مراسلہ: عریشہ فاروق
ہمارے معاشرے میں ہر شخص گلے شکوے کرتا نظر آتا ہے۔ جس سے بات کرو وہیں صدا
کا پریشان دیکھائی دیتا ہے۔ ہر بات میں ایک ہی لفظ کے میں زندگی سے تنگ ہوں۔
مایوس ہوگیا ہوں خود سے اور اپنی زندگی سے۔ ایسا کیوں ہے۔ یہ سوال اتنا ہی
اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ ہماری زندگی ہمارے لیے اہم ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر
شخص کی زندگی اداس اور پریشان ہے۔ انسان کو بنانے والے نے اس کی طاقت سے
زیادہ اسے دکھ تکلیف نہ دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا
بندہ کمزور ہے اور وہ کبھی اس کی طاقت سے زیادہ اسے دکھ نہیں دیتا۔
کل کے انسان کی نسبت آج کا انسان زیادہ پریشان اور رنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔
کل ہمارے پاس اگر اتنے وسائل نہیں تھے تو اتنے مسائل بھی نہیں تھے۔ وہ ہم
سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود ہم سے زیادہ خوش اور مطمئن نظر
آتے تھے۔ اس کی اہم وجہ کیا ہے۔ ہماری زیادہ تر پریشانی کی وجہ بھی ہم خود
ہیں۔ آج کا انسان ترقی کی دوڑ میں اس قدر گم ہو گیا ہے کے اس کے پاس خوش
ہونے کا ٹائم بھی نہیں بچا۔
ہم نے پیسے کو اپنی خوشی سمجھ لیا ہے اور یہی سوچ کے ہم دن رات کاغذ کے
ٹکڑوں کے پیچھے ایسے بھاگ رہے ہیں کے خود کو بھی بھلا بیٹھے ہیں، یہی وجہ
ہے کے ہم خوشی کی نعمت سے محروم ہیں۔ اگر ہم جو ہمارے پاس ہے اس پہ شکر کر
لیں تو یہ بات بھی ہمارے لیے خوشی کا زریعہ بن سکتی ہے۔ ہم جو نہیں حاصل
اسے چھوڑ کے جو حاصل ہے اس پہ غور کریں تو یقینا یہ بات بھی ہمارے لئے باعث
اطمینان ہو گی۔ مانا کہ زندگی میں غم بھی آتے ہیں مگر یہ کیا کے بس ہم انہی
کا رونا روتے خوشیوں کے مواقع کھو دیں۔ اگر کچھ غلط ہوا ہے تو کچھ اچھا بھی
ہوگا۔ جس طرح ہم چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو مناتے ہیں اگر خوشی کو منائیں تو
یہ پریشانیوں کے لمحے ہمیں نظر ہی نہ آئیں۔
|