زمینی خداوٗں سے اﷲ بچائے

مملکت خدا داد میں صحافیوں کی انتھک اور ناقابل فراموش لازوال و بے مثال لاتعداد قربانیوں کے بعد صحافت کو ریاست کا چھوتا ستون مانا جانے لگا جس سے صحافیوں اور صحافت سے وابستہ افراد کے حصولوں کو مذید تقویت میسر آئی اور جیسے جیسے اِس شعبہ نے ترقی کی منازل طے کیں اِس میں جدیدیت اور نکھار آتا گیا،دورِ حاضر میں صحافیوں کو بیسیوں مسائل در مسائل درپیش ہیں تاہم اکثر وبیشتر صحافی اِن مسائل اِن مشکلات سے واقف تک نہیں وہ طبقہ جو بڑے شہروں میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اور ماہانہ بڑی بڑی تنخواہیں ہڑپ کرتے ہوئے ٹی،وی شوزمیں راتو رات حکومت تک گرانے کی منطق لوگوں پے تھونپ دیتا ہے وہ پرنٹ میڈیا سے وابستہ اشرافیہ جو اپنے اپنے اخبارات میں سب اچھا ہے کہ سہانے خواب قاریوں تک پہنچادیتا ہے اور من کرے تو ملکی مسائل کو یوں لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک سے زیادہ کسی ملک میں مسائل بھی نہیں اور ناہی ہمارے ملک سے بڑھ کر کسی ملک کی عوام غریب ہے اُن بڑے اور پائے کے وغیرہ وغیرہ ،،،،صحافی ہونے کا خود ساختہ لیبل خود پے چسپہ کرنے والے صحافتی طبقہ نے ایک پل کے لئے بھی یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ علاقائی صحافیوں کو کون کون سے مسائل درپیش ہیں بغیر تحقیق کیئے ایک پل میں یہ رائے قائم کرلینا کہ علاقائی رپورٹر تو ،،دہاڑی باز،،ہوتے ہیں اِس میں کسی حد تک شاید سچائی کا عنصر موجود ہو تاہم چند مردہ ضمیر عناصر کے باعث سبھی کو ایک جیسا سمجھنا دانشمندی نہیں ،میں یہ دعوے سے کہہ اور ثابت کر سکتا ہوں کہ دہاتوں، چھوٹے شہروں اور قصبوں کے صحافی بڑے سے بڑے شہروں میں بڑے سے بڑے ،،ایونٹ،،کی بہترین کوریج کرسکتے ہیں تاہم بڑے شہروں میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر خود کو ورکنگ جرنلسٹ تصور کرنے والے ہمارے دہاتوں میں آکر میلوں پید ل سفر طے کرتے ہوئے من پسند کوریج نا کرنے پے سنگین نتائج کی جان لیوا دھمکیوں کی چھاوٗں میں رپورٹنگ ہر گز نہیں کر سکتے ،اُس وقت مجھے کچھ دیکھائی اور سنائی نا دیا جب صوبائی دارلحکومت میں موجود ایک بڑے معتبر صحافتی پینل میں بیٹھے قد آور صحافیوں نے اپنی بات میرے منہ سے نکلوانے کی بارہا کوشش کی کہ علاقائی صحافیوں جیسا گندا انسان کوئی نہیں یہ بلیک میلر ہیں ،یہ لوگ ،،دہاڑی اکھٹی ،، کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور یہ لوگ صحافی نہیں بلکہ کسی نا کسی ایسے کاروبار یا دھندے سے وابستہ ہوتے ہیں کہ صحافت کی آڑ لینا اِن کے لئے ضروری ہوتا ہے اِس میں میں اپنے معتبر دوستوں کی محض اِس بات سے کسی حد تک اتفاق کرسکتا ہوں کہ واقعی علاقائی رپورٹروں میں چند ایک عناصر ایسے ضرور موجود ہیں جوکہ صحافت کے مقدس شعبہ کو بطور،،شیلٹر،، اپنائے ہوئے ہیں تاہم یہ کسی صورت بھی نہیں مان سکتا کہ تمام کے تما م علاقائی رپورٹر ز حضرات ہی بلیک میلر ہیں اور غیر صحافتی عناصر ہیں ،دورِ حاضر میں زبان زد عام ہے کہ احتساب کیا جائے احتساب ہونا چائیے اور اِس پے رونا اور ہنسنا ایک ساتھ اِس بات پے بھی آتا ہے کہ وہ صحافتی حلقے جو خود احتسابی کا عمل نہیں کرسکتے وہ وہی کام دوسروں کے لئے لازم قرار دیتے ہیں ،حکومت آزادی صحافت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دودھ سے دھلے ہونے کا تصور لیئے بیٹھے اِس شعبہ سے وابستہ چھوٹے سے لیکر بڑے صحافیوں تک کا بلا تاخیر اور بلا کسی رعائیت کے احتساب کا عمل شروع کرے جس کہ بعد ہی دیگر اداروں کا احتساب ممکن ہوسکے گا ،پہلے سرمایہ کار بڑے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں لگایا کرتے تھے تاہم اب اشرافیہ اخبارات نکالنے اور ٹی،وی چینل (لانچ) کرنے کی راہ پے گامزن ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے کئی ٹی،وی چینل اور اُن سے وابستہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے وہ حضرات جو خود کو بڑے اور معتبر صحافی کہلواتے ہیں شام ہوتے ہی اپنے اپنے (ٹاک شوز ) میں ایسی ایسی باتیں کرجائیں گے کہ جن کا قریب قریب حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا کوئی حکومتی حق میں قصیدے پڑھتے ہیں تو کوئی حکومت گرانے تک کی باتیں کرجاتے ہیں ،،،،،،،،یہ کیا ہے،،،،،، کیا ایک معضب معاشرے میں ایسا سب کچھ ہوتا ہے ؟کیا اِس سے یہ تاثر عام ہوتا ہے کہ واقعی صحافت آزاد ہے اگر یہی وہ واحد راہ بچی ہے آزادی اظہار رائے کی عکاسی کرنے کو تو یاد رکھیں یہ راہ غلط ہے اور ہم سب بطور صحافی پھر انتہائی غلط اور سنگین غلطی کی راہ پے گامزن ہیں قومیں وہی ترقی وخوشحالی کی منازل طے کرتی ہیں جو اپنی حکومتوں کو سپوٹ کرتی ہیں جو اپنی مملکت کے لئے عملی طور پے اپنی مخلصانہ خدمات سرانجام دیتی ہیں یہ سب کچھ ٹاک شوز میں بیٹھ کر کہنا اور سننا بہت آسان ہے تاہم عملی طور پے ایسا کرنا ذرا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ،،یہاں تک بات رہی علاقائی رپورٹروں کی تو چند کالی بھڑیں ضرور موجود ہوں گی جس کا میں نے بارہا اعتراف کیا وہ ہر محکمہ میں ہر جگہ ہوتی ہیں تاہم یہ منطق کہ تمام کہ تمام علاقائی رپورٹر ہیں ہی ،،دہاڑی باز،، یہ سراسر غلط ہے تاہم یہ فرق ضرور ہے کہ علاقائی رپورٹر اپنی جیبوں سے خرچ کرتے ہیں خبریت کے حصول کے لئے تو بڑے اخبارات اور نیوز ٹی،وی چینلوں کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والے لوگوں کی جیبوں سے نکلواتے ہیں حکومتوں سے لیتے ہیں اور اشتہارات کی مد میں پیسے لیتے ہیں علاقائی صحافی سختی کو برداشت کرتے ہوئے انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خبروں تک پہنچتا ہے تو دفاتر میں بیٹھنے والے صحافی بیٹھے بیٹھائے تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے جو جی میں آئے یا ،،پیسے د ے تماشہ دیکھ،، کی راہ پے گامزن ہوتے ہوئے (ٹیبل اسٹوری) کو ہی صحافتی اصول سمجھ بیٹھے ہیں خدا ایسے زمینی خداوٗں سے ہمارے شعبہ کو نجات دلائے اور وہ دن آئے جب علاقائی صحافیوں کو بھی اُن کے جائز حقوق فراہم کیئے جائیں ۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصر ہو!
Ch Fatehullah Nawaz Bhutta
About the Author: Ch Fatehullah Nawaz Bhutta Read More Articles by Ch Fatehullah Nawaz Bhutta: 18 Articles with 18636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.