اس پیار کو کیا نام دوں قسط نمبر 4
(Muhammad Shoaib, Faisalabad)
نورین کی شادی دانیال نے تاجور سے کروائی
تھی لیکن اس وقت دانیال کو معلوم نہیں تھا کہ تاجور کر ن کا ہی بھائی
ہے۔تاجور بچپن سے ہی تنہائی پسند تھا اور اس کی کسی بات پر اپنے ڈیڈ سے
نہیں بنتی تھی۔ لہذا اس نے گھر چھوڑ کر علیحدہ رہائش اختیار کر لی۔ اب جب
تاجور کو ڈیڈ کی موت کا علم ہوا تو اُس سے رہا نہ گیا اور وہ کرن سے ملنے
اس کے گھر آیا تھا
’’ آپ کافی بدل گئے ہیں بھائی۔۔۔ ‘‘کھانے کی میز پر کرن نے کہا تھا
’’ وقت اور حالات سب کچھ بدل دیتے ہیں۔۔‘‘معنی خیز لہجے میں جواب دیا
’’یہ تو ٹھیک کہا تم نے تاجور۔۔۔ویسے اتنا عرصہ کہاں رہے ہو؟ نظر ہی نہیں
آئے کبھی۔۔۔‘‘جوس کا ایک سِپ لیتے ہوئے دانش نے پوچھا تھا
’’ بس کیا بتاؤں دانش۔۔۔مصروفیات ہی کچھ اتنی تھیں۔۔ تم تو جانتے ہو شادی
کے بعد ٹائم ہی کہاں ملتا ہے۔۔۔‘‘ دبی ہنسی کے ساتھ جواب دیا
’’ ویسے کھانا اچھا بنالیتی ہیں آپ۔۔ تاجور سے اکثر آپ کے ہاتھوں کے بنے
کھانے کی تعریف سنی تھی۔۔۔آج کھا کر بھی دیکھ لیا۔۔‘‘ باتوں سے بے اعتنائی
برتتے ہوئے کہا تھا
’’شکریہ۔۔!!‘‘ کرن نے مسکراتے ہوئے جوس کا جگ نورین کے سامنے کیا
* * * * * *
سب کام نمٹانے کے بعد کرن اب اپنے کمرے میں جا رہی تھی۔اس کے چہرے پر تھکان
کے اثرات تھے۔ ٹی وی لاؤنج کی لائٹیں آف کیں ۔ تو لاؤنج میں ہر طرف اندھیرا
چھا گیا۔ پلٹ کر کچن میں آئی او ر فریج سے ایک پانی کی بوتل نکالی اور گلاس
میں ڈال کر دوگھون پانی پیتے ہوئے ذرا سی دیر کے لئے آنکھیں بند کیں
’’تمہاری بہن بالکل تمہاری جیسی ہے۔ وہی عکس۔۔ وہی نقش۔۔۔‘‘ایک کھڑکے سے اس
نے اپنی آنکھیں کھولی۔ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ باہر کوئی نہیں تھا۔ اس نے اپنا
وہم سمجھ کر خیالوں کو جھٹکا دیا اور گلاس کو شیلف پر رکھ کر فریج کی پچھلی
دیوار پر لگے سوئچز کو آف کیا تو کچن میں بھی اندھیرا چھا گیا۔ صرف کمروں
سے روشنی نکل رہی تھی۔مدھم نیلی روشنی۔۔وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی تو خاموش
ماحول میں فون کی رنگ نے ہلچل مچا دی۔ وہ پلٹی تو لاؤنج میں موجود فون بج
رہا تھا۔
’’اِس وقت کس کا فون ہے ؟‘‘ایک ثانیے کے لئے سوچا پھر سیڑھیاں اتر کر لاؤنج
میں آئی لیکن اس کے آنے تک فون بند ہو چکا تھا۔ پل بھر ٹھہرنے کے بعد وہ
واپسی کے پلٹی ہی تھی کہ دوبارہ رنگ ہوئی۔ اسے ایک دھچکا سا لگا۔ پلٹ کر
فون کو ایک ثانیے کے لئے گھورا پھر ریسور اٹھا کر کان سے لگایا۔
’’ ہیلو۔۔۔‘‘ آہستہ سے کہا مگر کوئی جواب نہیں آیا
’’کون ہے ؟ کوئی بول کیوں نہیں رہا؟‘‘اس کی آواز میں تیزی آگئی مگر خاموشی
کے علاوہ ریسور سے کچھ نہیں نکلا
’’میں آخری بار پوچھ رہی ہوں کون ہے وہاں؟‘‘ مگر جواب اب بھی نہیں آیا تھا
اس نے غصے میں بڑبڑاتے ہوئے فون کو کریڈل پر پٹخ دیا۔
’’ پتا نہیں کون لوگ ہیں۔۔۔۔ پریشان کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی۔۔۔‘‘ وہ
بڑ بڑاتی جا رہی تھی۔ابھی وہ پلٹی ہی تھی کہ ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجی۔
اس بار اس کے ماتھے پر شکن ابھر آئے۔ اس نے غصے میں ریسور اٹھایا مگر اس سے
پہلے کہ وہ کچھ کہتی ادھر سے جو جملہ اس نے سنا۔ وہ سننے کے بعد تو اس کے
پسینے ہی چھٹ گئے۔ماتھے پر غصے کی جگہ پریشانی عیاں ہوگئی۔وہ یک ٹک سامنے
دیوار کو ایسے گھور رہی تھی جیسے بات کرنے والا سامنے کھڑا ہو۔۔اس کے ہاتھ
سے ریسور چھوٹ گیا
’’ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔‘‘ برجستہ اس کے لبوں سے یہ لفظ نکلے تھے
’’نہیں۔۔۔‘‘اس نے نفی میں سر ہلایا۔
* * * *
دانش نے جیسے ہی کروٹ بدلی تو اس کی آنکھ کھل گئی مگر اپنے ساتھ جگہ خالی
دیکھ کر وہ پریشانی میں اٹھ بیٹھا۔ لحاف کو سرکایااور واش روم میں دیکھا
مگر وہ وہاں بھی نہیں تھی
’’ کہاں چلی گئی۔۔۔؟‘‘ اس نے پریشانی میں اپنا ہاتھ سر پر پھیرا۔ ایسا پہلی
بار نہیں ہوا تھا ، وہ اکثر ایسا کرتی تھی ۔ اور ہر بار وہ پریشان ہوجاتا
تھا۔ ایک ڈر تھا جو اس کے د ل میں کھٹکتا رہا ہر صبح جب تک وہ اس کا چہرہ
نہ دیکھ لیتا وہ ڈر اس کا پیچھا کرتا رہتا کہیں و ہ رات کے اندھیرے میں اسے
چھوڑ کر تو چلی نہیں گئی۔اس کی بے رخی کو تو وہ برداشت کر سکتا تھا مگر اس
کی جدائی کو نہیں۔۔پاس ہاتے ہوئے بھی وہ دوریاں تو برداشت کر سکتا تھا مگر
وہ ایک پل کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہو یہ اسے گوارا نہیں تھا۔
’’ کرن۔۔‘‘ اس نے اسے آواز دینا شروع کی۔کمرے سے باہر آکر ادھر ادھر دیکھا
مگر وہ نظر نہ آئی۔
’’ کہیں کچن میں تو نہیں گئی۔۔‘‘ اس نے سوچا تھا۔ دو دو سٹیپس پھلانگتا ہوا
وہ نیچے آرہا تھا مگر کچن میں جانے کے لئے جیسے ہی وہ ٹی وی لاؤنج سے گزرا
تو اس کے قدم وہی رک گئے ۔ وہ صوفے کے ساتھ ٹیک لگائے اکڑوں بیٹھے سو رہی
تھی۔اس کا چہرہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ وہ خراماں خراماں اس کے پاس
گیا۔وہ سوئے ہی بالکل دس سال پہلے والی کرن لگ رہی تھی۔ اس کی کرن ۔ جب
دانیال اس کی زندگی میں بھی نہیں آیا تھا۔ بچوں کی طرح منہ بنا کر ٹی وی
لاؤنج میں آکر اس طر ح سو جانا۔ وہ اور انکل پورے گھر میں اس کو تلاش کرتے
مگر وہ صوفے کی اوٹ میں سوتی رہتی
’’ کرن۔۔‘‘ اس نے آہستہ سے ہلایا تو اس کی زلفوں میں جنبش پیدا ہوئی اور
ایک لٹ ان کی آنکھوں کے سامنے آگئی۔ وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کر
اپنی انگلی سے اس کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑیسنے لگا۔معصوم سا چہرہ۔دل چاہا
کہ ابھی اپنے ہونٹوں کی چاشنی اس کی پیشانی پر نقش کر دے مگر جذبات اس پل
ٹھنڈے ہوگئے جب وہ اس کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے اٹھ گئی۔ اپنے آپ کو
سنھبالتے ہوئے اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر اپنے ہی دوپٹے کا پلو اس کے
پاؤں میں الجھ گیا اور وہ بس گرنے ہی والی تھی کہ دانش نے اسے سنبھال لیا۔
اپنا داہنا ہاتھ اس کی پشت کے پیچھے حمائل کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ کو دوسری
طرف سے کمر کے پیچھے حمائل کر دیا۔ اس نے بھی انجانے میں اپنے دونوں ہاتھوں
کو دانش کے کندھوں پر کھ چھوڑے۔وہ یک ٹک بس اسے ہی دیکھتا رہا۔ ایک پل کے
لئے وقت نے آگے بڑھنا چھوڑ دیا۔
’’ اوہ۔۔۔ سوری۔۔۔‘‘تاجور کی کھنکار نے دانش کو اپنے ہاتھ پیچھے کرنے پر
مجبور کیا
’’ بھئی ٹی وی لاؤنج میں رومینس نہیں کرتے۔۔‘‘سوخ لہجے میں تاجور نے کہا
تھا
’’ بھائی ۔۔‘‘ شرماتے ہوئے کرن نے اپنا دوپٹہ صحیح کہا اور کچن میں چلی گئی
’’ لگتا ہے شرما گئی۔۔۔‘‘ تاجور اب بھی شوخ لہجے میں تھا مگر دانش کی
آنکھیں شرم کے پردے پروئی ہوئی تھی
’’لگتا ہے آپ بہت پیار کرتے ہیں کرن سے۔۔۔‘‘نورین نے سیڑھیاں اترتے ہوئے
کہا
’’ جی۔۔۔‘‘ وہ بس اتنا ہی کہہ سکا
’’آخر ایسے ہی تو ڈیڈ نے کرن کا ہاتھ دانش کے ہاتھوں میں دیا۔۔ کچھ سوچ
سمجھ کر ہی دیا تھا۔۔‘‘یہ سن کر اس کے چہرے پر ایک تبسم ابھر آئی مگر یہی
بات نورین کے چہرے کے رنگ کو متغیر کر گئی
’’ بالکل ٹھیک۔۔‘‘ اس نے جذبات کو قابو کرتے ہوئے کہا تھا۔اس بات سے اس کے
دل میں جو بھونچال پیدا ہوا تھا ، وہ اس نے اپنے تک ہی محدود رکھا
’’لیکن سنا ہے آپ نے تو شادی دھوکے سے کی تھی کرن سے۔۔‘‘ایک شاطرانہ نظر اس
نے دانش پر ڈالی ۔ یہ سنتے ہی دانش کو آٹھ سال پہلے کی غلطی یاد آگئی
’’ نورین۔۔‘‘ غصے میں تاجور نے نورین کی طرف دیکھا تھا
’’ ارے بابا۔۔ میں مذاق کر رہی تھی۔۔ اس میں اتنا غصہ ہونے والی کیا بات
ہے؟‘‘ اس نے مصنوعی انداز میں ہنستے ہوئے کہا تھا۔
’’ یہ مذاق تھا۔۔‘‘ تاجور کا انداز استفہامیہ تھا
’’ اور کیا نہیں۔۔۔۔!!‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر کچن میں چلی گئی۔
تاجور نے ہلکی سی تبسم کو چہرے پر بکھیرتے ہوئے دانش کی طرف دیکھا تو و ہ
اب بھی ماضی کے گناہ کو کوس رہا تھا
’’ جسٹ چِل یار۔۔۔!!‘‘ اس کی کمر پر تھپکی دی تو وہ مسکرا کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
|
|