اللہ بھی کن کن ہستیوں سے کیسے کیسے کام لیتا ہے !
(Munir Bin Bashir, Karachi)
یہ انکشافات بھرا کالم ہے -- جی ہاں ہمارے ملک سے دس ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ کے فاصلے پر براعظم آسٹریلیا کی پرلی طرف ' بحر الکاہل کے کے علاقے میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں آبادی کے ایک طبقے کی لوگوں کی مادری زبان اردو ہے - اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انکا کوئی عزیز 'کوئی رشتے دار ' کوئی واقف ' کوئی دوست 'غرض کوئی بھی پاکستان ہندوستان میں نہیں رہتا - نہ یہ لوگ کبھی یہاں آئے ہیں - |
|
|
اوپر بائیں جانب سے (گھڑی کی مخالف سمت میں ) -------- فی جی کے وزیر جناب مہندر بیدی ایک اسکول میں مسلمان بچوں کے ہمراہ -بچوں کے گھر سے لائے ہوئے کھانے سے لطف انداز ہو رہے ہیں ------- پرچم اور فی جی کا نقشہ---------- اس سے نیچے -- پاکستان کے مولانا احتشام الحق تھانوی فی جی گئے تھے - اس موقع کی ایک یادگار تصویر --------- بالکل نیچے --- فی جی میں چھپا ایک اشتہار جس میں امیدوار کے لئے اردو سے واقف ہونا لازمی تھا ----- بالکل نیچے بائیں جانب فی جی کے ایک دیہات کی تصویر ------------ فیجی کے مئیر کا انگریزی میں لکھا نام جس سے انکے حیدر آباد بھارت کے لہجے کا انداز نمایاں ہوتا ہے - 'قیوم' کو 'خیوم' لکھا گیا ہے |
|
میرا اور ان کا جنم جنم سے ساتھ تو نہیں ہے
- البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اٹھارہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ ان سے ملاقات
ہوئی تھی - جب میری داڑھی بھی نہیں آئی تھی- یہ وہ زمانہ تھا جب میں
انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور نیا نیا پڑھنے گیا تھا اور ہوسٹل میں قیام پذیر
تھا - یہ واقفیت پچھلے پچاس سال سے برقرار ہے - لیکن اس کا مطلب یہ بھی
نہیں کہ داڑھی وغیرہ رکھ لی ہے حالانکہ یہ تو کہتے رہتے ہیں -
یہ ہے میری اور رائے ونڈ کی تبلیغی جماعت کی رفاقت کی بات - انکی باتیں
سننے کبھی بیٹھ جاتا ہوں -کبھی ان کے ساتھ چل بھی پڑتا ہوں - البتہ بیرون
ملک سے جب ان کے افراد آتے ہیں تو ان کی آمد پر ذرا زیادہ ہی متحرک ہو جاتا
ہوں -
ابھی پچھلے ماہ ہی جاپان سے کچھ افراد آئے تھے - ان میں ایک لڑکا بھی تھا -عمر
بیس بائیس برس کے قریب - پتہ چلا کہ اس نے مذہب اسلام قبول کیا ہے - اس کے
پاس ایک قران مجید تھا - اس کا ترجمہ جاپانی زبان میں کیا گیا تھا -
ابھی اس ملاقات کو گزرے ایک مہینہ بھی نہیں ہواتھا کہ پتہ چلا کہ فی جی سے
جماعت آئی ہوئی ہے - جغرافیہ اور تاریخ میں کمزور ہونے کے سبب پتہ ہی نہیں
تھا کہ فی جی کس چڑیا کا نام ہے - کہاں واقع ہے -اس کا حدود اربعہ کیا ہے -
کسی نے ایسے ہی چلتے پھر تے بتایا کی آسٹریلیا کے قریب کچھ جزائر ہیں انہیں
فی جی کہتے ہیں - خیر میں ترنت مسجد پہنچ گیا - نماز کے بعد اعلان ہوا کہ
یہ حضرات دنیا کے ایک دور دراز کونے سے آئے ہیں -بیس گھنٹے کی مسافت ہے -
نماز کے بعد انہیں دیکھنے کا موقع ملا - سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ افراد کن
سے ملتے جلتے ہیں - کبھی اوبامہ سے ملتے جلتے نظر آئے اور کبھی اپنے ممبئی
مدراس کے لوگوں رنگ ان میں نظر آیا - کبھی ملباریوں سے مشابہت نظر آئی -
لیکن تقریر سن کر تو مزید دنگ رہ گیا - وہ اردو میں تقریر کر رہے تھے اور
ان کی اردو ---- ان کی اردو - میں سوچتا رہا -سوچتا رہا--- ان کی اردو کس
سے ہم آہنگی رکھتی ہے - کہاں سنی ہے ایسی اردو - کون سی فلم تھی جس میں یہ
زبان بولی جارہی تھی - کچھ یاد نہیں آرہا تھا - انہی خیالات میں کھویا ہوا
تھا کہ کہ کچھ افراد کو اپنی جگہ سے اٹھتے دیکھا - میں خیالات سے باہر آیا
- پتہ چلا کہ ان افراد کی ایک فہرست بنائی گئی ہے جو تبلیغ کے اس کام میں
شرکت کریں گے - فی جی کے ہی ایک صاحب نام دہرا رہے تھے - یہ خادر محی الدین
صاحب ہیں - اگلے ماہ سے چلے پر جارہے ہیں - یعنی چالیس دن کے لئے تبلیغ کے
کام پر نکلیں گے - پھر ایک دوسرا نام پکارا کہ یہ خدوس خان صاحب ہیں ان کا
بیرون ملک جانے کا ارادہ ہے - میں چونک پڑا - یہ "ق" کو کس انداز میں کہہ
رہے ہیں یعنی "خاف" یہ حیدر آباد دکن بھارت کا لہجہ ؟ ان کا ان سے کیا تعلق
؟ - ان کا بیان ختم ہوا - اس کے بعد جماعتیں تشکیل دی گئیں کہ مقامی لوگوں
سے ملا جائے -
یہ سب باتیں مجھے تو حیران کئے جارہی تھیں - انہوں نے بتایا کہ فی جی سے
تقریبآ اسی کے قریب افراد آئے ہیں اور ہماری مسجد میں پانچ افراد کی تشکیل
ہوئی ہے - انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے کوئی رشتے دار وغیرہ بھارت پاکستان
میں نہیں رہتے ہیں - نیز وہ پہلی مرتبہ یہاں آئے ہیں-
فی جی کی داستان بھی عجب حیرت انگیز ہے - اور اتنے دور دراز علاقے میں
اسلام پھیلنے کی داستان اس سے زیادہ حیرت انگیز - اللہ بھی کن کن ہستیوں سے
کیسے کیسے کام لیتا ہے ' یہ سوچ کر دانتوں میں انگلی داب لیتا ہوں - یہ دور
دراز دنیا سے الگ تھلگ علاقہ جہاں پہنچنے کا زمین راستہ ہی نہیں تھا - وہاں
اللہ نے برطانیہ کے انگریزوں کو چنا کہ تم یہاں کلمہ لاالہ الاللہ محمد
ارسول اللہ کی آواز پہنچاؤ گے اور انہوں نے یہ آواز پہنچائی -
یہ 1874 کی بات ہے - پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوئے 17 برس ہو
چکے تھے- دنیا میں ہر طرف برطانیہ کے پرچم لہرا رہے تھے - برطانوی مقبوضہ
علاقوں کی وسعت بڑھتی جا رہی تھی - اور وہ دنیا کے دوسرے علاقوں پر بھی
قابض ہوتے جارہے تھے - براعظم یورپ میں بیٹھے ہوے ان کی نظر براعظم
آسٹریلیا پر پڑی بلکہ آ سٹریلیا سے کے بھی دور پار فی جی پر پڑی جو امریکہ
کے زیر انتظام تھا - برطانوی دماغ مختلف حکمت عملیوں سے اسے بھی اپنی سلطنت
کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوگئے - کامیاب کیا ہوئے ' بلکہ فیجی کا سربراہ "کیکو
باؤ " خود ہی برطانیہ پہنچا اور درخواست کی کہ فیجی کے باشندوں پر دست شفقت
پھیرتے ہوئے اپنی سرپرستی میں لے لیجئے اور ہمارے قرضے چکا کر مملکت امریکہ
سے جان چھڑا دیجئے - اور یوں وہ بھی برطانوی پرچم کے زیرِ نگیں آگیا -
برطانوی افراد میں ایک خوبی ضرور تھی کہ وہ قابض ہو نے کے بعد مقبوضہ علاقے
میں اپنے مفادات مد نظر رکھتے ہوئے ترقیاتی کام کرتے تھے - سو یہی ارادہ
انہوں نے فی جی میں کیا -انہیں فی جی میں گنےکی کاشت اور اسکے بعد اسے شوگر
(چینی یعنی شکر ) میں تبدیل کرنے کے وسیع امکانات نظر آئے - اس کام کے لئے
انہیں افرادی قوت کی ضرورت پڑی - ایسی افرادی قوت جو سمندروں کی موجوں کا
سینہ سپر ہو کر مقابلہ کر سکیں - جو ایک مرتبہ اپنے کام میں جت جائین تو
اسے پایہ تکمیل کو پہنچائے بغیر سر نہ اٹھائیں - اپنے کام سے مطلب رکھیں -
وہ منکسرالمزاجی کا کامل نمونہ ہوں - زرعی امور سے پوری طرح واقف ہو ں - -
انہیں یہ افراد فوری طور پر مدراس -حیدرآباد دکن کلکتہ میں نظر آئے -
برطانیہ نے انہیں فی جی کے لئے پانچ سالہ لازمی قیام کے معاہدے کے تحت بطور
مزدور بھرتی کرنا شروع کیا - اس کے علاوہ کچھ افراد پنجاب ، بلوچستان ،
خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بھی لئے -اس وقت تک بھاپ کے بحری جہاز یورپی
اقوم کی محنت و تحقیق کے سبب عالم وجود میں آچکے تھے - یہ مزدور جن میں
ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے بھاپ چھوڑتے جہازوں میں بیٹھ کر دس ہزار
کلومیٹر کی مسافت پر واقع فیجی پہنچنے لگے - اس زمانے میں یہ تقریبآ چالیس
دن کا سفر ہوتا تھا -
یہ وہ وقت تھا جب اس جہاں آب و گل میں دینِ اسلام کی روشنی پھیلے ساڑھے
بارہ سو برس سے اوپر ہو چکے تھے - لیکن فی جی کے جزائر اس روشنی سے ابھی تک
محروم تھے - اب یہ جزائر اسلام کی ضیاء پاشیوں سے منور ہونے جار ہے تھے -
بدھ خان پہلا مسلماں تھا جس نے جہاز سے اترنے کے بعد شکرانے کی نماز کی
اذان دی -
اللہ اکبر اللہ اکبر -
اشہد ان لاالہ الا اللہ - اشہد ان لاالہ الا اللہ
اشہد ان محمدا رّسول اللہ - اشہد ان محمدا رّسول اللہ
آللہ کی کبیریت ماننے کا اقرار اور محمد کو رسول تسلیم کرنے کا اظہار کلمہ
شہادت کی صورت میں اس علاقے سے ہم کنار ہوا - فی جی کی فضاؤں نے - فی جی کی
ہواؤں نے - ہرے بھرے درختوں نے - آسمان پر اڑے پرندوں نے یہ صدا سنی اور
ایک نئے سکون ، قرار ، اطمینان کی لہروں میں کھو سے گئے - فی جی کی سرزمین
پر پہلی مرتبہ اللہ کے بندوں کے ' اللہ کے حضور میں جھکے سر دیکھ کر نیلا
آسمان اور اس پر تیرتے ہوئے بادل بھی نیچے جھک آئے -
یہ معاہدہ بعد میں جانے والے افراد اور انگریزی حکومت کے باہمی رضا مندی سے
مزید پانچ سال بڑھا دیا گیا تھا - دس سال بعد انگریزی حکومت نے انہیں مستقل
رہائش کی پیش کش کی اور یہ بھی کہا کہ کسی بھی جزیرے میں آباد ہو سکتے ہیں-
نئے علاقوں میں جاکر بسنے میں کئی مسائل پیش آتے ہیں - سو وہ یہاں بھی آئے
- مسلمانوں کو اپنے مذہب کے لحاظ سے بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا - ظاہر
ہے وہ ایک معاہدے کےتحت ائے تھے چنانچہ نماز کی ادائیگیوں میں کوتاہی سے وہ
پریشان ہوئے اور پھر رمضا ن کے مہینے میں روزے رکھنے کے مسائل بھی کھڑے
ہوئے - اور اس سے زیادہ یہ کہ ان کی اسلامی مسائل کے حل کے لئے کوئی
رہنمائی کر نے والا نہیں تھا - آبادی کم تھی اس کے سبب شادی کے لئے مناسب
رشتے ملنے بھی آسان نہیں تھے - اسی وجہ سے اس زمانے میں ہندو اور مسلمانوں
کے درمیان بھی شادی کے رشتے طے ہو جاتے تھے -
نئے علاقوں میں جاکر بسنے میں کئی مسائل پیش آتے ہیں - سو وہ یہاں بھی آئے
- لیکن مسلمانوں کو اپنے مذہب کے لحاظ سے بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا -
ظاہر ہے وہ ایک معاہدے کےتحت ائے تھے چنانچہ نماز کی ادائیگیوں میں کوتاہی
سے وہ پریشان ہوئے اور پھر رمضا ن کے مہینے میں روزے رکھنے کے مسائل بھی
کھڑے ہوئے - اور اس سے زیادہ یہ کہ ان کی اسلامی مسائل کے حل کے لئے کوئی
رہنمائی کر نے والا نہیں تھا - آبادی کم تھی اس کے سبب شادی کے لئے مناسب
رشتے ملنے بھی آسان نہیں تھے - اسی وجہ سے اس زمانے میں ہندو اور مسلمانوں
کے درمیان بھی شادی کے رشتےکافی تعداد میں ہوئے - متحدہ ہندوستان سے آنے
والے افراد نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے مسائل باہمی طور پر حل کر
کے مشکلات کا مقابلہ کرینگے اور ہندو مسلم رشتے باہمی طے ہونے کا ایک سبب
یہ بھی تھا - ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں کو منانے میں بھی تعاون کرتے تھے
-محرم کےمہینے میں تعزئیے بنانے میں ہندو مسلم دونوں آگے اگے ہوتے تھے اور
انہیں بحر الکاہل میں لے جا کر ٹھنڈا کرنے کے لئے اکٹھے جایا کرتے تھے -
آج 137 برس بیت چکے ہیں - وہ مسلمان جو یہاں مزدور کی حیثیت سے آئے تھے ان
کی ذریت تعلیم کے ذریعے اب یہاں کلیدی عہدوں پر فائز ہے مثلاً - اٹارنی
جنرل - وزیر قانون - وزیر صنعت - وزارت صنعت کے سیکرٹری - محکمہ رسل و
رسائل یعنی میڈیا ڈپارٹمنت کے سربراہ -
- اس کے علاوہ سڑکوں / مقامات کے نام بھی اہم مسلمان شخصیتوں کے نام پر کھے
گئے ہیں مثلآ مقبول روڈ - غازی روڈ - شالیمار سینٹر وغیرہ
فیجی کے یہ مسلمان اردو ایک خاص لہجے میں بولتے ہیں لیکن ان کی بنیاد یا
اصل ماخذ اردو ہی ہے - جیسے پمارے یہاں اردو مختلف لہجوں میں بولی جاتی ہے
-
تبلیغی جماعت کے ارکان اور فیس بک پر فی جی کے افراد سے بات چیت کرنے کے
بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلمان اگر چہ وہاں پر اقلیت میں ہیں لیکن
ایک اچھے نطام حکومت کے تحت وہ نہایت پر امن زندگی گزار رہے ہیں - ایک اچھا
معاشرہ گل و بلبل کی خوشبوؤں اور نغموں کے ساتھ پنپتا جا رہا ہے - اسلام
بھی اپنی پوری عظمت و حشمت اور آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے مسلمان نہ کسی
سے مرعوب ہیں اور نہ ہی کسی کے مغلوب - گلے میں مظلومی کے طوق نہیں ہیں
بلکہ شادمانی و شادابی کے پھول ہیں - رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وسلم کے یوم ولادت پر پورے ملک فیوجی میں عام تعطیل ہوتی ہے - ریڈیو
ٹی وی سے خصوصی پروگرام نشر کئے جاتے ہیں - عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے
موقع پر تمام مسلمانوں کو سرکاری طور پر چھٹی دی جاتی ہے اور اپنے مذہبی
رسومات کی ادائیگی میں کسی قسم کی قدغن نہیں - گائے کی قربانی کا کوئی
مسئلہ نہیں-
فی جی میں زیادہ تر اسکول پرائیویٹ سوسائٹیوں ' رفاہی اداروں ' مختلف
تنظیموں کے تحت چلتے ہیں - ان اسکولوں کا نظام تعلیم اور نصاب سیکولر
اصولوں کی بنیاد پر بنایا گیا ہے - حکومت ان کے تعلیمی نظام اور نطم و نسق
کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور ان کا سلیبس متعین کرنے میں تعاون کرتی ہے -
مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کی زیر نگرانی 22 اسکول اور 8 کالج چل رہے ہیں -
ان مسلمانوں کے اسکولوں کا نتیجہ مختلف بیرونی امتحانات میں جو کہ حکومت کے
تحت ہوتے ہیں 1سی سے سو فیصد تک ہوتا ہے - اسی سبب سے غیر مسلم طلباء و
طالبات بھی ان اسکولوں میں داخل ہونا پسند کرتے ہیں بلکہ کئی اسکولوں میں
تو غیر مسلم اسٹوڈنٹس کی تعداد زیادہ ہے -
مسلم تنظیموں کی زیر نگرانی جو اسکول چل رہے ہیں وہاں قرآن ناظرہ کے علاوہ
اسلامک اسٹڈیزاور اردو عربی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے - تعلیم کے لئے کالج
کے بچوں کو بلا سود قرضے دینے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے - انہی تنظیموں کے
تحت بچوں کے لئے رہائشی یعنی ہوسٹل کی سہولت والے کالج بھی کھولے گئے ہیں -
یہی وجہ ہے کہ اب مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کے سبب کلیدی ذمہ داریوں والی
نوکریاں کرنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آتی ہے -
اس نظام تعلیم کے علاوہ مسلمانوں نے اپنا ایک مدرسے کی تعلیم کا نطام بھی
بنایا ہوا ہے - جہان فقہ ' حفظ منطق وغیرہ کے اسلامی کورس کروائے جاتے ہیں
- البتہ ان مدرسوں کو حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں فراہم کی جاتی ہے -
تبلیغی جماعت کے ایک فرد نے کہا کہ ہم جب بھارت پاکستان میں ہندو مسلم
تنازعے سنتے ہیں تو بہت حیرت ہوتی ہے کیونکہ فی جی میں تو ایسے کوئی مسائل
نہیں ہیں اورسب ملکر شیر و شکر ہو کر رہتے ہیں - مسلمانوں کے جنازے میں
مسلمان کم ہوتے ہیں اور ہندو زیادہ -
انہوں نے مزید کہا کہ رمضان کے موقع پر دوسرے مذاہب کے پیرو کار ہمارا خیال
کرتے ہوئے کچھ اپنے طور پر سہولتیں دے دیتے ہیں -
ایک بات کا میں نے یہ اندازہ لگایا کہ فیجی کی عوام چین کے بڑھتے ہوئے اثر
سے کچھ خوفزدہ ہیں - چینیوں کی آبادی بڑھ رہی ہے - ان کا اپنا رہنے کا
انداز ہے جو کہ فیجی کی عوام سے مختلف ہے - چینی افراد فی جی کے متمول طبقے
میں شمار ہوتے ہیں -
فی جی بحر الکاہل کے جنوب میں واقع ہے -یہ 322 جزائر پر مشتمل ہے- لیکن اس
میں صرف 100 کے قریب جزیرے ہیں جن میں آبادی ہے - اس کی آبادی 9 لاکھ کے
قریب ہے -اس میں مسلما نوں کی تعداد 70 ہزار کے قریب ہے -
اسلام کی اس خطے میں آمد سے قبل سن 1830 میں ایک عیسائی مشنری دستے نے یہاں
آکر اپنے مذہب سے یہاں کے لوگوں کو آشنا کرایا تھا اور مقامی آبادی اس مذہب
کی پیروی کرتی تھی -
( اس مضمون کی تیاری میں ‘ میں فی جی کے سماجی رہنما جناب محمد شمیم علی کا
بہت شکر گزار ہوں -جن سے میرا تعارف انٹر نیٹ کے ذریعے ہوا اور وہ بھرپور
معاونت کرتے رہے - ان کے بغیر اس کی تکمیل ناممکن تھی ) |
|