عوام کو کچھ شکایات ہیں جو بالکل
بجا ہیں عوام کو حکومت سے شکایت ہے کہ انہیں بنیادی ضروریات زندگی مہیا
نہیں کی جا رہی روٹی، کپڑا اور مکان کا حصول نا ممکن ہوتا جا رہا ہے ان کے
جان و مال کے حفاظت کا فریضہ بھی حکومت ادا کر نے میں ناکام ہو رہی ہے۔ امن
و امان کی صورت حال سے ہر پاکستانی بجا طور پر پریشان ہے کہ باوجود جا بے
جا سیکیورٹی چیک کے خودکش شہروں میں داخل ہو جاتے ہیں اور اگر نہ ہو سکیں
اور روک لیے جائیں تو چیک پوسٹ پر موجود اہلکار تو شہید ہو ہی جاتے ہیں۔
انسانی جانیں ضائع ہونے پر ہر پاکستانی دکھی اور غمزدہ ہوتا ہے۔
مجرم پکڑ لیے جائیں تو بھی عوم اسے محض ضابطے کی کاروائی سمجھنے پر مجبور
ہوتے ہیں کیونکہ اس کے بعد یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ملزم یا مجرم کو سزا
بھی ہوئی یا نہیں اگر ہوئی تو نہ تو یہ سرِعام ہوتی ہے نہ اسے مشتہر کیا
جاتا ہے تاکہ عوام کو اپنی حفاظت کا احساس اور مجرموں کو اپنے انجام کا خوف
پیدا ہو بلکہ اکثر مجرم تو صاف بری کر دیئے جاتے ہیں لہٰذا عوام کو ایک گلہ
اپنے قانون اور عدالتی نظام سے بھی ہے۔ چلیں کچھ ملزمان تو ایسے ہونگے
جنہیں شک کی بنیاد پر پکڑا گیا ہو اور انہیں شک کا فائدہ دے دیا جاتا ہو
لیکن کیا پھر بھی ضروری نہیں کہ ان کی خفیہ طور پر مسلسل نگرانی کی جائے
تاکہ پھر کسی سانحے، حادثے اور تباہ کن جرم سے بچا جاسکے لیکن کچھ ملزم تو
یقینی طور پر مجرم ہوتے ہیں پھر آخر انہیں کیسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سوات جس
عذاب سے گزرا ہے اس کے ذمہ دار افراد کو ابھی تک سزا کیوں نہ ہوئی بلکہ بعض
پر تو ابھی تک مقدمہ تک شروع نہیں کیا گیا۔ مسلم خان جیسا علی الاعلان مجرم
اس کی ایک مثال ہے جو میڈیا پر آکر بے شمار جرائم کا اقرار کر چکا ہے۔ صوفی
محمد نے جس طمطراق سے آئین پاکستان کی توہین کی اپنے خود وضع کردہ اسلامی
اصولوں پر عمل نہ کرنے والے ہر مسلمان پر کفر کا فتویٰ جاری کر دینا جس کے
لیے بہت ہی آسان تھا بلکہ واجب القتل قرار دینا بھی کوئی بڑی بات نہ تھی
تاحال اس کی سزا کا کسی کو علم نہیں۔
ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام میں ایک گرفتار شدہ خود کش بمبار نے بڑے
فخر سے اقرار جرم کیا اور بڑی تسلی سے کہا کہ وہ پہلے بھی گرفتار ہو کر رہا
ہو چکا ہے اور اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا ساتھ ہی اس نے پختہ ارادہ ظاہر
کیا کہ وہ آزاد ہو کر پھر خود کش حملہ کر کے تباہی پھیلائے گا کیا اس شخص
کو اس کے اس اقرار جرم کے بعد سزا دی گئی جو سرِعام دی جانی چاہیے تھی تاکہ
دوسروں کو عبرت ہوتی۔ محمد عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کی مثال سب کے سامنے ہے
جسے میریٹ ہوٹل کے دھماکے اور لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ کی شہادت کے جرم میں
پکڑا گیا لیکن حیرت انگیز طور چھوڑ دیا گیا جس نے اسے جی ایچ کیو پر حملے
کی ہمت اور پلاننگ کا موقع دیا۔ ایک اور یقینی مجرم جسکا نام اسوقت میرے
ذہن میں نہیں جسے مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملے کے دوران فوجی ہیلی
کاپٹر پر ہینڈ گرنیڈ پھینکتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا کیا اسے فوری اور
سخت سزا نہیں ملنی چاہیے تھی اس مئی اور جون کے مہینے میں دہشتگردی کے کئی
ملزموں کو ناکافی ثبوتوں کے بنا پر بری کر دیا گیا اب ثبوت تو ناکافی ہونگے
ہی کیونکہ اصل مجرم یعنی خود کش تو مر جاتا ہے اور یوں بڑا ثبوت خود بخود
ضائع ہو جاتا ہے لیکن ظاہر ہے جسطرح ان حملوں کے لیے چودہ، پندرہ یا اٹھارہ
سال کے لڑکوں کو استعمال کیا جاتا ہے وہ اتنی بڑی پلاننگ خود تو نہیں کر
سکتے۔ ان حملوں کا منصوبہ ساز کوئی اور ہوتا ہے جو پوری معلومات حاصل کرتا
ہے ان بچوں کی ٹریننگ اور برین واشنگ کرتا ہے اور پھر انہیں استعمال کرتا
ہے۔
کچھ خودکش اگر گرفتار ہو جاتے ہیں اور تمام ثبوتوں یعنی خودکش جیکٹ پہنے
ہوئے پکڑے جاتے ہیں تو پھر کیوں نہ انہیں فوری اور سرِعام سخت سزا دے دی
جاتی ہے۔ کم عمر کے بچوں کو آپ الگ رکھ کر ان کی ذہنی تربیت کر کے
زیرنگرانی مفید شہری بننے میں مدد دے سکتے ہیں لیکن ماسٹر مائنڈ کے ساتھ
رعایت قوم کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ اسلام کسی انسان کا خون بہانے والے کے
ساتھ کسی قسم کی نرمی کا روادار نہیں جب تک کہ خود لواحقین یہ خون معاف نہ
کر دیں۔ مون مارکیٹ میں مرنے والے معصوم شہریوں اور دلہنوں کا خون معاف
کرنے پر انکے لواحقین تیار نہیں ہیں۔ پشاور کے تو نہ معلوم کتنے بے گناہ
شہریوں کا خون ان کے سر پر ہے اور اس ملک کے رونقیں برباد کرنے والے کسی
رعایت کے مستحق نہیں۔ میں عدالتی نظام کی زیادہ پیچیدگیوں سے واقف تو نہیں
ہوں لیکن میرے علم میں تو جو نام ایسے تھے جو سخت ترین سزا کے مستحق ہیں
مجھے ان کی بری ہونے پر تعجب اور دکھ ہے۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق سوات میں
تقریباً دو ہزار دہشتگرد ایسے ہیں جن پر ابھی تک مقدمات شروع بھی نہیں ہوئے۔
انصاف کی فوری اور سستی فراہمی کسی بھی معاشرے کی خوش قسمتی ہوتی ہے اور
دہشت گردی تو ایک قومی جرم ہے جس نے ہمارے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا
ہے فوجی آپریشن سے اس مسئلے پر قابو تو پایا جاسکتا ہے لیکن یہ اس کا حتمی
حل نہیں ہے۔ حتمی حل بہرحال حکومت اور سول اداروں کی ذمہ داری اور کام ہے
جس کے لیے انتہائی خلوص نیت سے کام کرنا ہوگا متاثرہ علاقوں میں خاص کر اور
پورے ملک میں عام طور پر عام آدمی کی حالت بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دینی
ہوگی تاکہ دہشت گردوں کو کارندے میسر ہی نہ آسکیں اور یہ بات بھی ذہن میں
رکھنی ہوگی کہ جرم کی سزا جرم کے مطابق اتنی سخت ضرور ہو کہ دوسرے عبرت پکڑ
سکیں۔ آج خوش قسمتی سے ملک میں آزاد اور ایماندار عدلیہ کی موجودگی ایک خوش
آئند امر ہے لیکن اس کے ثمرات عوام تک ضرور پہنچنے چاہئیں اور خاص کر دہشت
گردی کے قلع قمع کرنے کے لیے انتہائی جرات اور زیرکی کی ضرورت ہے۔ قانونی
پیچیدگیوں کو اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ہرگز حائل نہیں ہونا
چاہئیے کیونکہ یقیناً عدالت میں بیٹھا ہوا منصف بھی قانون کے سامنے ہر
دوسرے شہری کی طرح بے بس ہے اسے بھی قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے
لیکن یہ یاد رہے کہ اس معاملے میں ثبوت کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکتے کیونکہ
مجرم اپنے انجام تک پہنچ چکا ہوتا ہے لیکن ماسٹر مائنڈ کے خلاف اور گرفتار
شدہ مجرم جو اقرار جرم کر چکے ہوتے ہیں ان کو فوری سزا دینا نہ صرف قانونی
الجھنوں سے بچا سکے گی بلکہ عوام کو کم از کم اس تحفظ کا احساس رہے گا کہ
کوئی ہے جو خود کو ان کی حفاظت کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور ان کے خون کا بدلہ
لے سکتا ہے۔ جب کچھ ایسے لوگوں سے بات ہوئی جن کے عزیز و اقارب اس دہشت و
بربریت کا شکار ہو ئے تو ان کا کہنا یہی تھا ان کا تو جو نقصان ہونا تھا ہو
چکا اس کا ازالہ تو ممکن نہیں لیکن مجرموں کو سخت اور سرِعام سزائیں دوسرے
لوگوں کی زندگیوں کو بہت حد تک محفوظ بنا سکتی ہیں۔ |