بہت بھوک لگی ہوئی تھی ۔ابو نے کہا پانی پی
لو بھوک مر جائے گی اور میں نے پانی پی لیا۔پھر پتا نہیں کیوں آنکھ کے
سامنے اندھیرا چھا گیااورکانوں میں آنے والی آوازیں مدھم ہونا شروع ہو
گئیں۔شاید ابو ابھی بھی کچھ کہہ رہے تھے کہ بیٹا!یہ زہر کا پیا لہ پی
لو۔میرے پاس پیسے نہیں ہیں تمھیں کچھ کھلانے کیلئے۔تم یہ پی لو ۔ہمیشہ
کیلئے ابو نے قسم دی تھی اور میں نے زہر پی لیااور اس کے بعد میری آنکھ ہی
نہیں کھلی اور ابو بھی شاید میری طرح سکون میں تھے،ان کی بھی بھوک ختم ہو
چکی تھی۔وہ بھی شاید میری طرح چین کی نیند سو چکے تھے۔
غریب شہر تر ستا ہے اِک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
ملتان میں پیش آنے والا یہ دل خراش واقعہ کوئی نیا نہیں ہے ۔ ایسے بہت سے
لوگ ہیں جو غربت کے ہاتھوں تنگ آکر یہ قدم اٹھا تے ہیں۔
اُجالوں کی تمنا لیئے رات کے اندھیروں میں
دھنستے چلے گئے اپنی لاچاری پر
اپنی بے بسی پر ہنستے چلے گئے
لقمہ لقمہ بھیک مانگ کر زندگی کو جیتے رہے
اپنی خواہشوں کو اپنی تمناؤں کو
آنسو ؤ ں کی مانند سِسک سِسک کر پیتے رہے
سونے اور چاندی کی دیواروں کو نہ پھلانگ سکے
لفظوں کا بھی قرض بھی نہیں ملادعا تک نہ مانگ سکے
کہ یہ دنیا ایک اندھیر نگر سے عجیب سا مزاج ہے
یہا ں زر سے ہے زندگی یہاں زر والوں کا راج ہے
’’حریم ‘‘ہم جیسے لوگو ں کا یہا ں کیا ٹھکانہ
ہم پر تو غریبو ں کی تہمت ہے
ہم پر تو غریبو ں کا طعنہ ہے
ہم پر تو غریبو ں کا طعنہ ہے
ہم میں سے کوئی یہ بھی نہیں سوچتا ہم روزانہ کتنا کھانہ ضائع کرتے ہیں اور
دنیا میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو دانے دانے کے محتاج ہیں۔ شادی بیاہ اور
دوسری تقریبات میں دل کھول کر فضول خرچی کی جاتی ہے اور کتنا ہی کھانا ضائع
کیا جاتاہے۔لیکن کسی غریب کے گھر ایک وقت کا چولہا جلانے کیلئے ہمارے پاس
پیسے نہیں ہوتے ۔
ایک طرف ہمارے حکمران جو فائیو سٹار ہوٹلوں میں انواع اقسام کے کھانوں سے
لطف اندوز ہوتے ہیں۔اپنے بچوں کی شادیوں میں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔اور
دوسری طرف بھوک سے نڈھال لوگ زہر کا پیالہ پی لیتے ہیں۔کیا اِس لئے کہ انکی
پیدائش کسی امیر گھرانے میں نہیں ہوئی؟یا اِس لئے کہ ہمارے حکمران حضرت عمر
فاروقؓ کے نقشِ قدم پر نہیں چلے؟حضرت عمر فاروق ؓکاقول ہے کہ میرے دور میں
اگر ایک کتابھی دریائے فرات کے کنارے پیاسا مر جائے تو اُسکا ذمہ دار میں
ہوں گا۔ اور آج کتنے ہی لوگ غربت سے تنگ آکر موت کو ہی آسان سمجھ لیتے ہیں
لیکن اِس کے باوجود ہمارے حکمران عیش و آرام میں مگن ہیں جنہیں اپنی رعایا
سے کوئی غرض نہیں۔جو عوام کا پیسہ با ہرملکوں میں لے جاتے ہیں اور اپنے آنے
وا لی نسلوں کیلئے پیسہ جمع کرتے ہیں جنھیں اِس بات کا احساس ہی نہیں کہ
ہمیں موت بھی آنی ہے اور انھیں اﷲ کے سامنے جوابدہ بھی ہونا ہے کہ جس
رعایاکی ذمہ داری اﷲ پاک نے اُنھیں دی ہے اُسے کیسے نبھایا۔میں جب اکثر
ننھے معصوم بچوں کوبھیک مانگتے دیکھتی ہوں،جب ایک عمر رسیدہ بوڑھے شخص کو
محنت کرتے ہوئے دیکھتی ہوں،میں جب لوگوں کو غربت کی وجہ سے خودکشی کرتے
ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے ہمارے معاشرے اور حکمرانوں کی بے حسی کاشدت سے
احسا س ہوتا ہے اور میرا دل خون کے آنسو روتاہے کہ حکمران اپنی ذمہ داریوں
سے منہ موڑ چکے ہیں تو کم سے کم معاشرے کے مخیر حضرات اگر اپنے ہمسایوں کے
حقوق بخوبی پورے کریں،سفید پوش لوگوں کی بنیادی ضرورتو ں کو پوراکریں تو
کبھی کسی باپ کو اپنے ہاتھو ں سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کے گھاٹ اُتارنا
نہ پڑے ۔کیوں یہ حکمران اُس باپ کی جگہ خود کو نہیں رکھتے،کیوں یہ حکمران
اُبھیک مانگتے ہوئے اُن معصوم بچوں کی جگہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر
پیداہونے والی اپنی اولاد کو نہیں رکھتے۔شاید انھیں احساس ہو کہ غربت کیسی
ازیت ہے۔ہمیں یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا معاشرہ کس راہ پر جا رہا
ہے اور ہمیں اِن مسائل کو حل کر نے کی ضرورت ہے۔ |