اللہ کے حوالے۔۔۔!

ایک جگہ چنددوستوں کی محفل جمی ہوئی تھی،جوکہ لغویات اورفضول باتوں سے بالکل خالی تھی،اس محفل میں دین کے مسائل کے بارے میں گفتگوجاری تھی،اگرچہ مزاح بھی چل رہاتھامگرمزاح بھی اتناسنجیدہ کہ کسی کوکسی بات پرکھلکھلاکرہنستاہوانہیں دیکھاگیاتھا،ان حاضرین وموجودین میں ایک ایسانوجوان بھی تھاجووقت کابادشاہ تھا،مگرکوئی بھی نیاآنے والاان کی اس محفل کودیکھ کران حاضرین میں سے یہ تعین نہیں کرسکتاتھاکہ ان میں سے کون سابادشاہ ہے اورکون اس کے رعایا ؟کون امیرالمومنین ہے اورکون اس کے مامورین ہیں؟بلکہ اس بادشاہ کی سادگی کاتویہ عالم تھاکہ جب ان کونیندکرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تووہ سرکے نیچے اینٹ رکھ کرایسے ہی زمین پرلیٹ جاتے تھے،جنہوں نے زندگی میں کبھی کوئی گارڈنہیں رکھاتھا،جن کوخداکااتناخوف تھاجس کی انتہاء نہیں،ان کے خوفِ خداکی عکاسی کرتاہواان ایک ایک جملہ ایساہے جوسونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے،منجملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ'' اگرفرات کے کنارے بکری کاایک بچہ بھی بھوک کی وجہ سے مرگیاتومجھ سے قیامت کے دن سوال ہوگا''۔اللہ اکبر!یہ عالم تھاعاجزی اورانکساری کا،اوریہ حال تھاخوف خداکا،مگران کارعب اتناتھاکہ ان کے زمانہ حکومت میں کفارکی بڑی بڑی سلطنتیں ان کے نام سے کانپتی تھیں،بڑے بڑے کافربادشاہ ان کے سامنے بھیگی بلی کی طرح ہوتے تھے،ان کے ساتھ کسی کافرملک کولڑنے کی جرات نہیں ہوتی تھی،وہ ایسے تھے جنہون نے قوم کی حفاظت کیلئے پولیس کاشعبہ قائم کیا،آج بھی ان کے اس عظیم کارنامے کے ساتھ ساتھ اوربھی بہت سارے کارناموں کودنیامیںخراج تحسین پیش کیاجاتاہے،اس سب کچھ کے باوجودمحفل میں ساتھیوں کے ساتھ بلاتکلف گفتگوکیاکرتے تھے،بات یااندازسے کسی سے بھی تکبروعجب کی بوبھی محسوس نہ ہوتی تھی،گھل مل کررہنابھی اسلئے تھاتاکہ کسی کوکوئی بات کرنے میں جھجھک محسوس نہ ہو،اورہرایک اپنے دل کی بات اورضرورت کھل کربیان کرسکے،گویاآپ کی تمام محافل تکلفات سے عاری اورخالی ہوتی تھیں۔

اسی محفل کے دوران ایک آدمی اس مجلس میں حاضرہوااس کے ساتھ اس کابیٹابھی تھا،اوروہ بیٹااپنے باپ کے اتنامشابہ اورہمشکل تھا،ان کی شکلیںآپس میں اتنی ملتی جلتی تھیں کہ ان کی اس مشابہت کودیکھ کراس محفل میں موجوداپنے وقت کے عظیم بادشاہ اورامیرالمومنین حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں نے نہیں دیکھاکسی کوے کوجوزیادہ مشابہ ہواس کوے سے، یعنی ایک کوادوسرے کوے سے جیسی مشابہت رکھتاہے،کہ ان میں کوئی فرق نہیں ہوتاسب ایک جیسے ہوتے ہیں،ایسے ہی مشابہت اس باپ اوربیٹے میں ہے،کہ یہ بالکل ہمشکل ہیں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے،باپ اوربیٹے کی شکل بالکل ملتی جلتی ہے۔

یہ بات سن محفل میں آنے والے اس لڑکے کے باپ نے کہااے امیرالمومنین یہ میرالڑکاجواس وقت میرے ساتھ ہے اس کواس کی والدہ نے اس وقت جنم دیاجب کہ وہ مرچکی تھی، یہ سن کرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کوبڑاتعجب ہوا،اورآپ سیدھے ہوکربیٹھ گئے ،اورفرمایاکہ اس بات کی تفصیل بتاؤ،اوراس بچہ کامکمل قصہ بیان کرو،کہ اس کی ماں نے اس کومرنے کے بعدکیسے جنم دیا؟

تووہ آدمی کہنے لگاکہ اے امیرالمومنین ایک مرتبہ ایساہواکہ مجھے ایک اہم سفردرپیش ہوا،جس کیلئے میراجانانہایت ضروری تھا،اس سفرمیںجائے بغیرکوئی چارہ کارنہ تھا،اورادھرسے میری بیوی یعنی اس بچہ کی والدہ کواس کاحمل تھا،یہ پیداہونے والاتھا،میری بیوی نے مجھ سے کہاکہ تم اس حال میں مجھے چھوڑکرجارہے ہو،تمہارے جانے کے بعدمیراکیابنے گا؟میراخیال کون کرے گا؟پیدائش میں کوئی پیچیدگی ہوئی توکیابنے گا؟تومیں نے سفر کی مجبوری کی وجہ سے اس کوکہاکہ استودع اللّٰہ مافی بطنک کہ میں اس بچہ کوجوتیرے بطن میں ہے اللہ تعالی کے حوالے کرتاہوں۔اللہ تعالی کے سپردکرتاہوں،اللہ اس کاحامی وناصرہو۔

امیرالمومنین اتنی بات کہہ کران کواللہ تعالی کے حوالے کرکے میںسفرپرروانہ ہوگیااس سفرمیں مجھے کافی سارے سال لگ گئے،کام کے زیادہ ہونے اورسواری کے نہ ہونے کی وجہ سے ،اس دوران مجھے اپنی بیوی اوربچے کاکوئی پتہ نہ تھا،کہ ان کاکیابنا،اورنہ ہی کوئی ایسی صورت بن سکی کہ میں کسی طرح ان کے حال سے باخبررہ سکوں،اسی طرح کئی ماہ وسال گزرگئے،کئی سال بعدجب میں گھرواپس آیاتوگھرکودیکھاتواس کے دروازے پرتالالگاہواتھا،میں نے سمجھاکہ شایدبیوی کسی کام سے کہیں گئی ہوگی،کافی وقت گزرنے کے بعدبھی جب وہ واپس نہ آئی تومجھے تشویش نے آگھیرا،میں نے لوگوں سے اس کے متعلق پوچھاکہ میری بیوی کہاں ہے؟توانہوں نے کہاکہ اس کاتوانتقال ہوگیاہے ،وہ توکافی عرصہ پہلے فوت ہوگئی تھی،یہ سن کرمیں نے اناللہ پڑھا،اس کے بعداپنی بیوی کی قبرپرگیا،میرے چچازادبھائی بھی قبرستان میرے ساتھ چلے،قبرستان جاکرمیں کافی دیرتک اپنی بیوی کی قبرپربیٹھ کرروتارہا،میری یہ حالت دیکھ کرمیرے بھائیوں نے مجھے تسلی دی،اورواپسی کاارادہ کیااورمجھے گھرلانے لگے،واپسی پرابھی ہم قبرستان سے چندگزہی چلے تھے کہ مجھے قبرستان میں ایک آگ نظرآئی، میں نے اپنے چچازادبھائی سے اس آگ کے متعلق پوچھاکہ یہ آگ کیسی ہے؟انہوں نے کہاکہ یہ آگ روزانہ رات کے وقت بھابھی کی قبرمیں نمودارہوتی ہے،میں نے یہ سن کراناللہ پڑھااورکہاکہ وہ توایک بہت نیک عورت تھی تہجدگزارتھی،متقی پرہیزگارتھی،یہ اس کے کس جرم کی سزاہے؟اللہ تعالی اس کومعاف فرمائیں،تم مجھے دوبارہ قبرپرلے جاؤ،چنانچہ وہ مجھے قبرکی طرف لے گئے ،جب میں دوبارہ قبرستان میں داخل ہونے لگاتومیرے چچازادبھائی وہیں ٹھٹھک کررک گئے اورمیں تنہاہی اپنی مرحومہ بیوی کی قبرپرپہنچا،وہاں پہنچ کیادیکھتاہوں کہ قبرکھلی ہوئی ہے اورمیری بیوی اس میں بیٹھی ہے،اوریہ لڑکااس کے چاروں طرف گھوم رہاہے،ابھی میں اس کی طرف متوجہ ہی ہواتھا،کہ ایک غیبی آوازآئی اے اللہ تعالی کواپنی امانت سپردکرنے والے اپنی امانت واپس لے لے ،اوراگرتواس کی والدہ کوبھی اللہ تعالی کے سپردکردیتاتووہ بھی تجھے مل جاتی یہ سن کرمیں نے لڑکے کواٹھالیا،میرے لڑکے کواٹھاتے ہی قبربرابرہوگئی، امیرالمومنین میں نے جویہ واقعہ آپ کوبیان کیاہے اللہ کی قسم صحیح ہے۔میں نے اس میں کوئی بات غلط اورجھوٹی نہیں کی۔(حیاة الحیوان بتغییرج٢ص١٨٠)یہ سن کرسب حضرات اللہ تعالی کی قدرت پر تعجب کرنے لگے،کہ دیکھوکیسے اللہ تعالی نے اپنے بندے کی بات کی لاج رکھی،اس کی امانت کی حفاظت کی،بلکہ اس کویہاں تک کہاگیاکہ اگرتواس کی والدہ کوبھی اللہ تعالی کے سپردکرجاتاتووہ بھی تجھے مل جاتی،سبحان اللہ،گویااس سے ہرمسلمان کوامانت داری کاسبق دیاجارہاہے،کہ جب اللہ تعالی خودکسی کی امانت میں خیانت نہیں کرتے حالانکہ اللہ تعالی پرکوئی چیزواجب نہیں ہے،وہ جوبھی کرتے ہیں وہ ان کااپنے بندوں پراحسان ہوتاہے،توبندوں کیلئے توبطریق اولی ضروری ہے کہ وہ کسی کے ساتھ خیانت کامعاملہ نہ کریں۔جوبھی امانت ان بندوں کے پاس رکھی جائے اس میں دیانت سے کام لیں،ایسے ہی جوامانتیں اللہ تعالی کی طرف سے ہم سب مسلمانوں کوملیں ہیں ان میں بھی ہم سب کوخیانت کاارتکاب نہیں کرناچاہیے،مثلا جسم کے تمام اعضاء اللہ تعالی کی طرف سے انسان کے پاس امانت ہیں،ان تمام اعضاء کواللہ تعالی نے خلاف شرع استعمال کرنے سے منع فرمایا،اب اگرکوئی ان اعضاء کوخلاف شرع استعمال کرے گاتوگویاوہ اللہ تعالی کی امانت میں خیانت کررہاہے،جب کسی انسان کی رکھی ہوئی امانت میں خیانت کرنابہت بڑاجرم ہے، توخداتعالی کی جوامانتیں ہمارے پاس ہیں ان میں خیانت کرناکتنابڑاجرم ہوگا!امانت تواتنی اہم چیزہے کہ اس کی اہمیت کے پیش نظربعض بزرگان دین نے فرمایاہے کہ ہرمسلمان کوچاہیے کہ اپناایمان اللہ تعالی کے پاس امانت رکھ دے کہ یااللہ میںاپناایمان تیرے پاس امانت رکھتاہوں،جب میں مرنے لگوں تویہ میری امانت مجھے واپس لوٹادینا، لکھاہے کہ ایساکرنے والے شخص کے بارے میں قوی امیدہے کہ اس کومرتے وقت کلمہ نصیب ہوگا،اوروہ ایمان کی موت مرے گاان شاء اللہ،توہم سب کہتے ہیں کہ یااللہ ہم سب اپناایمان آپ کے پاس امانت رکھتے ہیں،مرتے وقت یہ امانت ہمیں واپس عطافرمادیناتاکہ ہم اس دنیاسے ایمان کی حالت میں جائیں،اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجاء ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کوامانت داری کی زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائیں،اورہرقسم کی خیانت سے محفوظ فرمائیں،آمین ثم آمین۔
Mufti M Moaviya ismail
About the Author: Mufti M Moaviya ismail Read More Articles by Mufti M Moaviya ismail: 7 Articles with 13571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.