حال ہی میں اسلامی نظریاتی كونسل نے ایك بل
پیش كیا ہے جس كے چیدہ چیدہ نكات یہ ہیں
# مخلوط تعلیمی نظام كی ممانعت اور با پردہ مخلوط تعلیمی نظام كا انعقاد.
# عورتوں پر فحش اشتہارات میں كام كرنے كی پابندی.
# عورتیں جائیداد ركھ سكتی ہیں
# بالغ لڑكی اپنی مرضی سے نكاح كر سكتی ہے,خلع لے سكتی ہے.
# شوہر كی طرف سے تشدّد كئیے جانے پر عدالت سے رجوع كر سكتی ہے.
# تیزاب پہینكنا,عزّت كے نام پر قتل اور قرآن سے شادی قابلِ تفتیش جرم ہیں.
# شوہر كا بیوی كو مارنا.كہیں یہ جملہ بہی ہے كہ بیوی كو اتنا مارا جا سكتا
ہے كہ ہڈّی نہ ٹوٹے.
اب زرا ان نكات پر بات ہو جائے.
عزّت كے نام پر قتل,كاروكاری,تیزاب پہینكے جانا اور قرآن سے شادی جیسے
عوامل بہرحال سنگین نوعیت كے جرم ہیں اور ان كو قتل قرار دینا بہی درست ہے
كیونكہ اسلام اس قدر بربریت اور ظلم كا روادار نہیں اور اس میں كوئی دو
رائے نہیں.ہے
عورتوں كو اسلام نے اپنی مرضی سے نكاح كرنے,خلع لینے اور تعلیم حاصل كرنے
كا حكم دیا ہے.آج عورت نے ہر فیلڈ میں نام كمایا
ہے.ڈاكٹر,پائلٹ,مصنّفہ,استاد اور كہیل كے میدان میں بہی اپنی كامیابی كے
جہنڈے گاڑےہیں.ہاں اگر فحش اور اخلاق سے گرے ہوئے اشتہاروں میں كام كرنے سے
منع كیا گیا ہےتو یہ ہمارے حق میں بہتر ہے.ہمارے میڈیا كا جو حال ہو گیا ہےﷲہی
رحم كرے. اس نكتے پر فی الفور عمل ہماری بگڑتی ہوئی معاشرتی صورتحال كو
كافی حد تك سنبہال لے گا
اب بات كرتے ہیں مخلوط تعلیمی نظام كی ممانعت اوربا پردہ تعلیمی نظام كی.
اسلام میں بہی شرم وحیا كی حفاظت اور مردو زن كے كہلے عام میل جول كو منع
كیا گیا ہے .مخلوط تعلیمی نظام اور نام نہاد آزادی اور ترقّی كے نام پر جو
كچھ ہو رہا ہے اور جس طرح ہماری روایات كو مجروح كیا جا رہا ہے كیا یہ شق
مناسب نہیں.
اور اب بات كریں گے اس شق كی كہ جس پر سب سے زیادہ تنقید كی جارہی ہے اور
وہ ہے شوہروں كو عورتوں كو مارنے كی آزادی دینا اور یہ كہ اتنا مارا جائے
كہ بس ہڈّی نہ ٹوٹے.
یہاں پہلے تو ہمیں یہ دیكہنا ہے كہ شریعت میں اس كی اجاذت ہے یا نہیں اور
اگر ہے تو كس حد تك ہے.
ارشادِباری تعالی ہے
اور جن عورتوں كی نافرمانی(بے حیائی,بدكاری) كا خدشہ ہو توانہیں سمجہاؤ ان
سے الگ سوو اور انہیں مار كی سزا دو.(سورۃالنساء)
ارشادِنبوی ہے
مرد سے اس چیز كے بارے میں سوال نہیں كیا جائے گا جس پہ اس نے بیوی كو
مارا(ابنِ ماجہ)
یعنی شریعت نے ایك حد تك مرد كو حكم دیا ہے كہ وہ نافرمان اور بدكار عورت
كی اصلاح كے لیئے اسے مار سكتا ہے یہاں یہ سمجھ لینا ضروری ہے كہ صرف
نافرمان اور بدكار عورت كو مارا جائے وہ بہی پہلے اس كو سمجہایا جائے پہر
خواب گہ الگ كی جائے پہر بہی بدكاری نہ چہوڑے تو پہر مارنے كا حكم ہے لیكن
یہ بات بہی قابلِ ذكر ہے كہ ﷲنے اور اس كے حبیب نے اس كوناپسند كیا ہے.ایك
دفعہ بہت سی عورتوں نے ازدواجِ مطہرات كے پاس آكر شكایت كی كہ ہمارے شوہر
ہمیں مارتے ہیں آپ ؐ نے فرمایا
یہ تمہارے اچّھے آدمی نہیں ہیں
یعنی یہ كہ مصلحت كے تحت عورت كو مارا جاسكتا ہے كیونكہ مرد كوعورت كا
نگہبان بنایا گیا ہے كیونكہ ایك عورت اپنے ساتھ چار مردوں كو دوزخ تك لے
جائے گی.مرد اس كی بےرہ روی اور پردے اور لباس كی عریانی كا جوابدہ ہے لہذا
سرزنش كے لیئے وہ ہلكا پہلكا مار سكتا ہے نا كہ اتنا جتنا مفتی صاحب نے
فرمایا بلكہ آپؐ كے فرمان كے مطابق اگر سمجہانے اور خواب گہ الگ كرنے كے
بعد بہی عورت نا مانے تو اتنا مارنے كا حكم ہے كہ جسم پر نشان نہ پڑے اور
فرمایا كہ بہتر ہے كہ كہجور كے پتّوں سے مارو.
یہ شق خلافِ شرع نہیں مگر اس كی بہتر تشریح اور تفسیر ہونی چہئیے كہ كن
حالات میں یہ حكم ہے.كیونكہ ہم نا سوچتے ہیں نا سمجہتے ہیں اور عمل كرنے
لگتے ہیں یا تو انتہا پسند بن جاتے ہیں یا سرے سے منكر ہو جاتے ہیں -
میری علماءاكرام سے التماس ہے كہ مردوں كو اس شق كے بارے میں قرآن و حدیث
اور حیاتِ طیّبہ كاحوالہ دے كر سمجہائیں.اور اس كے لیئے جمعہ كے خطبے كا
سہارا لیں اور ہر امام اس بارے میں تفصیلی خطبہ دیں اور مرد حضرات سے بس
اتنی گذارش ہے كہ قرآن و حدیث كا مطالعہ كریں اور حیاتِ طیّبہ سے اس كو
سمجہیں اور حیاتِ طیّبہ سے كہیں ثابت نہیں كہ بیوی كو مارنا سنّت ہے.یاد
ركہیں ہر بیوی كو نہیں صرف بدكار بیوی كو مارنے كا حكم ہے اور اس پر بہی جس
طرح حلال كاموں میں ﷲ كو طلاق كا عمل ناپسند ہے اسی طرح یہ عمل بہی ہرگز
ہرگز ﷲاور اس كے حبیبؐ كو پسند نہیں ہے
ارشادِ باری تعالی ہے
اور عورتوں كے ساتھ اچّہے طریقے سے زندگی بسر كرو(سورۃ النساء آیت 19)
ارشادِنبوی ہے
اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں سے اچّہا برتاو كرتے
ہیں.(ترمذی)
علماء حضرات اب آپ ہی اس كی بہتر تفسیر كریں ورنہ یاد ركہیں بیٹیاں آپ كے
گہر بہی ہیں جو كل كسی كی بیوی بنیں گی.اور بنی آدم انتہا پسند نہ بنو اور
نہ ہی منكر ہو جاو غورو فكر كرو حیاتِ طیّبہ كا مطالعہ كرو اور خود فیصلہ
كرو كہ یہ بات ہر عورت كے لیئے ہے یا كچھ شرائط ہیں جو لاگو ہوتی ہیں.
بقول اقبال
آجائے گا اقبال تجہے جینے كا سلیقہ
تو سرورِ كونینؐ كے فرمان پڑہا كر |