حساس دل ‘ قدرت کا ایک تحفہ

تحریر: قدسیہ عزیز ‘رالپنڈی
اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو انسانیت کے رشتے میں جوڑ کر اس کائنات میں بھیجا ہے ۔لیکن انسانیت کے رشتے کے علاوہ رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک تو خونی رشتے ہوتے ہیں جن میں محبت کا جذبہ قدرت کی طرف سے خون میں گردش کی طرح شامل کردیا جاتا ہے۔ دوسری طرف احساس کے رشتے ہوتے ہیں جو بغیر کسی تعلق کے ہماری زندگی میں جگنو کی طرح روشنیاں بکھیرتے ہیں۔احساس وہ جذبہ ہے جو رشتوں میں زندگی کا پیدا کرتا ہے ۔احساس سے عاری رشتے بنجر زمین کی طرح ہوتے ہیں جن سے محبت و ہمدردی کی کونپلیں نہیں پھوٹ پاتیں۔خونی رشتوں میں بھی اگر احساس کا جذبہ مر جائے تو رشتے مردہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔احساس بھرا دل ہونا اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔اگر آج ہم اپنے معاشرے پر نظردوڑائیں تو آج کل بہت سے لوگوں میں احساس نہیں ہے۔جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سے رشتے ٹوٹتے نظر آتے ہیں۔بھائی بھائی کا دشمن ہوتا نظرآتا ہے۔ احساس ایک ایساجذبہ ہے جو اگر کسی اجنبی میں بھی ہوتو وہ اپنا لگنے لگتا ہے اور اگر اپنوں میں نہ ہوتو وہ اجنبی لگنے لگتے ہیں۔جس دل میں احساس ہو وہ کبھی مرتا نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو ہمیشہ لوگوں کی پرواہ اور خیال رہتا ہے۔حساس دل لوگوں سے اگر انجانے میں بھی کسی کا دل ٹوٹ جائے تو وہ بے چین رہتے ہیں۔پریشانی ہر پل انہیں جکڑے رکھتی ہے۔ایسے لوگ کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے ۔اور وہ اپنی خودداری اور انا کو مار کر بھی دوسرے سے معافی مانگ کر دوسروں کا دل جیت لیتے ہیں۔دراصل یہی لوگ اپنی غلطیوں پراﷲ کی معافی پانے کے حقدار ہوتے ہیں ۔

یہ وہ نعمت ہے جس کے بغیر انسان نامکمل ہے۔دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس خوبی سے محروم رہتے ہیں ۔کیونکہ ا نہیں زندگی میں وہ سب کچھ مل رہا ہوتا ہے جو وہ چاہتے ہیں اور ان کو یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ وہ کس کس کا حق مار رہے ہیں کیونکہ انکو کسی کی تکلیف سے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔اگر ان لوگوں کی زندگی میں کوئی تکلیف دہ لمحہ آ جائے تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ تکلیف میرے اعمال کا نتیجہ ہے۔کیونکہ اﷲ دنیا میں بھی بہت کچھ دکھا دیتا ہے اور پھران میں انسانیت کیلئے ہمدردی و محبت کے احساس کو جگاتا ہے۔
ضمیر مرتا ہے احساس کی خاموشی سے
یہ وہ وفات ہے جس کی خبر نہیں ہوتی
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.