ ہو رہا کہ شاید پڑھنا
لکھنا اس کے بس کی بات نہیں، گزرتی عمر نے اسے زندہ رہنے کے لئے کوئی شعبہ
چننے کا موقع دیا تو اپنے اردگرد رہنے والوں کی طرح اس نے بھی بڑھئی بننے
کا فیصلہ کیا اور اس فن میں اتنا طاق ہوا کہ اس کے بنائے صندوقوں کی دھوم
پورے شہر میں ہو گئی۔
جانے کسی کے مشورے پر یا خود سوچ کر اپنی محنت کا بھرپور صلہ پانے اور
ساتئش کی تمنا لئے اس نے نہایت دلجمعی سے ایک صندوق تیار کیا اور اسے لے کر
بادشاہ وقت کے دربار میں پہنچا، دربار میں جس نے بھی اس ماہر ترکھان کے
ہاتھ کا بنا صندوق دیکھا عش عش کر اٹھا، بادشاہ نے بھی اس کی نفاست اور
کاریگری کو پسند کیا، اس کی محنت رنگ لاتی نظرآرہی تھی بادشاہ صندوق پر کی
گئی فنکاری میں گم تھا کہ اور اسے یوں لگ رہا تھا کہ گویا سارے جہان کی
دولت اسے دے دی گئی ہو۔
اچانک دربار میں کھسر پھسر ہوئی اور عبایا پہنے ایک فرد دربار میں داخل
ہوئے، آواز سن کر بادشاہ نے جونہی سر اٹھایا اور اس کی نظر اندر آنے والے
فرد پر پڑی تو وہ سامنے پڑا انتہائی خوبصورت صندوق اور اپنی کچھ لمحے قبل
کی مصروفیت بھول کر کھڑا ہو گیا۔ آنے والی کی آﺅ بھگت کی اور اسے اپنے ساتھ
نشست پر بیٹھنے کو جگہ دی۔
ایک اجنبی کی یوں دربار میں آمد، بادشاہ کا اپنی مصروفیت چھوڑ کر اس کے
اعزاز میں کھڑا ہونا، اسے اپنے ساتھ بٹھانا ایسے امور تھے جنہوں نے مذکورہ
ترکھان کے جذبہ تجسس کو ہوا دی، اس نے قریب کھڑے ایک درباری سے ماجرا پوچھا
کہ آنے والا کون ہے جس کے احترام میں بادشاہ وقت کھڑا ہو گیا تھا؟تو جواب
ملا کہ یہ شہر کے مشہور مسلم اسکالر ہیں، ان کے علم کا رتبہ اور مقام اتنا
ہے کہ یہ جب بھی دربار میں تشریف لاتے ہیں بادشاہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر
انہیں تعظیم دیتا ہے۔
یہ جملہ سن کر اس بڑھئی کے ذہن نے پلٹا کھایا،وہ ذہن جو کچھ یاد رکھنے کے
قابل نہ تھا، شدید محنت اور سچی لگن کے ساتھ کوششوں میں ایسا مصروف ہوا کہ
کچھ عرصے میں صرف اس شہر ہی میں نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے لئے علامہ کفال
شاشی کتے نام سے شہرت حاصل کی۔ بادشاہ کے اس اقدام کا فوری اثر تو اپنی جگہ
دیر پا تاثر یہ تھا کہ مسلمانوں نے 1050برس تک مسلم دنیا پر حکمرانی کی۔
تاہم اب معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے اور اسے ہی واقفان حالت تعلیمی تنزلی کا
سبب قرار دیتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا
گیلانی نے پاکستان بھر کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز سے ہونے والی
ملاقات میں کئے گئے وعدے سے انحراف کر کے دیا ہے۔ جس میں انہوں نے یہ یقین
دلایا تھا کہ جامعات کو فنڈز کی قلت سے بچانے کے لئے نئے مالی سال کے بجٹ
میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو مزید فنڈز دئے جائیں گے۔ وزیراعظم کی جانب سے کی
گئی اس وعدہ خلافی پر انہیں یاددہانی کے لئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چئیرمین
کی جانب سے خط لکھ کر یہ کہا گیا تھا کہ کمیشن نے رواں مالی سال کے
بجٹ18.5ارب روپے میں30فیصد اضافے کی سفارش کی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا
ہے۔ واضح رہے کہ قبل ازیں یہ بجٹ22.5ارب روپے تھا جس میں کابینہ کے فیصلہ
کے تحت کٹوتی کر کے اسے18.5ارب روپے کر دیاگیا تھا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لئے نئے مالی سال
میں15.6ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس کی قلت کے سبب ملک بھر کی
انجینئرنگ و دیگر جامعات میں جاری 246منصوبے ختم یا مکمل طور پر سست رفتار
ہو کر اپنی معنویت اور افادیت کھو دیں گے۔ دوسری جانب اس کے نتیجے میں
حکومتی خرچ پر بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے9ہزار سے زائد طلباءکا تعلیمی
سلسلہ بھی منقطع ہو سکتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے لئے
بیرون ملک جانے کے انتطار میں وہ لوگ جو نیشنل ٹیسٹنگ سینٹر اورجی آر ای کے
امتحان پاس کر چکے ہیں ،اپنی پیشہ وارانہ زندگی شروع کرنے کے انتظار میں
اپنے گھرانوں پر مالی بوجھ اور ملکی وسائل میں ان کے ذریعہ ہونے والے اضافہ
کو روکنے کا سبب بنیں گے۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے پاس فنڈز کی عدم موجودگی کے سبب پیدا ہونے والی اس
شرمناک صورتحال کے ازالہ کے لئے چند روز قبل ملک کی متعدد سرکاری
یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے وزیر اعظم سے ملاقات بھی کی تھی۔ جس میں
انہیں سید یوسف رضا گیلانی نے یہ یقین دلایا تھا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے
بجٹ میں اتنا اضافہ کیا جائے گا جو جاری پروجیکٹس سمیت جامعات میں ہونے
والے دیگر ترقیاتی وتحقیقاتی کاموں میں اضافے کا سبب بن کر ملک کے مستقبل
کو محفوظ بنا سکے۔
راقم کی جانب سے کی گئی چھان بین کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ حالیہ
بجٹ میں جس رقم میں کٹوتی کی گئی ہے وہ انجینئرنگ اور عام جامعات کے متعدد
منصوبوں، لیبارٹریز کی ضروریات کی تکمیل، جدید تحقیق میں استعمال ہونے والے
آلات کی فراہمی اور آخری سال کے طلباء کی جانب سے تیار کئے جانے والے
پروجیکٹس پرخرچ کی جانی تھی۔ تاہم اس رقم کی کٹوتی کے بعد پیدا ہونے والی
صورتحال میں اب یا تو جامعات کے یہ تمام منصوبے اور طلبہ کا تحقیقی کام
روکنا ہوگا یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہوئے افراد کو حالات
کے رحم وکرم پر چھوڑ کر ان سے لاتعلقی اختیار کرنا ہوگی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ
ہر دو صورتوں میں عالمی سطح پر ملک کی جنگ ہنسائی اور شرمندگی کی حد تک کم
شرح خواندگی کو بہتر کر کے تعلیم سے دور رہنے والوں کو حصول علم کے قریب
لانے پہلے ہی قلت کا شکار کوششیں سبوتاژ ہوں گی۔
ایک ایسے وقت میں جب تعلیم یافتہ ہونا افراد ہی نہیں اقوام کی ترقی کے لئے
بھی لازمی شرط مانا جا چکا ہے، وفاق کی جانب سے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بجٹ
میں قابل ذکر اضافہ کرنے کے بجائے سات ارب روپے کی کٹوتی کر کے گزشتہ 22ارب
روپے کے فنڈ کو15ارب کر دیا گیا ہے کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ حکومت
وقتی ایجنڈہ پر عمل پیرا ہونے سے آگے بڑھ کر ملکی ترقی میں بھی سنجیدہ
ہوگی۔
تعلیمی حلقوں سے وابستہ افراد نے بجٹ میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے فنڈز کی
کٹوتی کو وسائل کی قلت کے بجائے حکومتی عدم دلچسپی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا
ہے کہ اگر وزیر قانون صدر اور حکومت کے خلاف عدالتوں میں جاری کیسز پر
وکلاء کی رائے کو اپنے حق میں بدلنے اورعدلیہ پر دباﺅ پیدا کرنے کے لئے
فنڈز کی فراہمی پر اربوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو ایک ضروری مد میں خرچ
کرنے کے لئے ہی وسائل قلت کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟
یقیناً یہ بات جواب طلب ہے تاہم ابھی تک اپنے وعدہ کے باوجود فنڈز فراہم
کرنے میں ناکامی کا شکار وزیر اعظم پاکستان یا کسی بھی حکومتی حلقے کی جانب
سے اس کا جواب نہیں دیا گیا،اگر اس خاموشی کو احساس جرم کی موجودگی سے
تعبیر کیا جائے تو بھی ضرورت اس سے کچھ زیادہ کرنے کی ہے اور وہ یہ کہ فوری
طور پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے کٹوتی کئے گئے فنڈز بحال اوران میں وعدہ شدہ
اضافہ بھی کیا جائے۔ تاکہ اس وقت بیرون ملک موجود طلباء یکسوئی سے تعلیم
حاصل کر سکیں،جو جانے کے منتظر ہیں اور تمام امتحانات پاس کر چکے ہیں ان کی
تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے متوقع بحران سے بچایا جائے۔ جب کہ ملکی
جامعات میں جاری منصوبوں پر کام برقرار رہنے کے ساتھ ان کے معیار میں مزید
بہتری لائی جا سکے۔
یونیورسٹی آف انجنئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے وائس چانسلر جنرل اکرم کا
کہنا تھا کہ مستقبل میں اساتذہ کو بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لئے بھیجنے کا
منصوبہ زیرغور تھا۔ متعدد منصوبے جو اس وقت جاری ہیں وہ رک جائیں گے جن کا
بڑے پیمانے پر نقصان ہو گا۔رقم اور وقت دونوں کا یہ نقصان بجٹ میں حالیہ
کٹوتی کے سبب تعلیم کے مستقبل پر اثرانداز ہو گا۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر کامران مجاہد کا کہنا تھا کہ موجودہ
صورتحال میں پنجاب یونیورسٹی اساتذہ اور انتظامہ اہلکاروں کی تنخواہیں ادا
کرنے کے قابل بھی نہیں رہی ہے۔یونیورسٹی کے رواں مالی سال کے بجٹ کا حوالہ
دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اخراجات کے لئے ۳ارب۳۶کروڑ روپے کی رقم جاری کی
گئی تھی جس میں سے ایک ارب روپے اعلی تعلیمی کمیشن نے مہیا کئے تھے۔جب کہ
نئے بجٹ میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بجٹ ۷ارب روپے کی کٹوتی کے بعدیہ توقع
نہیں کہ جامعات کو موجودہ مالی سال جتنی رقوم بھی دی جا سکیں گی۔
لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ متین کا
کہنا تھا کہ وہ جامعات جو اپنے قیام کا ابتدائی عرصہ گزار رہی ہیں اس سے سب
سے زیادہ متاثر ہوں گی۔جامعہ میں جاری تعمیراتی کام رک جانے اور ادائیگیوں
میں دشواریوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسی صورتحال میں
جب سیلف فنانس پروگرام جاری کرنے کی اجازت بھی نہ ہو جامعات کے لئے اخراجات
کی رقم جمع کرنا ایک دشوار امر ہو گا۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی
سے بڑی اور قدیم جامعات کے کم ہمتاثر ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے ان کا
کہنا تھا کہ نئی یونیورٹیز کے لئے یہ ایک دشوار امر ہو گا۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر پیر ذادہ قاسم کا اپنے ظریفانہ تبصرہ
میں کہنا تھا کہ جس طرح سرکاری اسکولز غیرمعیاری ہونے کے سبب پیلے اسکول
قرار پائے تھے اسی طرح اب سرکاری جامعات بھی پیلی جامعات بننے جا رہی
ہیں۔جامعہ کراچی کے متعلق انہوں نے کہا کہ فنڈز میں کٹوتی کی وجہ سے ملک
بھر کی تمام جامعات کی طرح کراچی یونیورسٹی بھی اپنے تمام جاری منصوبوں کو
بند کرنے پر مجبور ہوگی۔
جامعات سے وابستہ اساتذہ نے بھی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی پر
احتجاج کرتے ہوئے اسے حکومت کی تعلیم دشمن پالیسی قرار دیاہے۔ اساتذہ
تنظیموں کا کہنا ہے کہ تحقیق اعلیٰ تعلیم میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جو
ملکوں کی ترقی کے لئے لازمی ہوا کرتا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے میں اعلیٰ تعلیم کے
لئے بجٹ مختص کئے جانے نے ملک میں تحقیق کا کلچر پیدا کیا تھا لیکن اب اس
کا خاتمہ ہونا دور کی بات نہیں ہے۔جس کا لازی اثر ملکی ترقی اور انسانی
وسائل کی بہتری کے لئے کی جانے والی کوششوں پر پڑے گا۔
تمام تر احتجاج اور دبی زبانوں میں کی جانے والی گفتگو کو کافی نہ جان کر
اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چئیرمین جاوید ایچ لغاری نے وزیر اعظم پاکستان سید
یوسف رضا گیلانی کو خط بھی لکھا جس میں انہوں نے گزشتہ مہینے جامعات کے
وائس چانسلرز سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں یہ اپیل کی تھی
کہ کمیشن کے فنڈ میں کی جانے والی کٹوتی کا فیصلہ معطل کرکے سابقہ فنڈز
بحال اور ضروریات کے مطابق فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔تاہم تاحال اس
پر کوئی عمل یا ردعمل ظاہر نہیں ہو سکا اور بجٹ اجلاس بھی ختم ہونے کو
ہے۔پاکستان میں اچانک بڑھنے اور پھر کبھی نہ کم ہونے والی مہنگائی نے یہ
قانون تو تبدیل کر ہی دیا ہے کہ مہنگائی بڑھنے یا کم ہونے کا تعلق بجٹ سے
نہیں تو کیوں نہ اس خرابی کو خوبی میں بدلتے ہوئے بجٹ سیشن کے خاتمے کے بعد
سہی دیر آید درست آید کے مصداق اعلی تعلیمی کمیشن کے بجٹ میں کی گئی کٹوتی
کو واپس لے کر نئے چیلنجز کے مطابق اضافی فنڈز جاری کئے جائیں۔تا کہ جامعات
میں زیر تعلیم طلباہ، جاری منصوبے، بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے
موجود اورجانے کے منتظرافراد کی کامرانی کا سفر جاری رہ سکے۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے تحت ملکی انسانی وسائل کی ترقی کے لئے جاری پروجیکٹ
میں 9ہزار طلباء کو بیرون ملک بھیجا گیا ہے۔ پی ایچ ڈی اور دیگر پروگرام کے
لئے گئے ہوئے مذکورہ طلباء اپنے تعلیمی دورانیہ کے درمیان یا اختتام کے
قریب ہیں۔ ان کی ٹیوشن فیس، تحقیقی و دیگر اخراجات کے لئے 10ارب روپے کی
رقم درکار ہے۔بجٹ کٹوتی سے ملک بھرکی جامعات کے 258کیمپسز میںجاری193اورنئے
شروع کئے جانے والے11منصوبے بھی تعطل کا شکار ہو جائیں گے۔اعلیٰ تعلیمی
کمیشن نے اپنے قیام کے بعد ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لئے کی گئی کوششوں کے
سلسلے میں سالانہ طلباءکی تعداد کو2لاکھ76ہزار274سے
بڑھاکر8لاکھ3ہزار507،کیمپسز کی تعداد کو116سے بڑھا کر258،تحقیقاتی مطبوعات
کی تعدادکوسالانہ815سے بڑھا کر4ہزار13اورسالانہ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی
تعداد کو1ہزار947سے بڑھا کر3ہزار280کر دیا تھا۔تاہم بجٹ میں کٹوتی کے بعد
اب یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔ |